تاریخ سے یہ علم ہوتاہے کہ راجہ جامبولوچن نے شیراوربکری
کوایک ہی تالاب سے پانی پینے کی انوکھی ومنفردمثال دیکھ کرایک
شہربسایاتھاجوآج جموںکے نام جاناجاتاہے ۔ہرکس وناکس یہ جانتاہے کہ
شیراوربکری کی دوستی نہیں ہوسکتی لیکن راجہ نے دونوں کوایک ساتھ پانی پینے
کے حُسن اتفاق کومحبت ،بھائی چارے اورامن کی لازوال علامت تصورکیا۔ آپسی
بھائی چارے،امن اورمحبت کی علامت کے طورپرکسی شہرکاقائم ہوناباعث افتخاربات
ہوتی ہے ۔یقیناجموں شہرکویہ اعزازحاصل ہونایہاں کے باشندگان کےلئے باعث
فخرہے ۔تاہم 1947ءمیںلاکھوں کی تعدادمیں مسلمانان جموں کوبلوائیوں نے
شہیدکرکے اس شہرکے نام کوداغدارکیا۔فسادات 47ءکوگزرے سات دہائیاں گذرچکی
ہیں لیکن آج بھی چندفرقہ پرست عناصریہاں کے مسلمانوں کاقافیہ حیات تنگ کرنے
اوراُن پرفسادات کی تلوارلٹکائے رکھنے کاکوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے
جوکہ نہایت ہی افسوسناک بات ہے۔تاہم حوصلہ افزابات یہ ہے کہ جموں شہرکے
لوگوں نے ہمیشہ ہندومسلمان بھائی چارے کوفروغ دیاہے اوروہ ہربارفرقہ پرستوں
کی مذموم سازشوں کوناکام بناتے رہے ہیںاوراُمیدقوی ہے کہ وہ آئندہ بھی
ایساہی کریں گے۔
حکومت ہندنے 31اکتوبر2019 ءکے بعدجموں وکشمیرریاست کومرکزی زیرانتظام علاقہ
(یونین ٹیریٹری ) میں تبدیل کردیاتھا ۔پہلے جموں وکشمیرتین صوبوں یعنی
جموں،کشمیراورلداخ پرمشتمل تھالیکن لداخ کوالگ سے یوٹی بنائے جانے سے اب
سابق ریاست کے دوہی صوبے یعنی جموں اورکشمیر رہ گئے ہیں۔ان دوصوبوں میں
وادی کشمیرصوبہ مسلم اکثریتی آبادی جبکہ صوبہ جموں ہندواکثریتی آبادی
ہے۔جموں شہر صوبہ جموں میں مرکزی حیثیت رکھتاہے اس کی وجہ ہے کہ یہ
دارالخلافہ کادرجہ رکھتاہے ۔صوبہ جموںکے دیگراضلاع راجوری ،پونچھ،ریاسی
،اودہم پور،سانبہ ،کٹھوعہ،رام بن،ڈوڈہ اورکشتواڑسے لوگوں کابلامذہب وملت
اپنی ضرورتیں پوری کرنے کےلئے جموں شہرمیں آکرآبادہونافطری عمل ہے ۔جیساکہ
ہم سب جانتے ہیں کہ دارالخلافہ شہرجموں میںجوتعلیمی، کاروباری اوردیگرضروری
سہولیات میسرہیں وہ کسی دوسرے ضلع یاشہرمیں نہیں ہیں ۔اس پہلوکے پیش نظربہت
سے لوگ عارضی یامستقل طورپرجموں میں آبادہوئے ہیں لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے
جموں میں ایک مخصوص طبقہ (مسلمانوں)کوشرپسندعناصرنشانہ بناکران پرڈیموگرافی
تبدیل کرکے ہندواکثریتی آبادی والے جموں شہرکومسلم اکثریتی ضلع بنانے کے بے
بنیادالزامات لگارہے ہیں ۔
راقم ان بے سروپا الزامات پرتبصرہ کرنے سے قبل مسلمانان جموں کے حوالے سے
بات کرنے کامتمنی ہے کہ کس طرح اکثریتی آبادی کے چندفرقہ پرست عناصرکی وجہ
سے جموں کی اقلیتی آبادی (مسلمانوں)کاجینادوبھرکیاجاتارہاہے ۔جب ہم
مسلمانان جموں کی بات کرتے ہیں توان میں سب سے پہلے جموں ضلع میں صدیوں سے
آباد وہ مسلمان آتے ہیں جن کے آباواجداد 47ءمیں شہیدکئے گئے جونوے
فیصدگوجربکروال قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں اوراس کے بعدجومسلمان دیگراضلاع
راجوری،پونچھ ،ڈوڈہ،کشتواڑ،رام بن یاوادی کشمیرسے نامساعدحالات
یاپھرسماجی،معاشی اوراقتصادی پریشانیوں اورمجبوریوںکے سبب جموں شہرمیں
آکرآبادہوئے ہیں ۔مجموعی طورپریہ کہاجاسکتاہے کہ جموں ضلع میںعارضی یامستقل
طور رہنے والے مسلمان ۔مسلمانانِ جموں کہلاتے ہیں جن میں 80 فیصدسے زائد
کاتعلق گوجربکروال طبقہ سے ہے اورجب فرقہ پرست عناصر مسلمانان جموں کا
قافیہ حیات تنگ کرتے ہیں تووہ سانبہ ،کٹھوعہ ،ریاسی اوراودہمپورکے مسلمانوں
کاحقہ پانی بندکرنے کی بھی مذموم سازشیں کرتے ہیں۔اگریہ کہاجائے کہ جموں
،سانبہ ،کٹھوعہ،ریاسی اوراودہمپور کے مسلمانوں کوفرقہ پرست عناصر یکساں
طورپرذہنی طورپرہراساں کرتے ہیں اوران میں باربار1947ءجیسے حالات پیداکرنے
کاخوف پیداکرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں جس کی مثال چندبرس قبل اُس وقت کے
وزیرجنگلات لال سنگھ نے گوجروں کے ایک وفدکے ساتھ ملاقات کے دوران اُنہیں
یہ کہناکہ کیاآپ 47ءبھول گئے ہو؟۔جوکہ ایک دھمکی تھی کہ مسلمانان جموں آج
بھی محفوظ نہیں ہیںجس پرجموں کے مسلمانوں نے غیرت کامظاہرہ کرتے ہوئے
شدیداحتجاج بھی درج کروائے تھے۔
اپنی بات کو موضوع کی طرف بڑھاتاہوں ،گزشتہ دنوں ایک وکیل موصوف نے روشنی
ایکٹ کے تحت سرکارنے جوسرکاری زمینیں جموں وکشمیرکے لوگوں کے نام الاٹ کی
ہیں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے الزام لگایاتھاکہ سابقہ سرکارنے مسلمانوں
کودیگراضلاع کے مسلمانوں کوجموں میں آبادکرنے کےلئے یہ قانون بنایاتھااور
جموں توی کے گردجومسلمان (گوجربکروال) بیٹھے ہیں وہ ڈیموگرافی تبدیل کرنے
کے مقصدسے بیٹھے ہیں۔اورروشنی ایکٹ کے تحت سب سے زیادہ فائدہ مسلمانوں
کودیاگیا۔اس سلسلے میںایک نجی ٹی وی چینل پرایک ڈبیٹ (Debate)میں جموں کے
ایک ہونہاراورمعروف مسلمان وکیل ایڈوکیٹ شیخ شکیل نے جموں کے مسلمانوں کے
