اگر میرے بیٹے کے سینے پر گولیاں ہیں تو اسے لے آؤ اور اگر اس کی پیٹھ پر گولیاں ہیں تو اسے وہیں دفن کردو” لیفٹنٹ فیض سلطان شہید کے والد کا ایسا بیان جس نے سب کا سر فخر سے بلند کر دیا

image
 
شہادت کی داستان جب بیان کی جاتی ہے تو بیان کرنے والے کا دل بھی حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو جاتا ہے- ہماری پاک سر زمین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی مٹی میں ان بہادروں کا خون جذب ہے جنہوں نے اس وطن کی حفاظت کے لیے ایسی بے مثال قربانیاں دی ہیں جن کے بارے میں جان کر ہم سب کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے- ایسے ہی ایک شہید لیفٹنٹ فیض سلطان شہید بھی ہیں جنہوں نے انتہائی کم عمری میں بہت بہادری سے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان قربان کی-
 
فیض سلطان 3 ستمبر 1985 کو چکوال کے اس گھرانے میں پیدا ہوئے جو کہ ان کی پیدائش سے قبل ہی پاک فوج کی خدمت کرتا رہا تھا- ان کے دادا کا تعلق بھی پاک فوج سے تھا اور ان کے والد آرمی سے صوبیدار ریٹائر ہوئے تھے اپنے والد کی پہلی اولاد تھے ان کے علاوہ ان کا ایک بھائی اور تین بہنیں بھی تھیں-
 
بچپن ہی سے پڑھائی کے میدان میں سب سے آگے رہنے والے فیض سلطان لکھنے لکھانے کے بھی شوقین تھے وطن سے محبت ان کے خمیر میں شامل تھی- اس وجہ سے ہر سال چودہ اگست کے موقع پر وہ اپنے گھر اپنے اسکول کے کونے کونے کو سبز ہلالی پرچم سے سجا دیتے تھے- مگر اپنے بہن بھائیوں سے اکثر کہا کرتے تھے کہ پرچم خرید کر تو ہر کوئی اپنے گھر کو سجاتا ہے مزہ تو تب آتا ہے جب وطن کسی کو اپنے پرچم سے سجائے-
 
image
 
پاک فوج میں بھرتی ہونا ان کا خواب تھا جب اس خواب کی تکمیل ان کو ملی تو انہوں نے اپنی شدید محنت اور جذبے سے اپنے افسران کو بہت متاثر کیا وہ ہر کام خود بڑھ کر کر لینے کے عادی تھے اور اپنے بہن بھائیوں کو کہا کرتے تھے جب تک پاکستان کا ایک بھی فوجی زندہ ہے دشمن اس کو کچھ نہیں کر سکتا ہے-
 
لکھنے لکھانے کے شوقین فیض سلطان باقاعدگی سے ڈائری لکھتے تھے اپنی ڈائری میں ایک بار انہوں نے لکھا تھا کہ
ہم جاگتے ہیں سرحدوں پر
 اور ملک چین کی نیند سوتا ہے
اور جب ہم ابدی نیند سوتے ہیں
 تو سارا ملک فخر کرتا ہے
 
آپریشن پر جانے سے قبل انہوں نے اپنے والد کو فون کیا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شیر دل میں جا رہے ہیں اس وجہ سے ایک دن ان سے رابطہ نہیں کر سکیں گے- ان کے ساتھیوں کا یہ کہنا ہے کہ اس آپریشن میں انہوں نے رضاکارانہ طور پر شرکت کی ۔ وزير ستان میں ہونے والے اس آپریشن کے سبب کھانے پینے کی سپلائی معطل ہونے کے سبب ان کو اور ان کی ٹیم کے دوسرے لوگوں کو دو دن تک کھانا پینا نہیں مل سکا-
 
image
 
جون کی چلچلاتی گرمی میں بھوکے پیاسے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے فیض سلطان نے نہ صرف دشمن کا مقابلہ بے جگری سے کیا بلکہ انہوں نے 35 دشمنوں کو بھی جہنم واصل کیا- مگر اس دوران دشمن کی گولیوں نے انہیں شدید زخمی کر دیا یہاں تک کہ انہوں نے ایک چٹان پر گر کر دم توڑ دیا-
 
ان کی شہادت کی اطلاع جب ان کے والد کو دی گئی تو انہوں نے یہ خبر سن کر ایسا سوال پوچھا جس نے سب کو حیران کر دیا- انہوں نے اطلاع دینے والے آفیسر سے پوچھا کہ یہ بتاؤ کہ میرے بیٹے کے سینے پر گولیاں لگی ہیں یا پیچھے گولیاں لگی ہیں؟ اگر سینے پر گولیاں لگی ہیں تو میں اپنے بیٹے کے استقبال کے لیے تیار ہوں اور اگر پیٹھ پر گولیاں لگی ہیں تو اس کو وہیں دفن کر دو میں ایک بزدل کا باپ نہیں کہلانا پسند کرتا-
 
اس کے بعد ان آفیسر نے تصدیق کے بعد بتایا کہ لیفٹنٹ فیض سلطان کے سینے پر دشمن کی ایک دو نہیں بلکہ 22 گولیاں لگی ہیں- اس کے بعد ان کے والد کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی بیوی اور بیٹیوں کو کہا کہ لیفٹنٹ فیض سلطان کی لاش کو وصول کرتے ہوئے ان کی آنکھ سے ایک آنسو بھی نہیں بہنا چاہیے وہ آنسو بہا کر اپنے بیٹے کی شہادت کے درجے کو کم نہیں کرنا چاہتے ہیں-
 
لیفٹنٹ فیض سلطان کو حکومت پاکستان کی جانب سے ستارہ بسالت سے نوازہ گیا جو کہ ان کی جانب سے ان کی بہادر ماں نے وصول کیا- اس معاملے کا سب سے حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اس بہادر خاندان نے ایک بیٹے کی شہادت کے فورا بعد اپنا دوسرا بیٹا بھی پاک فوج میں بھرتی کروا دیا قوم کو ایسے لوگوں پر فخر ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: