نسلی و قومی امتیاز کے تصورات
دنیا کی ہر قوم میں پائے جاتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی قوم، اپنے رنگ، اپنی نسل
اور اپنے نظریے کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے۔ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ برتری
صرف اس کے ہاں پائی جاتی ہے اور باقی سب کمتر ہیں۔ یہی تفاخر اور غرور آگے
چل کر نفرتوں، چپقلشوں، مقابلوں اور جنگوں کی صورت اختیار کرجاتا ہے جس کے
نتیجے میں دنیا کا امن برباد ہوتا ہے۔ زیادہ دور کیوں جائیں ابھی پچاس سال
پہلے ہی اسی نسلی غرور کے نتیجے میں ہونے والی جنگ کو یاد کیجئے جس کے
نتیجے میں کروڑوں انسان لقمہ اجل بن گئے تھے۔ یہ خیال نہ کیجئے کہ یہ غرور
صرف غیرمسلموں کے ہاں ہی پایا جاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ مسلمان بھی اس باطل
تصور کا اتنا ہی شکار ہوئے ہیں جتنا کہ دوسری اقوام، ایسا کیوں ہے؟ اس کے
ہمارے معاشروں پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟ اس سے بچاﺅ کی کیا تدابیر ہیں؟
سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا مسلمانوں کے ہاں یہ غرور خود ان کے دین
نے پیدا کیا ہے یا یہ کہیں اور سے آیا ہے جب ہم اس موضوع پر قرآن کا جائزہ
لیتے ہیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے: ”اے انسانوں! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں
ایک انسان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا( اس کے بعد) ان
دونوں کی نسل سے کثیرتعداد میں مرد اور عورتیں پھیلادیں“۔(النساء(1:4)پھر
ارشاد ہوتا ہے: ”اے انسانوں! ہم نے تمہیں ایک مرد وعورت سے پیدا کیا اور
تمہیں گروہ اور قبائل بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، بے شک اللہ کے
نزدیک عزت والا وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے“۔(الحجرات (13:49)
اسی اللہ کے رسولﷺ اپنے مشہور خطبہ حجة الوداع میں ارشاد فرماتے ہیں: ”
تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیاتھا۔
اے لوگوں! سنو تمہارا رب ایک رب ہے ، کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں
اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت ہے۔ نہ کوئی کالا کسی گورے
سے بہتر ہے اور نہ گورا کالے سے۔ فضیلت صرف اورصرف تقویٰ کے سبب ہے“۔
یہود میں مرشاس بن قیس نامی شخص مسلمانوں سے سخت دشمنی رکھتا تھا اُس نے جب
انصار میں محبت اور الفت کا معاملہ دیکھا تو اُس نے ایک یہودی نوجوان سے
کہا کہ تم ان کے درمیان بیٹھ کر جنگ بعاث کا ذکر کرو جو ماضی میں انصار کے
قبائل اوس اور خزرج کے درمیان لڑی گئی تھی تاکہ اُن کی محبت اور الفت قوم
پرستی کے جذبے سے مغلوب ہوکر ختم ہوجائے۔ اُس نوجوان نے مسلمانوں میں بیٹھ
کر وہی ذکر چھیڑا اور آگ بھڑکائی یہاں تک کہ انصار کے دونوں قبائل میں سخت
کلامی شروع ہوگئی اور ہتھیار لگا کر آمادہ جنگ ہوگئے۔ یہ خبر آپﷺ تک پہنچی
تو آپﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف لائے اور فرمایا اے مسلمانوں! یہ کیا حرکت
ہے کہ تم جاہلیت کے دعوے کرتے ہو حالانکہ میں تمہارے اندر موجود ہوں اور
خدا نے تمہیں ہدایت دے دی اور اسلام کی بزرگی بخشی اور جاہلیت کی سب باتیں
تم سے ختم کردیں اورتمہاری آپس میں محبت اور الفت قائم کردی۔ اُس وقت دونوں
گروہوں کو معلوم ہوا کہ یہ ایک شیطانی وسوسہ تھا جس میں ہم مبتلا ہوگئے تھے
پھر وہ رو پڑے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے لگے۔اسی طرح کا واقعہ ایک غزوہ
میں رونما ہوا جب ایک انصاری اور مہاجر صحابی کے درمیان کسی بات پر تلخ
کلامی ہوئی تو دونوں نے اپنی اپنی قوم کو مدد کیلئے بلایا اس پر باہم لڑائی
کی نوبت آپہنچی تو رسول اللہﷺ نے اُن کے اس قوم پرستی پر مبنی فعل کو
جاہلیت کا نعرہ قرار دیا۔ اس کے بعد اُن صحابہ کرام کے درمیان صلح ہوگئی
اور وہ قوم پرستی کے اس نعرے پر نادم ہوئے۔
قرآن وحدیث کی ان تصریحات سے یہ تو واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام کسی ذات پات،