خلاف یہاں کے غیرمسلموں کے دِلوں میں غلط Narrative پیداکرنے والے ایڈوکیٹ
انکورشرماکے الزامات کاجواب ان الفاظ میں دیتے ہوئے انہیں بے
بنیادقراردیا۔موصوف کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں۔
”جموں کے مسلمان سیاسی طورپریتیم ہیں ،میں نے ایک بارنہیں کئی بارجموں کی
لیڈرشپ اورکشمیرکی لیڈرشپ کے سامنے یہ بات کہی کہ جموں کامسلمان یتیم ہے اس
کوکتنامارناہے ۔نومبر1947ءمیں جموں کے مسلمانوں کاکیاحال ہوا،2لاکھ سے
زیادہ مسلمان شہیدہوئے جموں کی گلیوں میں۔میرے سامنے کشمیری پنڈت برادری کے
نمائندہ چرنگوصاحب بیٹھے ہیں،1988-89میں کشمیرمیں اقلیت کے ساتھ کیاہوامجھے
پوری ہمدردی ہے کیونکہ میں بھی جموں میں Minority میں ہوں ،آج سہولیات
،مراعات اورری ہیبلی ٹیشن کشمیری پنڈت بھائیوں کی نہیں کی گئی ،کیا47ءکے
بعدکسی نے جموں کے مسلمانوں کاکندھاتھپتھپایا،کیاکسی نے یہ کہاکہ جموں کے
مسلمانوں کےلئے بھی کوئی ٹاﺅن شپ ہوگا،حالانکہ یہاں پرحکومت کس نے
کی؟۔ہماراکوئی نہیں بنالیکن گوجرنگر،بٹھنڈی ،سنجواں یہ اب انٹرنیشنل نقشے
کے اوپرہیں ،کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی کی سازش تھی یہاں پرمسلمان بسانے
کی۔جن لوگوں کاذکرانکوربھائی کررہے ہیں جوتوی میں ہے 788،اس میں بتائیے
کتنے منسٹرہیں ،کتنے بیوروکریٹ ہیں یہ کون لوگ ہیں؟جوتوی کے کناروں پربیٹھے
ہیں یہ تمام گوجراوربکروال ہیں ،یہ میرے Nomads بھائی ہیں ،کوئی پانچ مرلے
،کوئی چھ مرلے اپنی بھینسیں لے کر۔ان کوہم نے کہاں چھوڑناہے ؟کیاوہ جموں
وکشمیرکے باشندے نہیں ہیں؟۔کیاجموں وکشمیرسرکارکی کوئی ذمہ داری انہیں
Rehablitate کرنے کی نہیں ہے ؟ان کاکوئی نمائندہ نہیں ہے ۔ان کے نمائندے
بولتے نہیں ،لیکن میں ایک چیزکہناچاہتاہوں ۔ایک کوچی ہوتی ہے ناسفیدی کرنے
والی ۔اس کے ساتھ آپ سب کوپینٹ نہیں کرسکتے ۔کہ سبھی چورہیں۔لوگوں کی
مجبوریاں ہیں ۔کوئی جموں کے مسلمانوں کے ریسکیو(بچاﺅ)میں نہیں آیا۔کوئی
بتائے کہ جموں کے مسلمانوں کےلئے کوئی کالونی ،کوئی ایمپلائمنٹ پیکیج ،کوئی
کیٹگری ۔آپ اس کے برعکس دیکھئیے ۔ظلم ہوا،اپنے گھرچھوڑنے پڑے ہمارے بھائیوں
کوکشمیرسے ۔آپ دیکھیے کیاہندوستان کے الگ الگ حصوں میں کیاایڈمیشن یاکنسیشن
نہیں ہے ۔کیاپرائم منسٹرکاایمپلائمنٹ پیکیج نہیں ہے میرے کشمیری پنڈت
بھائیوں کےلئے اورجموں کے تین مقامات (Localties)ان کوکھٹکتی ہیں۔ایک
مزیدار حقیقت شیئرکرناچاہتاہوں ۔بڑاکچھ کہاگیاکہ مسلمان کھاگئے ۔مسلمان
Beneficieries ۔میں صرف جموں Province کاآنکڑااورجموں ضلع کاآنکڑابتاﺅں
گا۔بڑے بڑے لوگوں کے نام لئے گئے ۔غلط غلط ہے اس کوکبھی نہیں کہوں گاکہ وہ
ٹھیک ہے۔ڈویژنل کمشنرجموں کے اعدادوشمارہیں ۔کٹھوعہ میں 10023 کنال ،سانبہ
میں 2537 کنال زمین ،جموں ضلع میں 44912 کنال ،اودہمپورضلع میں
10674کنال،ریاسی میں 13380 کنال ،رام بن میں 18383کنال،ڈوڈہ میں
35425کنال،کشتواڑمیں 10048کنال،راجوری میں 6529 ،پونچھ میں 6597کنال روشنی
ایکٹ کے تحت جوزمین ریگولرائزہوئی ہے ۔کل جموں ڈویژن میں جوزمین
ریگولرائزہوئی ہے 1لاکھ 58ہزار512کنال ۔جموں ضلع میں 44912 کنال میں سے صرف
1180 کنال زمین مسلمانوں کے نام ریگولرائزہوئی ہے۔اب یہ الزام لگارہے ہیں
کہ یہ ایک سازش تھی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی ،انکورجی ہیرانگرکٹھوعہ سے
جموں آئے، میں رام نگرسے جموں آیا،چرنگوصاحب کشمیرسے آئے ہیں۔اسی طرح سے
لوگ جموں آتے ہیں کیونکہ جموں دارالخلافہ شہر ہے اوریہاں لوگ بہترتعلیمی
سہولیات اورروزگارحاصل کرنے کےلئے آتے ہیں۔جموں میں سب لوگ بھائی چارے سے
رہتے ہیں لیکن جوفرقہ وارانہ ماحول بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں ،اگرایسے ہی
نفرتیں پھیلائی جاتی رہیں تواس کے نتائج بھیانک ہونے کاخدشہ ہے ۔میں اپنے
بھائی انکورسے بھی کہوں گاکہ آئیے ہم سیاست کریں ہندومسلمان پرنہیں،سڑک
،بجلی ،تعلیم اورروزگارکےلئے سڑکوں پرآکرسیاست کریں“۔
بے شک ایڈوکیٹ موصوف نے بڑی بے باکی سے بے حس ضمیروں کوجھنجھوڑاہے اورجولوگ
حقیقت سے منہ پھیررہے ہیں انہیں آئینہ دکھایاہے ۔ میں ایڈوکیٹ شیخ شکیل
صاحب کو داددیتاہوں جنھوں نے مسلمانان ِ جموں کی نمائندگی بے باکی کے ساتھ
کرتے ہوئے گوجروں کے بہی خواہ ہونے کادم بھرنے والے نام نہادنمائندوں کوان
کی اصلیت سے روشناس کرایااوریہ تاثردیاکہ آپ کس حدتک نمائندگی کاحق
اداکررہے ہیں اس پرعوام کی نظربڑی گہری ہے اوروہ یہ نہ سمجھیں کہ لوگ
بیوقوف ہیں۔ایڈوکیٹ موصوف حالیہ ٹی وی مباحثے (Debate) سے پہلے بھی
متعددبارمیڈیاپر جے ایم سی یاجے ڈی اے کی منصوبہ بندطریقے سے خانہ بدوش
گوجربکروالوں کونشانہ بناکرکی جانے والی انہدامی کارروائی کے خلاف
آوازبلندکرچکے ہیں جس کےلئے وہ مبارکبادکے مستحق ہیں ۔ایڈوکیٹ شیخ شکیل نے
یہ ثابت کیاہے کہ وہ حقیقی معنوں میں مظلوموں کی حمایت ، حق اورانصاف کی
