بعض مقررین اپنی شعلہ بیانی، واعظین اپنی واہ واہی اور
عوام اپنی کم علمی وغیرہ کی بنا پر ایسی ایسی باتیں حدیث کے نام سے پیش
کرتے ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ معاشرے کے بگاڑ کا ایک اہم
سبب یہی ہے کہ مستند احادیث کا وافر ذخیرہ موجود ہونے کے باوجود ہوا پرستی
یا کسل مندی کے سبب سُنی سنائی اور رٹی رٹائی باتوں کو دین کے نام پر پیش
کر دیا جاتا ہے۔عوام تو عوام خاصے لکھے پڑھے لوگ بھی اس وبا کا شکار
ہیں۔جذبات ابھارنے یا دنیوی نفع حاصل کرنے کے لیےبلا تحقیق غیر مستند
روایات کو حدیث کے نام پر پیش کرنا انتہائی خطر ناک اور خود کو جہنم میں
جھونکنے کے مترادف ہے۔ اس جُرم کا ارتکاب کرنے والوں کے معتقدین اس تصویر
میں مزید رنگ بھردیتے اور اصلاح کرنے والے کو اپنا مخالف سمجھنے لگتے اور
غلطی پر غلطی کرتے چلے جاتے ہیں۔
کبیرہ گناہ
وحی کی دو قسمیں ہیں؛۱ وحیِ متلو ۲ وحیِ غیر متلو۔وحیِ متلو قرآن مجید
اور وحیِ غیر متلو احادیثِ شریفہ کو کہا جاتا ہے۔ امتِ محمدیہ کے پاس اپنے
نبی ﷺکی ہزاروں لاکھوں احادیث موجود ہیں، اس کے باوجود عمداً اس قسم کی خطا
کرنا ہرگز درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔اس لیے ضروری اور لازم ٹھہرا کہ
موضوع اور من گھڑت حدیثوں سے ہر ممکن احتراز کیا جائے۔علما نے لکھا ہے کہ
حدیث میں کذب بیای کبیرہ گناہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعد کی صدیوں تک دین
کے پہنچنے کی راہ بس روایت ہی ہے، پس اگر روایات میں فساد در آئے گا تو
دین کیسے محفوظ رہے گا؟ اس لیے روایتِ حدیث میں غایت درجے احتیاط ضروری ہے،
اور احتیاط کی دو صورتیں ہیں: ۱ راوی خود روایتِ حدیث میں بے احتیاطی نہ
برتے، پورے تیقظ کے ساتھ روایت بیان کرے۲ غلط قسم کے لوگوں کی حوصلہ
افزائی نہ کرے۔(رحمۃ اللہ الواسعۃ شرح حجۃ اللہ البالغۃ)
صحابۂ کرامؓ کا احتیاط
اس سلسلے میں صحابۂ کرامؓنے جو احتیاط برتا ہے، وہ ہمارے لیے اتباع اور
عمل کے قابل ہے۔ عبدالرحمن بن ابولیلیؒ فرماتے ہیں، مَیں نے اس مسجد(کوفہ)
میں ایک سو بیس (۱۲۰) انصاری صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو پایا ہے، اُن
میں سے کوئی ایک بھی حدیث بیان نہیں کرنا چاہتا تھا، اس کی یہی خواہش ہوتی
تھی کہ اس کا کوئی اور بھائی حدیث بیان کردے، اور اُن سے جب کوئی فتویٰ طلب
کیا جاتا تو بھی ان کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ ان کا کوئی اور بھائی فتویٰ
دے دے۔ (سنن دارمی)
أَوْ كَمَا قَالَ
عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ ہر جمعرات کی شام کو مَیں حضرت عبداللہ بن
مسعودؓکی خدمت میں باقاعدگی سے حاضر ہوا کرتا تھا۔ مَیں نے اُنھیں کبھی بھی
یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ ’حضرت نبی کریم ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا ہے‘۔ ایک
مرتبہ انھوں نے یہ کہہ دیا کہ ’حضرت نبی کریم ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا ہے‘۔
عمرو بیان کرتے ہیں کہ یہ کہہ کر اُن کے آنسوجاری ہوگئے اور ان کی رگیں
پھول گئیں، مَیں نے دیکھا کہ ان کا تکمہ کھل گیا ہے، پھر انھوں نے فرمایا:
’اس کی مانند یا اس جیسا ارشاد فرمایا ہے‘۔ (سنن دارمی)امام محمدؒ بیان
کرتے ہیں کہ حضرت انسؓحضرت نبی کریم ﷺ کے حوالے سے بہت کم احادیث بیان کرتے
تھے اور جب بھی آپ ﷺ کے حوالے سے کوئی حدیث نقل کرتے تو ساتھ میں یہ ضرور
کہتے ’ حضرت نبی کریم ﷺ نے اسی کی مانند ارشاد فرمایا‘۔ (سنن دارمی)
حدیث میں جھوٹ کی دو قسمیں
کذب فی الحدیث کی مختلف انواع ہیں، مثلاً یہ کہ کذب فی الحدیث کبھی متن میں
ہوتا ہے، کبھی اسناد میں۔ کذب فی الاسناد یہ ہے کہ حدیث ایسے شخص کی طرف
منسوب کر دی جائے، جس سے وہ منقول نہیں، اور کذب فی المتن یہ ہے کہ بعض
اوقات کوئی مضمون فی نفسہٖ صحیح ہوتا ہے، لیکن آں حضرت ﷺ سے صراحتاً ثابت
نہیں ہوتا، بعض غیر محتاط لوگ اسے رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں،
یہ بھی وضعِ حدیث میں شامل ہے۔(درسِ مسلم)
حدیثیں وضع کرنے کے اسباب
وضعِ حدیث کے حسبِ ذیل اسباب ہیں:۱دینِ اسلام کو فاسد و خراب کرنے کے لیے
زنادقہ نے بہت سی حدیثیں گھڑ رکھی ہیں؛ اسلام کے خلاف کھلم کھلا کوئی مکر
نہیں کر سکتے تھے، تو ان لوگوں نے یہ طریقہ اختیار کیا۲سیاسی اور مذہبی
اختلاف کی بنا پر اپنے مسلک کی تائید و تحسین اور دوسرے مسلک کی تردید و
تنقیص کے لیے؛ اس فرقے میں پیش پیش روافض ہیں۳دنیوی اغراض کو حاصل کرنے کے
لیے؛ دنیوی اغراض کو حاصل کرنے کےلیے؛ واعظین سائلین دنیا کمانے کے لیے اور
درباری لوگ بادشاہوں کا تقرب حاصل کرنے کے لیے وضعِ حدیث کیا کرتے
تھے۴لوگوں کو نیکی کی طرف رغبت دلانے کے لیے؛ برائیوں سے نفرت پیدا کرنے
کے لیے جاہل صوفیوں کا ایک طبقہ حدیثیں گھڑ لیا کرتا تھا۵شہرت حاصل کرنے
کے لیے بھی کچھ لوگ عجیب و غریب حدیثیں بیان کرتے تھے، جو دوسرے لوگوں کے
پاس نہیں ہوا کرتی تھیں، تاکہ لوگ ان کو بڑا محدث سمجھیں۔(نعمۃ المنعم)
حدیثیں گھڑنے کا وبال
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص جان بوجھ
کر میری طرف جھوٹی بات کی نسبت کرے، وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنالے۔ عَنْ
أَبِى هُرَيْرَةَ ، قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ
مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.(بخاری و مسلم)
اس کے باجود بعض مشہورکتبِ حدیث میں بھی بعض موضوع احادیث منقول ہیں، اس کا
جواب بہ قول حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ یہ ہے کہ ابن ماجہ وغیرہ میں بھی
بعض احادیث موضوع کہی گئی ہیں ، مگر ان کی روایت بلانکیر برابر ہوتی ہے،
اکابر کا روایت کرنا دلیل ثبوت کسی حال میں نہیں، ان کو جو پہنچا، روایت کر
دیا۔ روایت کرنا اور بات ہے، ثبوت کا حکم کرنا اور بات ہے۔ البتہ روایت کر
کے اس کے عدمِ ثبوت کومع درجۂ عدم ثبوت کے ظاہر کردینا ضروری ہے۔ اس طرح