رنگ ،نسل اور قومیت کو فضیلت کی بنیاد نہیں مانتا بلکہ صرف اورصرف تقویٰ
اور پرہیزگاری کو ہی فضیلت کامعیار قرار دیتا ہے اورقوم پرستی کی بنیاد پر
رونما ہونے والے اختلافات کا قلع قمع کرتا ہے جیسا کہ انصار کے واقعہ سے
واضح ہوا۔
دنیا کی دوسری اقوام اگر اپنے قومی ونسلی غرور میں مبتلا ہوتی ہیں تو یہ ان
کے باطل نظریات کا قصور ہے لیکن حیرت ان مسلمانوں پر ہے جو قرآن کی ان آیات
کی تلاوت کرتے ہیں اور پھر بھی اس تکبر میں مبتلا ہیں۔ اس سے ہمیں یہ بھی
معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں قومی ونسلی تفاخر کے اثرات دوسری اقوام سے
آئے اس میں ان کے دین کا ہرگز ہرگز کوئی قصور نہیں ہے۔قومیت پرستی بہت سی
خطرناک معاشرتی بیماریاں جنم دیتی ہے مثلا:
۱۔قوم پرستی سے انسان کی ذہنی صلاحیتیں محدود ہوجاتی ہیں۔
۲۔قوم پرستی سے انسان میں قبول حق کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔
۳۔قوم پرست ملکی وملی مفاد میں کم اور قوم اور قبیلے کے مفاد میں زیادہ
سوچتے ہیں جس سے اجتماعیت کی روح متاثر ہوتی ہے۔
۴۔یہ قوم پرستی ہی کا اثر تھا کہ یہود اسلام لانے سے محروم رہے حالانکہ
اُنہیں حضور اقدسﷺ کے نبی برحق ہونے کا اپنی اولا دسے زیادہ سچا یقین حاصل
تھا لیکن وہ اسی وجہ سے ایمان نہیں لائے کہ حضورﷺ اُن کی قوم میں پیدا نہیں
ہوئے۔
دین اسلام اپنے ماننے والوں کو علاقے اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہونے سے
بچاتا ہے اور انہیں ایک ہی لڑی میں پرو کر بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلائی
ہوئی دیوار بننے کی تلقین کرتا ہے۔ اگر تحریک پاکستان سے لے کر آج تک ہمارے
لیڈر اور عوام صحیح اسلامی روح کے ساتھ ایک امت مسلمہ بننے کی کوشش کرتے
اور انہی بنیادوں پر پاکستان کی تعمیر کی کوشش کرتے تو نہ بنگلہ دیش بنتا
اور نہ ہی کوئی اورلسانی جھگڑا کھڑا ہوتا۔
ہمارا دین ہمیں ایک قوم پرست گروہ بننے کی بجائے ایک امت بننے کا حکم دیتا
ہے جو خالصتاً اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر اٹھے اور دنیا میں حق وصداقت کا
پرچار کرے۔ دین اسلام کی تمام تعلیمات ہمیں ہرقسم کے امتیاز سے بچ کر
خالصتاً اللہ کا ہوجانے کی دعوت دیتی ہیں۔ یہ ہمارے لئے شرم کا باعث ہے کہ
ہمارے پاس ہدایت کا نور ہوتے ہوئے بھی اہل مغرب ان نسلی، علاقائی، مذہبی
اورلسانی تعصبات سے نجات حاصل کرنے میں ہم سے آگے نکل گئے ہیں۔ وہاں امتیاز
کیخلاف قوانین بنائے جاچکے ہیں اور میڈیا کے ذریعے عوام الناس میں اس کا
شعور بھی بیدار کیا جارہا ہے۔
اگر ہم اپنے دین کی تعلیمات سے صحیح معنوں میں فیض یاب ہونا چاہتے ہیں تو
ہمیں اپنے اندر سے ہرقسم کے تعصبات اور امتیازات کا خاتمہ کرنا ہوگا ۔ اس
وقت ہمارے معاشرے کی یہ ضرورت ہے کہ نسلی اور قومی امتیازات کیخلاف دین
اسلام کی ان تمام تعلیمات کو عام کیا جائے اور معاشرتی نظام کو عدل اور
مساوات کے اسلامی اصولوں کے تحت استوار کیا جائے۔اس مقصد کے حصول کیلئے
ہمیں سیرت طیبہ سے بہترین نصاب کہیں اور نہیں مل سکتا، عرب معاشرہ جو قوم
پرستی کے رنگ میں رنگا ہوا تھا خالص نبوی تعلیمات کی روشنی میں قومیت کے
بجائے وحدتِ اُمت کے فلسفے سے آشنا ہوا اور اُس میں ایک مثال قائم کی،
صحابہ کرام کی جماعت میں حبشہ کے بلال رضی اللہ عنہ، روم کے صہیبؓ،فارس کے
سلمانؓ اور اشعرقبیلہ کے موسیٰ اشعریؓ کو وہی مقام حاصل تھا جو قریشی
صحابہؓ کا تھا بلکہ بعض مرتبہ تو حضرت سلمان فارسیؓ اور موسیٰ اشعریؓ
قریشیوں کے سردار اور امیر بنائے گئے۔ صحابہ کرام ؓ نے قومیت کے بدبودار
اثرا ت کو اپنے اندر سے مٹایا۔ مختلف اقوام سے متعلقہ افراد رشتہ اسلام کی
لڑی میں باہم جڑ کر کفر سے سینہ سپر ہوئے تو اللہ کی نصرت اتری اور بہت کم
عرصہ میں اسلام چہار دانگ عالم پھیل گیا۔ آج بھی امت کے غلبے کا راز یہی ہے
کہ” قومیت“ کے تفرقوں میں بٹنے کی بجائے ”اُمت“ بننے کو ترجیح دے۔ جب
مسلمان قوم بٹنے کے بجائے ایک اُمت بنے گی تو ان کے غلبے کو دنیا کی کوئی
طاقت نہیں روک سکتی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ |