پب جی گیم کے نقصانات

ویسے توآن لائن ویڈیو گیمز کے نقصانات اکثر ہی سامنے آتے رہتے ہیں لیکن پب جی گیم ایسی گیم ہے جو ہماری نوجوان نسل کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔اب تک کئی ویڈیو گیمز آ چکیں ہیں لیکن جو نقصانات پب جی ویڈیو گیم کے سامنے آئے ہیں وہ شاید ہی کسی گیم کے آئے ہوں۔بچے اور خاص طور پر نوجوان نسل اس قسم کے گیمز کھیل کر جرائم کے نت نئے طریقے سیکھ لیتے ہیں جن سے وہ پہلے ناواقف ہوتے ہیں۔پب جی گیم گروپ کی شکل میں کھیلی جاتی ہے۔اس گیم میں دوسروں کو قتل کر کے انکی املاک کو تباہ کر کے ناحق زد و کوب کیا جاتا ہے اور پھر انکی بے بسی کا لطف اٹھایا جاتا ہے۔یہ گیم نوجوان نسل کو تشدد، مار ڈھاڑ اور جنگ کی طرف مائل کرتی ہے۔اسے کھیلنے والے نوجوان بے حسی اور سفاکیت کی حدوں کو چھونے لگے ہیں۔

پب جی ایک ٹی پی ایس یعنی تھرڈ پرسن شوٹر گیم ہے جسے کھیلنے والے کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود بندوق چلا رہا ہے۔اس گیم میں کھیلنے والے کو ایک ایک ہتھیار دیا جاتا ہے اور اس گن کا نام تک کھیلنے والے کو یاد ہو جاتا ہے۔اسکے ساتھ ہی منشیات کا استعمال، چھپ چھپا کر قتل کرنا، گرہوں کے درمیان لڑائی اور نا زیبا الفاظ کا استعمال عام سی بات ہے۔مکمل گیم کے اختتام پر کھیلنے والوں کو ایک فرضی چکن ڈنر دیا جاتا ہے اس گیم کو کھیلنے والے افراد نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں اسکے علاوہ یہ بھی خبردار کیا گیا ہے کہ یہ اور اس جیسے اور ویڈیو گیم کھیلنے سے ہاتھوں میں رعشہ کی بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔یہ بھی جاننے میں آیا ہے کہ گیمز میں تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے ہڈیوں میں کھنچاؤ اور عضلات کی تکلیف ہونے لگ جاتی ہے۔پب جی ویڈیو گیم میں موجود مشین کی روشنی سے نکلنے والی شعاعیں کثرت سے گیم کھیلنے والوں میں مرگی کا مرض پیدا کر دیتی ہے۔

انگلیوں کی مسلسل حرکت کی وجہ سے انگلیوں کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ویڈیو گیمز کھیلتے ہوئے آنکھوں کی حرکت بہت تیز ہو جاتی ہے جسکی وجہ سے نظر کو بھی بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔مقناطیسی لہروں کی وجہ سے آنکھ سرخ اور خشک ہو جاتی ہے۔پب جی کھیلنے والے افراد بھوک، پیاس اور نیند کو اپنے اندر دبائے گیم کھیلنے میں مصروف رہتے ہیں جسکی وجہ سے انکی صحت تباہ ہو کے رہ جاتی ہے۔اسکے علاوہ جنگ کے مناظر عام افراد خاص طور پر بچوں کے ذہنوں پر کیا اثر ڈالیں گے اس سے نیٹ ورکس کمپنیوں کو کوئی سروکار نہیں پب جی کے نقصانات دیکھنے کے بعد اس پہ حکومتِ پاکستان کی طرف سے پابندی بھی لگائی گئی تھی جس پہ کھیلنے والوں کی طرف سے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا گیا جسکی وجہ سے یہ گیم دوبارہ سے فعال کر دی گئی ہماری نوجوان نسل ہی ہمارا کل اثاثہ ہے خدارا اپنے اس قیمتی اثاثے کی خود حفاظت کریں اور انہیں جتنا بھی ممکن ہو سکے ویڈیو گیمز سے دور رکھیں کیونکہ یہ گیمز انکے ذرخیز ذہن مفلوج کر کے ناکارہ بتانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
 

Sehrish Sonia
About the Author: Sehrish Sonia Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.