رات کی تاریکی میں شہر کا سناٹا
اور جانوروں کی آوازیں تب تک بڑی لگتی ہیں جب تک اچھی اور بڑی آوازوں کا
موازنہ کرنے کی وجوہات ہماری زندگی میں کوئی حیثیت رکھتی ہوں . دنیا کا
کوئی ملک ہو اور اس ملک میں کس بھی رنگ و نسل کے لوگ بستے ہوں ان کے جینے
کے انداز سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ ریاست اور اسکے حکمران کسقدر خدا ترس ہیں
. جن ممالک میں ٹیلیویژن کے پروگراموں میں چیخ چیخ کر اپنے اور قوم کے وقار
کی دھجیاں اڑانے اور اخبارات کے صفحات پر جھوٹ لکھنے والے سیاستدان اپنی
شکل ، الفاظ اور کردار و گفتار میں وحشت کا عکس پیش کریں وہ معاشرے ادھوری
تصویر ہوتے ہیں اور ان کے کینوس پہ کوئی بھی اپنے رنگ بکھیر دے تو اسے اس
مملکت کی خودمختاری اور سالمیت کے لیے خطرہ کہنا ایک مذاق ہے .
میرے ایک حالیہ مضمون پہ بہت سے دوستوں اور پاکستان میں پڑھنے والے طلبہ و
طالبات کا پیار مجھ تک پہنچا جو اس بات کی علامت ہے کہ ذہن ابھی تک زندہ
ہیں مگر جسم کی حرکت منفی سمت ہو رہی ہے . نیچے کی سطور میں کچھ گزارشات
پیش خدمت ہیں امید کرتا ہوں کہ ذہن جسم کا ساتھ دیں گے اور وہ انقلاب کہ
جسکا ذکر ہر روز ہمارے صحافی ، ٹیلیویژن ہوسٹ اور تھنک ٹینک کرتے ہیں عوام
کو بھی سمجھ آئے گا .
دوسروں کے کندھے پہ بندوق رکھ کہ نشانہ لگانا ایک پرانی رسم ہے اور کامیاب
بھی – پاکستان کے بننے سے پہلے اور بعد میں اور آج تک یہ دستور سیاستدانوں
کا منجھا ہوا طریق ہے . لفاظی میں الجھا کر اپنی شہرت اور اپنے اخبار اور
مواصلاتی ادارے کی اہمیت میں اضافہ ہمیشہ سے میڈیا کے لوگوں کی پالیسی رہا
ہے مگر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو نہ تو کسی میڈیا کے محتاج تھے اور نہ انکے
پاس کوئی جاگیر تھی کہ جسکا نام ان کے نام کے ساتھ جڑا رہتا . ان لوگوں کا
کردار انقلاب تھا اور گفتار میں یہ خود ہی خود کی پہچان تھے .
حضرت شیخ سعدیؒ لکھتے ہیں کہ بادشاہ قلعے کی فصیل پر چہل قدی کرتے ہوئے کہہ
رہا تھا کہ میں بڑا ہی خوش بخت ہوں۔ میرے خزانے بھرے ہیں۔ میرے حرم میں خوش
شکل عورتیں ہیں، میرے بیٹے جری جوان ہیں اور میری فوجوں کی دھاک اردگرد کے
ممالک پر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
فصیل کے نیچے سے آواز آئی الحمداللہ میں بھی خوش نصیب ہوں۔ اس شہر میں مجھ
جیسا کوئی نہیں۔ میرے ربّ کا مجھ پر خصوصی کرم ہے۔ میں اسکی ہر نعمت کا شکر
گزار ہوں۔ کون ہے جو مجھ سے موازنہ کرے۔ کون ہے جو ربّ العالمٰین کی نعمتیں
گنوائے۔۔۔۔۔
بادشاہ حیران ہوا او ر پھر آواز لگائی۔مجھے خوشی ہے کہ میری رعایا بھی اتنی
ہی خوشحال ہے۔
اے پکارنے والے اپنا دامن پھیلا میں تجھے اشرفیاں پھینکوں۔ یہ تیرا انعام
ہے۔۔۔۔۔۔
فقیر بولا:۔ اے بادشاہ ستر پوشی کیلئے ایک لنگوٹ کے سوا میرے جسم پر کوئی
کپڑا ہی نہیں دامن کہاں سے پھیلاؤں۔۔۔۔۔۔
یہ صورت حال تب نظر آتی ہے جب وقار ہر شے سے پیارا ہو اور رب کے نظام پہ نہ
صرف بروسہ ہو بلکہ اس کی جھلک ہر کوئی اپنے اندر پیدا کرے اور اس سے عالم
کو منور کر دے . جب ضرورتیں کم تھیں تو تب بھی گزارہ ہو جاتا تھا اور آج جب
ضرورتوں کے جزیرے قناعت کے پانیوں میں وسیع تر ہوتے چلے جا رہے ہیں تو
ہمارا وقار بھی ڈوب رہا ہے .
اہل سیاست کسی کے نہیں ہوتے اور اگر وہ اہل سیاست کسی اسلامی جمہوریہ کے
حکمران بھی ہوں تو پھر جمہور کو خود کچھ کرنا پڑتا ہے ، تنقید اچھی چیز ہے
مگر جب اہل علم اور فکر ان سیاستدانوں کو لوٹ مار کا سرٹیفکیٹ عطا کر دیتے
ہیں تو پھر ظلم کے کالے بادل ہی نظر آتے ہیں . اس صورتحال میں امید کی کرن
کہا ملتی ہے یہ سوچنے والی بات ہے .
انصاف کبھی ادھورا یا آدھا نہیں ہوتا اور اللہ کی ذات سے بڑا منصف کوئی
نہیں ہو سکتا مگر اب چونکہ عوام اپنے کندھوں پہ ایسے حکمران لادھ کے لائی
ہے اس لیے ان حکمرانوں کے انصاف پہ تنقید کا حق عوام کو حاصل نہیں ہے . ایک
دور تھا جب حکمران کردار میں ولایت رکھتے تھے اور ان کے فیصلے وقت کی تاریخ
بنا کرتے تھے مگر آج کا دور وہ نہیں ہے جہاں ایک بادشاہ کسی فقیر کی کٹیا
پہ ہاتھ باندھ کر اپنی الجھن کا حل تلاشتہ تھا اور تب تک خاموش رہتا جب تک
کہ فقیر اپنے رب کی رضا سے اسے اپنے مشورے سے نہ نوازتا . تاریخ ہند ہی کا
مطالعہ کرتے ہیں محمد بلبن بادشاہ بنا تو تاج دھلویؒ کو کئی پیغام بھجوائے
مگر درویش نے شاہ سے ملنے کی خواہش نہ کی۔ ایک رات بلبن اپنے وزیر کے ہمراہ
تاج دھلویؒ کی کٹیا پر حاضر ہوا تو آپ ؒ تہجد کیلئے کھڑے ہو گئے۔ وقت گزرتا
گیا۔ بارش شروع ہوگئی اور بادشاہ بھیگ گیا۔ سردی بڑھ گئی تو وزیر نے کہا
حضور آپ بادشاہ ہیں اور فقیر کے جھونپڑے کے باہر بھیگ رہے ہیں۔ بلبن نے کہا
نہیں۔ بادشاہ وہ ہے جو نماز کیلئے کھڑا ہے اور وہ میرے جیسے فقیر کی پرواہ
نہیں کر رہا۔ اگر میں بادشاہ ہوتا تو وہ میرے در پر آتا.
جیسے کہ پہلے بھی میں نے عرض کی تھی ساری کمی ہمارے اندر ہے ، ہمارے عقیدے
مضبوط نہیں ہیں . ہمارے دل اور دماغ میں ایک ایسا خوف ہے جو اس بات کو یقین
کی حدوں تک قبول کر چکا ہے کہ ہم ناکام لوگ ہیں اور اب ہمارا آسراہ یہ
دنیاوی نا خدا ہیں جو کبھی بارود بن کر ہم پر برستے ہیں اور کبھی امداد کی
صورت ہماری خوشی کا سامان مہیا کرتے ہیں . خوف تو صرف وطن فروشوں کو ہوتا
ہے ، خوف تو ان کو ہوتا ہے جو نامکمل اور ظالم لوگ ہوتے ہیں مکمل اور انصاف
پسند کبھی نہیں ڈرتا . امن کی پہلی شرط انصاف اور تحفظ ہے ، اب ہم اس پہلی
شرط کی نفی تب کرتے ہیں جب ہمارے آس پاس کے ماحول کو ہم سازشوں سے آلودہ کر
دیتے ہیں . پھر اگر بڑی بڑی تکلیفیں ہمیں انعام میں ملیں تو شکایات کرنا
غلط ہو گا .
بات سے بات نکلتی رہے گی اور ہم کہانیاں لکھتے، پڑھتے اور کہانیوں کا کردار
بنتے رہیں گے مگر کبھی یہ نہیں سوچیں گے کہ اصل انقلاب کہاں آنا چاہیے اور
اس انقلاب سے کیا فائدہ ہو گا . اصل انقلاب خود کی ذات میں درستگی ہے . اگر
یہ ہو گیا تو ہر شخص محافظ کا کردار نبھائے گا اور کسی بمبار اور نشانہ
لگانے والی کا خوف یا لوٹ مار کرنے والے سیاست دان کے ڈر کا امکان ختم ہو
جائے گا . یہ انقلاب مضبوط معاشرے کی تکمیل کرے گا پھر کوئی زر دار ، جاگیر
دار اور وطن فروش کبھی کسی اسمبلی میں نہیں بیٹھے گا. اور جو بیٹھے گا اسے
خوف خدا ہو گا اور وہ باکردار عوام سے ڈرے گا .
مگر آج عوام ڈرتی ہے اور ظالم اپنے ظلم کی تشہیر کرتے ہیں کیونکہ عوام میں
انقلابی لوگ ہیں ہی نہیں . انقلابی لوگ اندر کی صفائی کرتے ہیں یعنی ان کے
من پاک ہوتے ہیں اور وہ باہر کے گندہ کو خود ہی صاف کر دیتے ہیں . یہی آج
کی گزارشات ہیں اور وقت کی ضرورت ، جاتے جاتے ایک فارمولہ جو سیدنا موسیٰ ؑ
کے اقوال میں ملتا ہے پڑھنے والوں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں جو مجھے اکثر
میرے ایک استاد اور شفیق دوست کہ جنکی ذات سے میں نے بہت کچھ سیکھا اور
انشااللہ سیکھوں گا ارشاد فرماتے تھے . حضرت موسیٰ ؑ نے پکارا اے میرے ربّ
! میں تجھے کہاں تلاش کروں۔ آواز آئی میں شکستہ دلوں میں رہتا ہوں۔ حضرت
موسیٰ ؑ نے کہااے میرے ربّ اس دنیا کا شکستہ ترین دل میرے سینے میں پیوست
ہے۔ ربّ نے کہا تو پھر توں جہاں ہے میں بھی وہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حُب، اخلاص
اور علم کا فقدان اگر ختم ہو جائے تو کوئی نہ بھوکھا سوئے ، لوٹے یا لٹے ،
بکے یا بیچے اور نہ ہی معاشرہ اسقدر بے یقینی کا شکار ہو . میاں محمد بخشؒ
نے کہا تھا " ہنجو لاگت پانی دیوں تے ریت مٹیُ رڑ جاوے". اللہ رب العزت
ہمیں یہ سمجھنے کی توفیق دے ( آمین) .
ختم شدہ |