اس کو اپنی کم مائیگی کا شدید احساس اس وقت ہوا جب آپریشن
کے تین چار گھنٹوں کے بعد وہ کٹے ہوئے پیٹ کے ساتھ گورنمنٹ ہسپتال کی مختلف
وارڈ رومز میں ایک خالی بستر کے لیے یہاں سے وہاں لے جائی جا رہی تھی ۔ ویل
چیر پر اس کا وجود صرف ایک بستر کا متلاشی تھا ۔ تازہ تازہ کٹے پیٹ کے ساتھ
بیٹھنا بدترین سزا لگ رہا تھا ۔
اپنی ذات پر ترس محسوس کرتے ہوۓ آنکھوں میں آنے والے آنسووں کو اس نے بری
طرح جھڑک کر خود سے دور کیا ۔ اور اس خوشی کو محسوس کرنے کی کوشش کی جو
ساتھ سال بعد دوسری بار ماں بننے کی تھی ۔ اس نے سوچا یہ وقت تو گزر جائے
گا ۔ پر وہ وقت کتنا خوبصورت ہو گا جب وہ اپنے سات سالا بیٹے کو اس کی بہن
تحفے میں دے گی ۔ وہ خوشی ان سب تکلیفوں کو مٹا دے گی جو ان نو مہینوں میں
اس نے سہی تھی ۔
وہ اتنی معمولی تھی کہ کوئی نہیں چاہتا تھا کہ وہ دوبارہ ماں بنے ۔ وہ ایک
ایسی بیوی اور بہو تھی جسے صرف اس کی واحد اولاد کی وجہ سے زندگی اور گھر
میں جگہ ملی ہوئی تھی ۔ پر اب اس کی جان سے پیاری اولاد چپکے چپکے اس سے
اپنے لیے کوئی بہن ، بھائی مانگتی تھی ۔ اور سات سال کے بعد جب birth
control کی گولیوں کو لینے کے باوجود وہ امید سے ہو گئی تو اسے لگا کہ ننھے
ہاتھوں کی دعا قبول ہو گئی ۔ اور پھر گھر میں جیسے ایک طوفان آ گیا ۔ اسے
یہاں تک کہا گیا کے اس شادی کو قائم رکھنا چاہتی ہو تو اس بچے کو پیدا مت
کرو ۔
اسے معلوم تھا وہ شادی تو پہلے ہی اس کے بیٹے کے وجود سے قائم تھی ۔کیوں کے
وہ اتنے آلہ خاندان کا وارث تھا اور بدقسمتی سے وہ وارث اس ان چاہی بہو سے
پیدا ہوا تھا جسے اس خاندان کا خوبصورت ، لائق اور لماؤ بیٹا جانے کہاں سے
بیاہ لایا تھا ۔
وہ پتھر کی بن گئی اس کے دماغ نے کہا ۔ بیٹے کی خوشی پوری کرتے کرتے کہیں
اس کا گھر ہی نہ بکھر جائے ۔ پر دل نے کہا جو زندگی وہ جی رہی ہے اور کتنا
جی پائے گی ۔
اتنی نفرتوں کے ساتھ کب تک سانس لے پائے گی اور جب جائے گی تو کیا اپنےوجود
کے ٹکڑے کو اکیلا سسکنے کے لیے چھوڑ جائے گی ۔ کوئی تو ہو جس کے گلے لگ کر
وہ اپنے دکھ بانٹ سکے گا ۔ وہ ڈٹ گئی ۔
دوسرا طوفان تب آیا جب چھ مہنے بعد یہ معلوم ہوا کہ اس کی کوکھ میں اس کے
بیٹے کی بہن ہے ۔ اس نے آس پاس کی نفرتوں کو آکسیجن کی طرح اندر لے کے اس
نے دل میں جھانکا تو دل خوش تھا بھائی کے لیے بہن کا تحفہ بے مثال تھا ۔
ماں کے بعد بہن سے ذیادہ غم سار کوئی نہیں ہو سکتا ۔
رات گیارہ بجے ہوئے آپریشن کے بعد صبح سات بجے وارڈ میں جانے کا فرمان پا
کر وہ ایک کے بعد دوسری وارڈ کے دھکے کھا رہی تھی ۔ دو چار وارڈُ گھوم کر
آخر ایک وارڈ میں اسے لیٹنے کی اجازت مل ہی گئی ۔ اس نے آنکھیں بند کر کے
سکون کا سانس لیا پر آزمائش ابھی باقی تھی ۔ جہاں اسے لیٹنے کو کہا جا رہا
تھا وہاں پہلے سے ایک عورت موجود تھی ۔ ڈاکٹر نے نظریں چراتے ہوئے کہا پاؤں
کی طرف لیٹ جاؤ اسے سات سال پہلے کا منظر یاد آیا۔ جب اس کا بیٹا دنیا میں
آیا تھا ۔ منظر ویسے کا ویسا ہی تھا۔ اسے بہت پہلے کا کوئی لمحہ بھی یاد
آیا جب رات کو ڈر کر وہ اپنی ماں کے پاؤں کی طرف آ کر لیٹ گئی تو آنکھ
کھلنے پر ماں بولی “ماں صدقے پاؤں کی طرف کیوں لیٹی ہو” اسے اپنی دیورانی
کا وقت بھی یاد آیا جب اسی ہسپتال میں اس کے لیے پرائیویٹ کمرے کا بندوبست
کیا گیا تھا۔
اپنی اوقات کے حوالے سے شک و شبہ بھی دور ہوگیا ۔ دن ایک بجے تک اس کی ہمت
جواب دے گئی اس نے ڈاکٹر کی منت کی کے اسے گھر جانے دے ۔ ڈاکٹر نے بھی شکر
کیا کہ ایک مریض تو کہ ہو گا ۔ اس نے کہا بی بی لکھ کر دیں کہ میں اپنی
مرضی سے گھر جا رہی ہوں اور کوئی مسلۂ ہوا تو میں خود ذمہ دار ہوں ۔ اس نے
سو بار شکر کے ساتھ لکھ دیا ۔
دن دو بجے وہ اپنے بیٹے کے پاس تھی جو اپنی بہن کو پا کرنے حد خوش تھا ۔
اور اپنی ماں کے لیۓ بے حد فکر مند تھا اسے اور تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا
پر بار بار پوچھتا امی آپ کے لیے پانی لاؤں ؟
ان ننھی آنکھوں میں اس کے لیے بے حد محبت تھی ۔ اب اس سے محبت کرنے والے
ایک ننھے وجود کا اضافہ ہو گیا اور یہی محبت اسکا قل حاصل تھی ۔
گپ اندھیرے میں دو جگنو ۔
|