سے موضوعات کی روایات بالا جماع جائز ہے۔واتفقوا علی تحریم روایۃ الموضوع
إلا مقرونا ببیانہ۔(امداد الفتاویٰ جدید مخرج)
حضرت نبیﷺ پر جھوٹ بولنا
حضرت علی بن ربیعہ نے بیان کیاکہ مَیں مسجد میں آیا- اُن دنوں امیرِ کوفہ
مغیرہ بن شعبہؓتھے -مغیرہ نے کہا،مَیں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا
ہے کہ مجھ پر جھوٹ ایسا بولنا نہیں جیسا کسی اور پر جھوٹ باندھنا، جو مجھ
پر عمداً جھوٹ باندھتا ہے، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔(مقدمہ امام
مسلم) وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبریں بیان کرنے والے ہیں،
اس لیے جو آپ پر جھوٹ باندھے گا، وہ گویا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے
گا،جس کی برائی ظاہر ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے: {فَمَنْ اَظْلَمُ
مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِهٖ }اب بتاؤ
کہ اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے، یا اس کی آیتوں
کو جھٹلائے ؟ایک مقام پر فرمایا: { وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ تَرَى الَّذِيْنَ
كَذَبُوْا عَلَي اللّٰهِ وُجُوْهُهُمْ مُّسْوَدَّةٌ}اور قیامت کے دن تم
دیکھو گے کہ جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے، ان کے چہرے سیاہ پڑے ہوئے
ہیں۔
سُنی سنائی باتیں نقل کرنا
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ
ہر سُنی سُنائی بات بیان کر دے۔قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : كَفَى
بِالْمَرْءِ كَذِبًا، أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ. امام مالکؒ کا
ارشاد ہے کہ جو شخص ہر سنی ہوئی بات کو بیان کر دے، وہ غلطی سے محفوظ نہیں
رہ سکتا اور نہ ہی ایسا شخص کبھی مقتدا اور امام بن سکتا ہے۔(مقدمہ امام
مسلم)
موضوع حدیث کی علامت
موضوع حدیث کی ایک علامت یہ ہے کہ اس میں ایسی بات بیان کی جاتی ہے، جو
اذہنوں اورعقلوں کو حیران کر دیتی ہے۔ ہمارے زمانے میں سوشل میڈیا پر چلنے
والی بہت سی باتیں اسی قبیل سے ہوتی ہیں۔ اس میں من گھڑت طور پر کسی عمل پر
اس قدر عظیم اجر و ثواب بیان کیا جاتا ہے کہ پھر گویا کچھ اور کرنے کی
ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔علامہ ابن جوزیؒ کا بیان ہے کہ جس حدیث کو تم پاؤ
کہ عقول اور اصول کے مخالف ہے، تو سمجھ لو کہ وہ موضوع یعنی جعلی اور گھڑی
ہوئی ہے:کل حدیث رایتہ یخالف العقول او یناقض الاصول فاعلم انہ موضوع۔علامہ
شبیر احمد عثمانیؒ اس کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ (اس سے مراد یہ ہے کہ ) جو
حدیث ایسی ہو کہ حواس و مشاہدہ اسے مسترد کر دے، یا اللہ کی کتاب اور
متواتر حدیث یا قطعی اجماع کے مخالف ہو یعنی کسی تاویل کی گنجائش اس حدیث
میں باقی نہ رہے۔ (فتح الملہم)(تفصیل کے لیے دیکھیے ہماری کتاب: موضوع اور
من گھڑت حدیثیں: ایک دھوکا)
٭٭٭٭
|