اپنی آدھی زندگی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہر کوئی چاہتا ہے
کہ وہ دنیا میں ترقی کرے اور اپنا نام پیدا کرے مگراس معاشرے میں یہ سب
حاصل کرنے کے لیے اچھے اچھوں کی چپلیں گھِس جاتی ہیں۔جو علم کتابوں سے ملتا
ہے زندگی اس سے بہت مختلف ہے۔
سچائی ،ایمانداری،شرافت،انسانیت،ادب اور اعلی کردار گناہ ہیں اس معاشرہ کے
لیے۔ اگر کسی میں یہ سب بیماریاں ہوں تو وہ اس معاشرہ میں جینے کے قابل ہی
نہیں رہتا بلکہ سوسائٹی میں بگاڑ پیدا کر دیتا ہے کیونکہ اس معاشرے کو اب
ان چیزوں کی عادت ہی نہیں رہی بلکہ یہ معاشرہ تو کمینگی،کرپشن،
جھوٹ،فریب،دھوکہ دہی اور اخلاقی گراوٹ جیسی چیزوں کا عادی ہو چکا ہے ۔پھر
بھی اگر اس ساری بھیڑ میں اگر کسی میں ایمانداری،شرافت،انسانیت،ادب اور
اعلی کردار جیسی خصوصیات پیدا بھی ہو جائیں تو وہ گھٹ گھٹ کے مر جاتا ہے۔
جلدی کے چکر میں ہر آدمی کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتا ہے۔ لالچ ہمارے اندر تک
گھر کر چکی ہے اب ہم بھیک دینے سے کتراتے ہیں اور لالچ کے چکر میں کتنی رقم
جوئے میں ضائع کر دیتے ہیں ۔ ہمیں ہر کام جلدی کرانا ہے ، پتہ نہیں جلدی کس
بات کی ہے مگر ہر سرکاری یا غیر سرکاری کام کرانے کے لیے لوگ پیسے دینے کو
ثواب کا کام سمجھتے ہیں تاکہ ہفتوں کا کام دنوں میں اور دنوں کا کام گھنٹوں
میں ہو جائے۔ ہمارے ملک میں ایسا کون ہے جو یہ کہ سکے کہ اس نے زندگی میں
کبھی اپنا کام نکالنے کے رشوت نہیں دی ۔ یہاں نقلی وکیل، نقلی ڈاکٹر، نقلی
پولیس ، نقلی صحافی، یہاں تک کے نقلی میاں بیوی بھی ملیں گے جو اصلی سے
کہیں زیادہ اصلی نظر آتے ہیں۔ کسی بھی زندہ بندے کو مردہ قرار دے کر اسکی
جائیداد پہ قبضہ ہو جاتا ہے اور وہ ساری زندگی یہ ثابت کرنے میں لگا دیتا
ہے کہ وہ زندہ ہے مگر کاغذات یہ ثابت نہیں کر پاتے۔ آج ہماری زندگی کاغذ کے
پرزوں پہ چلتی ہے۔ پیدا ہوئے تو ثبوت کے طور پر کاغذی رجسٹریشن کراو اور
پہلے اپنا پیدائیشی سرٹیفکیٹ بنواو اور اس کے پیسے دو۔ اور اگر کوئی
محکمانہ غفلت کی وجہ سے اس میں کوئی غلطی نکل آئے تو پھر پیسے دو اور اسکی
تصیح کراو۔اس کے بعد تھوڑے بڑے ہوئے تو سکول جاو اور کاغذی دنیا میں کھو
جاو- بڑے ہوئے تو ملک کا رہائشی ثابت کرنے کے لیے شناختی کارڈ بنواو اور اس
کے بھی پیسے دو ۔پھر کاغذ کی ڈگریاں اکٹھے کرتے جاو اور ان انبار کو لے کر
جوتیاں چٹخاتے ہوئے نوکری تلاش کرو۔ مطلب اتنا پڑھ لکھ کے بھی کرنی غلامی
ہے اور اس کے لیے بھی پیسے دو ورنہ جوتیوں میں سوراخ بڑھتے جائیں گے ، کمر
جھکتی جائے گی ،بیماریاں بڑھتی جائیں گی ،فاقے گھر کرتے جائیں گے اور سر
میں سفیدی آتی جائے گی مگر کوئی بھی آپ کو نوکری نہیں ملے گی کیوں ؟ کیوں
کہ اس کے لیے تو سفارش چاہیے یا پھر پیسہ۔
والدین اپنے بچوں کو سب اچھے کام سکھاتے ہیں اور برے کاموں سے منع کرتے ہیں
۔ کتابوں میں سب اچھی اچھی باتیں لکھی اور پڑھائی جاتی ہیں مگر زندگی کا
سبق کوئی نہیں دیتا وہ انسان کو خود دھکے کھا کے سیکھنا پڑھتا ہے تو کیا
فائدہ اتنی پڑھائی اور ڈگریوں کا؟ ان ڈگریوں میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ اگر
آپ نے روڈ پہ گاڑی لے کر نکلنا ہے تو جیب میں زیادہ کاغذات کی ضرورت نہیں
بس وہ والے کاغذ ہونے ضروری ہیں جن پر بابائے قوم کی تصویر چھپی ہو۔میز کے
اوپر اور میز کے نیچے کی منطق نہیں پڑھائی جاتی ، فائلوں کو پہیے کیسے لگتے
ہیں یہ نہیں بتایا جاتا، کام کرانے اور میٹھا تیز کرنے کا کیا تعلق ہے یہ
نہیں بتا یا جاتا۔قانوں توڑنے اور نہ توڑنے دونوں پہ جرمانہ ادا کرنا پڑتا
ہے یہ نہیں بتایا جاتا،چھوٹے افسر اور بڑے افسر سے کام لینے کا کیا طریقہ
ہے یہ نہیں بتایا جاتا، اپنی حفاظت آپ ہی کرنی ہے ریاست نے کوئی آپ کا
ٹھیکا نہیں لے رکھا یہ نہیں سکھایا جاتا،اگر کچھ نہیں کر سکے تو کسی سے
امداد نہیں ملنی بلکہ دھوکہ اور فریب سے اس کے لالچ کا فائدہ اٹھا کے اپنا
کام کیسے نکالا جاتا ہے یہ نہیں بتایا جاتا۔
اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو کچھ بھی ممکن ہو جائے گا اس دنیا میں حتی کہ وہ
ڈگریاں بھی جو ہم اٹھارہ سے بیس سال پیسہ ،وقت اور صحت برباد کر کے کماتے
ہیں، آپ کو چند دنوں میں پورے ثبوتوں کے ساتھ مل جائیں گی۔ملک کو برباد
کرنے والے مافیا سے لے کر ملک کی حفاظت کرنے والے حکمرانوں تک سب پیسے پہ
چلتے ہیں ۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہم انجان بن جاتے ہیں۔ہمارے وزیر اعظم
چاہے کچھ کر نہیں پا رہے مگر کہتے بہت کچھ صحیح ہیں کہ اس ملک کو کرپشن کھا
گئی ہے اسے مافیا ترقی نہیں کرنے دیتا مگر وہ بھی مجبور ہیں کریں بھی تو
کیا کریں کہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہو ا ہے۔ بقول میر تقی میر؛
آنکھ پتھر ہوئی خود اپنی ہی عریانی سے
آئینہ ٹوٹ گیا شدتِ حیرانی سے
اب تو بات یہاں تک آ گئی ہے کہ گلگت میں سرعام یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ
جتنے ہزار ووٹوں سے جتواو گے اتنے ہزار کروڑ آپ کے علاقے کو ملیں گے اور
کہنے والا بھی وہ جو گلگت ، بلتستان کا ہی وفاقی وزیر ہے۔اب اسے دھمکی
سمجھیں یا پھر رشوت مگر شرط تو لگا دی اور اسی طرح خذر میں جتنے ووٹوں سے
جتواو گے اتنے پل بنوا دیں گے۔اور وہ بنیں گے نہیں بلکہ سمجھ لینا ہے کہ بن
گئے جیسے خیبر پختونخواہ میں 350 ڈیم بنائے تھے۔اگر ہمارے حکمران ایسے ہیں
تو ہمیں ان کو نہیں اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔کیونکہ ہم ہی نے
اپنے آپ سے اور دوسروں سے بہتر ان کو مانا اور انہیں ووٹ دے کر کامیات
بنایا اور آئیندہ بھی بناتے رہے گے جب تک ان کے پاس پیسہ ہےہمارے پاس لالچ
ہے۔ہمیں اپنے اخلاق و کردار پہ غور کرنا چاہیے کیونکہ جب تک ہم عا م لوگ
نہیں چاہیں گے کوئی اس معاشرہ میں سدھار نہیں لانے والا۔بقول اقبال؛
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
|