وکالت کرتے ہیں اوراپنے عزم سے انہوں نے یہ بھی ظاہرکردیا کہ وہ آئندہ بھی
مظلوموں کی آوازبلندکرتے رہیں گے ۔میرایہ مانناہے کہ ایک وکیل کااس طرح سے
ظلم وستم کے شکارلوگوں کی نمائندگی کرنے کےلئے آگے آناخوش آئنداورحوصلہ
افزابات ہے اوریہ اُمیدبھی کی جارہی ہے کہ ایڈوکیٹ شیخ شکیل صاحب سے تحریک
پاکردیگروُکلاحضرات بھی مظلوموں کے ساتھ انصاف کی پالیسی پرعمل پیراہوں گے
اورمعاشرے میں عدل وانصاف کی فراہمی کےلئے اپناکردارنبھائیں گے۔گوجربکروال
قوم کے نام نہاد نمائندوں اورسیاستدانوں کوایڈوکیٹ شیخ شکیل سے سبق
لیناچاہیئے کہ ہندومسلم بھائی چارے کا تحفظ اورایک مخصوص طبقہ پربے
بنیادالزامات لگائے جانے کاڈٹ کرمردانہ وارمقابلہ کیسے کیاجاتاہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانا ن جموں سیاسی طورپریتیم ہیں کیونکہ
اگرایسانہ ہوتاتوسابقہ حکومتیں کسٹوڈین اراضی کوکوڑیوں کے داموں لوگوں
کوالاٹ کرنے کاقانون نہ بناتیں ۔1947ءمیں شہیدہوئے مسلمانوں کی پراپرٹی
کوتحفظ دینے کےلئے قانون بنناچاہیئے تھالیکن بدقسمتی سے قانون اس کے برعکس
بنا۔ان املاک پرسب سے زیادہ حق 1947ءکے بعدیہاں پربچے ہوئے مالی طورناآسودہ
مسلمانوں(گوجربکروالوں) کابنتاتھا۔ہوناتویہ چاہیئے تھاکہ کسٹوڈین املاک صرف
مسلمانوں کوالاٹ کی جاتیں لیکن یہاں ایک سازش کے تحت کسٹوڈین املاک
پرغیرمسلموں کوقابض کیاگیا۔ اگرکسٹوڈین اراضی کے تحفظ اورانہیں
مسلمانوںکوہی الاٹ کرنے کاقانون بنتاتوآج جموں کے مسلمانوں کی حالت بھی
شایدقدرے بہترہوتی ،اتناہی نہیں اوقاف اسلامیہ کی جائیدادوں کی بھی جموں
صوبہ بالخصوص جموں،سانبہ،کٹھوعہ،ریاسی،اودہم پوراضلاع میں لوٹ کھسوٹ کی
گئی،یہاں تک کہ قبرستانوں کی اراضی پربھی جبراً قبضہ کرنے کی کوششیں کی
گئیں ،اورسینکڑوں کنال اراضی غیرقانونی قبضے میں ہے ۔گزشتہ ایک دہائی
میںجموں میں مسلمانوں کوہراساں کرنے کی کوششوں میںبڑے پیمانے پراضافہ ہواہے
۔کبھی جموں میونسپل کارپوریشن جموں اورکبھی جے ڈی اے کی انہدامی کارروائی
مسلم (گوجر)بستیوں میں یکطرفہ شروع کی جاتی رہی ہیں ۔مجھے یادہے 22 فروری
2017 کادِن جب پی ڈی پی۔بی جے پی مخلوط سرکارکے دوراقتدارمیں سانبہ میں ڈی
سی سانبہ اورجے ڈی اے محکمہ کے اہلکارپولیس کے مددسے سرورمیں خانہ بدوشوں
کے نہ صرف 20 کنبوں کے کُلے جلاکرراکھ کے ڈھیرمیں تبدیل کرتے ہیں بلکہ
یعقوب نامی ایک نوجوان پرپولیس اہلکارگولیاں برساکراس کوہلاک بھی کردیتے
ہیں۔کیا انتظامیہ کے پاس خانہ بدوشوں کواُجاڑنے سے پہلے انہیں بسانے کےلئے
منصوبہ نہیں ہوناچاہیئے تھا؟۔اسی طرح باغ جوگیاں ہیرانگرمیں قبرستان کی
اراضی پردنگل کرانے کی کوششیں کی جاتی ہیں ،گول گجرال میں مدرسہ
شہیدکیاگیا،کیارکھ بھروٹیاں عبداللہ بستی سے خانہ بدوش گوجروں
کواُجاڑکروہاں ایمز(آل انڈیاانسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز)بناناضروری
تھا،کیاکوئی دوسری جگہ نہیں تھی جہاں ایمزبنایاجاتا؟۔کیاخانہ بدوش بکروالوں
کوبھگانے کےلئے فرقہ پرست عناصرکی طرف سے رسانہ میں آٹھ سالہ معصوم بچی
کومندرکے اندرعصمت ریزی کاشکاربناکراس کاقتل کرناچشم کشانہیں ہے؟۔کیایہ
انتظامیہ کی مسلمانان جموں کوہراساں کرنے اوردرپردہ طورپرفرقہ پرستوں کے
ایجنڈے کوکامیاب بنانے کی سازش نہیں تھی؟۔
گوجروں کے نام پردرجنوں تنظیمیں قائم ہیں جواپنی اپنی سیاسی روٹیاں سینکتی
ہیں اورحقیقی معنوں میں کوئی بھی مسلمان کی حیثیت سے سوچنے کاقائل نہیں ۔بے
شک گوجرایک بڑی قوم اورقبیلہ ہے لیکن ہمیں گوجرہونے سے زیادہ فخرمسلمان
ہونے پرہوناچاہیئے ۔گوجربکروال قوم کے نمائندوں اورمسلمانوں کے بہی خواہ
ہونے کے دعویدارکا اہم مواقعوں پرخاموش رہنامسلمانان جموں کےلئے سم قاتل
اورناقابل معافی جرم ہے۔راقم کایہ مانناہے کہ مسلمانوں جموں کی ناگفتہ بہ
حالت کےلئے نہ صرف کشمیری سیاستدان بلکہ گوجربکروال قوم کے نمائندے ذمہ دار
ہیں۔نااُمیدی کفرہے اس لیے ہم اُمیدکرتے ہیں کہ جموں کے امن پسندعوام آپسی
بھائی چارہ قائم رکھ کرفرقہ پرستوں کی مذموم سازشوں کوناکام بنائیں گے
اورکشمیری سیاستدا ن اورگوجربکروال قوم کے نمائندے اپنے فرائض کی انجام دہی
میں کوتاہی نہیں برتیں گے اوراس عزم کااعادہ کریں گے کہ وہ مسلمانان جموں
کوسیاسی ،معاشی اوراقتصادی طورپرمضبوط اورمستحکم کریں گے۔جموں شہرامن
اورمحبت کی علامت کے طورپرقائم ہواتھااس لیے جموں شہرکے باشعورلوگوں ،
سیاسی نمائندوں،انتظامیہ اورحکومت کافرض بنتاہے کہ وہ جموں کے خرمن امن میں
آگ لگانے والے عناصر کویہاں کاپُرسکون ماحول خراب کرنے کی اجازت نہ دیں
اوراگرکوئی فرقہ پرست عناصرجموں کے پرامن ماحول کودرہم برہم کرنے کی سازش
کرتاہے تووہ ان عناصرکے خلاف آوازبلندکریں ۔حکومت کوچاہیئے کہ وہ فرقہ پرست
عناصرکے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل کرنے سے گریزنہ کرے۔
|