20 نومبر کو بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ 1989ء میں
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے باہمی اتفاق رائے سے بچوں کے منظور شدہ حقوق
کا اعلان کیا, اور 20 نومبر 1990 کو اسے قانونی شکل دے دی اور ایک قرارداد
کے ذریعے ہر سال 20 نومبر کو بچوں کے عالمی دن کے لیے مخصوص کر دیا۔ اس دن
کو منانے کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں بچوں کی تعلیم، صحت، تفریح اور ذہنی
تربیت کے حوالے سے شعور کو اُجاگر کرنا ہے, تاکہ دنیا بھر کے بچے مستقبل
میں معاشرے کے مفید اور کارآمد شہری بن کر اپنے اپنے خطے یا علاقے کی خدمت
کر سکیں۔
بچے کسی بھی قوم و ملک کا سرمایہ ہوا کرتے ہیں۔ اور بلاشبہ اس قوم یا ملک
کا مستقبل انہی بچوں سے ہی وابستہ ہوتا ہے, اسی لیے تو انہیں مستقبل کا
معمار بھی کہا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ قومیں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور
ان کی نشونما کے ماحول کو سازگار بنانے کے حوالے سے بہت محتاط ہوتی ہیں۔
اور اس مقصد کے لیے وہ اپنے تمام وسائل و ذرائع کا بھرپور استعمال کرتی ہیں۔
لیکن ہمارے ہاں دوسرے معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی کچھ افسوس ناک
حقائق ہیں, جو آنے والے وقتوں میں ہمارے لیے کسی حوصلہ افزاء رجحان کی نفی
کرتے ہیں۔ گزشتہ تیس سالوں سے باقی دنیا کے ساتھ ہم بھی اس دن کو بڑھ چڑھ
کر مناتے آئے ہیں, سرکاری و نجی سطح پر تقریبات اور سیمینارز بھی منعقد کیے
جاتے ہیں, آگاہی واکس اور تشہیری مہمات بھی چلائی جاتی ہیں, لیکن المیہ یہ
ہے کہ یہ سب صرف دکھاوے کی حد تک ہی ہوتا ہے, حقیقی اور عملی اقدامات نہ
ہونے کے برابر ہیں۔ اس بات کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ
صرف تعلیمی میدان میں گزشتہ دو دہائیوں سے ہماری شرح خواندگی 58 فیصد سے
اوپر نہیں جا سکی۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ ہمارے تقریباً 2 کروڑ سے
زیادہ بچے غربت اور نامساعد مالی حالات کی وجہ سے سکول نہیں جا رہے۔ وائس
آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہمارے ایک کروڑ سے زیادہ پاکستانی بچے تو
چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ جو چھوٹی فیکٹریوں، ہوٹلوں، کارخانوں، اینٹوں کے
بھٹوں اور عام ٹھیلوں اور دکانوں پر اپنے ننھے ننھے پیٹوں کا ایندھن کمانے
میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ بھی چونکہ ہمارے ملک کی اکثریتی آبادی لوئر مڈل
کلاس سے تعلق رکھتی ہے, اس لیے بچوں کو غذا و دوا کے حوالے سے بھی لاتعداد
مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان میں نہ تو بچوں کی جسمانی صحت قابل فخر ہے اور
نہ ہی انہیں مناسب طبی سہولیات میسر ہیں۔ بچوں کے حقوق اور صحت کے لئے کام
کرنے والے اداروں کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں ہر 10 میں سے 6 بچے غذائی
قلت کا شکار ہیں۔ جب کے ادویات اور طبی مسائل کے حوالے سے بات کی جائے تو
صرف نمونیا سے متاثر ہونے والے بچوں میں دنیا بھر کے ممالک میں سے پاکستان
کا تیسرا نمبر ہے۔ یعنی پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے جہاں نمونیے کے
سبب ہر سال تقریباً ایک لاکھ بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ
ٹائیفائیڈ, ہیضہ, دست, اسہال اور سانس جیسی بیماریوں کے سبب ہر ایک ہزار
پاکستانی بچوں میں سے ستر سے پچھتر بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے
ہی فوت ہو جاتے ہیں۔ ان سب مسائل کی بڑی وجہ غربت، وسائل کی عدم دستیابی,
سرکاری سطح پر طبی سہولیات کا نہ ہونا, لاعلمی اور بے شعوری ہے۔ اس کے
علاوہ ہمارے ہاں ایک بہت بڑا مسئلہ بچوں پر تشدد اور جنسی ہراسانی کا ہے,
جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ روزانہ کے اخبارات
ایسے دردناک واقعات و سانحات سے بھرے پڑے ہوتے ہیں, جن میں بچوں پر تشدد
اور جنسی درندگی کے بعد قتل جیسا انسانیت سوز افعال شامل ہیں۔
ملک عزیز پاکستان میں بچوں کو درپیش مشکلات و مسائل پر لکھنے بیٹھیں تو
شاید ایک صخیم کتاب مرتب ہو جائے, لیکن مسئلہ صرف لکھنا ہی نہیں, ان مسائل
کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہے۔ لکھنے کو تو شاید اس موضوع پر اب بھی
سینکڑوں مضامین تشکیل دیے جا چکے ہوں گے, لیکن افسوس کہ عمل کا فقدان ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اپنی آنے والی نسلوں کے مسائل و مشکلات سے نمٹنے کے
لیے ہم اس طرح سے مستعدی اور جانفشانی سے کام نہیں کر سکے, جس طرح کی آج اس
جدید دنیا میں ہمیں ضرورت تھی۔ اور اگر اب بھی ہم نے اس سلسلے میں کوئی
موثر کردار ادا نہ کیا اور باہمی گروہی و سیاسی رقابتوں میں الجھے رہے تو
بلاشبہ ہم دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو سکیں گے۔ ہم دنیا سے پہلے
ہی پیچھے ہیں۔ پھر شاید بہت ہی پیچھے رہ جائیں گے۔ اور اس پر ہماری تاریخ
اور آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گیں۔
|