تھوڑی سی توجہ اس طرف بھی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک زمیندار نے اپنی عمر کے آخری حصے میں گاﺅں کے اُن افراد جن کی عمریں 60سال سے تجاوز کر گئی تھیں،کو اکٹھا کیا اور اُنہیں خوشخبری دی کہ وہ اس سال ان تمام افراد کو اپنے خرچ پر حج کروائے گا۔ بزرگوں نے جب یہ خوشخبری سنی تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے اور زمیندار کو ڈھیر ساری دعائیں دیتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئے ۔ یہ لوگ جب اپنے گھروں کو پہنچے اور گھر والوں کو یہ خوشخبری سنائی تو اُن کے گھر والے بھی خوشی سے بے حال ہو کر حج کی تیاریوں میں ڈٹ گئے ۔ کسی کو ویزے اور پاسپورٹ کی تیاری کی فکر تھی تو کوئی حج کی دعائیں اورطریقہ کار سیکھنے میں مگن ہو گیا ہر چند کہ جوں جوں دن گزرتے جارہے تھے اُن کے انتظار میں شدت آتی جارہی تھی ۔

لیکن حیر ت انگیز طور پر ان میں سے بعض افراد ایسے بھی تھے جنہیں پہلے دن سے ہی ایک عجیب سے بے چینی نے جکڑ رکھا تھا ، اور جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھا اُن کی بے چینی بھی بڑھتی جارہی تھی ۔ ایسا نہیں تھا کہ اُنہیں حج پر جانے کی خوشی نہ تھی بلکہ وہ اس پریشانی میں مبتلا تھا کہ آخر وہاں جاکر ہم کریں گے کیا ؟ ۔ ہماری پوری عمر کھیل تماشوں ، جوا کھیلنے ، شراب نوشی ، حرام خوری اور دوسروں کو ایذا رسانی میں گزری ہے ۔ پوری عمر نہ تو ہمیں مسجد جانے کی توفیق ہوئی نہ کبھی قرآن پاک کو کھول کردیکھا، وضو اور غسل کے طریقوں سے تو ہم واقف نہیں حج کیسے کریں گے ؟ اور پھر اگر وہاں پہنچ بھی گئے تو سرکار دوعالم ﷺ کے روضے پر جاکر حضور کو کیا منہ دکھائیں گے کہ ہم کیسے امتی ہیں ، یعنی بقول غالب اُن کا حال کچھ یوں تھا کہ
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے
شرم تم کو مگر آتی نہیں

بالآخریہ بے چینی ایک طویل عرصے بعد اُن کے مسجد جانے کا سبب بنی ۔ اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ مولوی صاحب کو اپنا مسئلہ بتا کر حج پر جانے یا نہ جانے کا فیصلہ کریں گے ۔ دوسرے دن ظہر کی نماز کے وقت وہ مسجد میں داخل ہوئے ، شرمندگی سے بچنے کیلئے بجائے کسی کونے کھانچے میں بیٹھنے کہ اُنہوں نے وضو کیا اور لوگوں کے ساتھ نماز ادا کی ۔ نماز کے بعد جب مولوی صاحب سے ملاقات ہوئی تو مولوی صاحب ، پہلے تو اُنہیں مسجد میں دیکھ کر حیران ہوئے ، پھر آگے بڑھ کر اُنہیں حج پر جانے کی مبارک باد دی ۔ مبارکباد کے الفاظ ابھی ختم ہی ہوئے تھے کہ ایک شخص نے فوراً (دیہاتی انداز میں) اپنا مسئلہ بیان کر دیا ۔ مولانا صاحب نے مسئلہ سن کر کچھ توقف اختیار کیا اوراُن کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ چھا گئی ۔مولانا صاحب کے چہرے پر یوں مسکراہٹ دیکھ کر وہ حیران ہوئے ۔ مولانانے اُنہیں اپنے حجرے میں لے جاکر پہلے اُنہیں خصوصی مبارکباد دی اور پھر کہا کہ روح زمین پر اللہ تعالیٰ کو انسان کی سب محبوب چیز عاجزی اور انکساری ہے جو تم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔

جب انسان یہ سوچ لے کہ وہ اس قدر گنہگار ، سیاہ کار اور بدکار ہے کہ اُسے اپنے رب کے حضور جاتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس ہو رہی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے شخص کا خصوصی طور پر منتظر رہتا ہے کہ وہ اُس کی بارگاہ میں آئے ، معافی مانگے اور اللہ تعالیٰ اُس کے گناہ معاف کر دے ۔ اُنہوں نے کہا کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے مسلسل 70مرتبہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی توبہ کی اور اللہ تعالیٰ نے ہر مرتبہ اُس کے گناہ معاف کئے لیکن اس مرتبہ وہ شخص یہ سوچ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جانے سے کترا رہا تھا کہ کہیںبارگاہ ایزدی سے دھتکار ا نہ جائے ۔ لہٰذا اُس نے تو بہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کچھ ہی دیر میں غیب سے آواز آئی ”بندے اس مرتبہ بھی تو پیچھے ہٹا ہے میری رحمت تو اب بھی تجھے پکار رہی ہے ۔آ،آگے بڑھ ،میں اب بھی تجھے معاف کر نے کو تیار ہوں بشرط یہ کہ تو معافی مانگنے ولا بنے “۔ لہٰذا ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے گنہگار بندوں کی توبہ قبول کرنے میں کس قدر خوشی اور مسرت محسوس ہو تی ہے ۔ حدیث قدسی کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ” اگر روح زمین پر تمام افراد نیک اور پرہیز گار بن جائیں اور کوئی گناہ کرنے والا باقی نہ رہے تو میں اس زمین کو ہی تباہ وبرباد کر دوں اور اُن کی جگہ ایسی قوم کو لے آﺅں جو گناہ کرے اور گناہ کرنے کے بعد مجھ سے معافی مانگے اور میں اُنہیں معاف کروں ۔ بنی اسرائیل کے اُس شخص کا واقعہ تو بڑا ہی معروف ہے جس نے 100افراد کو قتل کیا لیکن رب کائنات کی رحمت نے اُسے بھی مایوس نہیں کیا اور توبہ کے دروازے اُس کیلئے بھی کھلے رکھے۔

ہم میں سے بے شمار لوگ ایسے ہیں جو صر ف اور صرف اس لئے توبہ کا دروازہ کھٹکھٹانے اور رب کے دروازے پر دستک دینے سے کتراتے ہیں کہ چونکہ ہم گنہگار ہیں، اگر ہمیں کہیں نماز جنازہ ، میت کو غسل دینا یا کہیں فاتحہ کروانی پڑ جائے تو ہم یہ سوچ کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں کہ ہماری کونسی دعا قبول ہونی ہے ، دعا تو اُن سے کرائی جائے جو ہم میں سب سے زیادہ پرہیز گار اور متقی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ متقین اور محسنین کا اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں بہت بڑا مرتبہ ہے لیکن رب کائنات کی رحمت کے دروازے گنہگاروں ، سیاہ کاروں اوربدکاروں کیلئے بھی ہمیشہ کھلے ہیں اور خوش قسمت افراد اس سے مستفید بھی ہوتے ہیں ، تو آئیے ہم بھی آج سے یہ عہہد کر تے ہیں کہ ہم عاجز اور گنہگار بندے اُس کے در پر دستک دے کر اُس کی رحمت سے مستفید ہونے کی کوشش کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے گناہ معاف فرمائے ۔ آمین
Zubair Niazi
About the Author: Zubair Niazi Read More Articles by Zubair Niazi: 41 Articles with 45153 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.