ماحول کا عالمی دن٬ اور ہماری معاشرتی ذمہ داریاں

ضلع لسبیلہ میں سماجی ترقی کے عمل میں بہت ساری این جی اوز سماجی تبدیلی کے حوا لے سے کا فی عرصے سے کام کرتی آرہی ہیں ‘یہ تنظیمیں تعلیم ‘صحت ‘واٹر اینڈ سینی ٹیشن‘خواندگی اور دیگر مختلف شعبہ جات پر کام کررہی ہیں ‘دنیا بھر میں ماحولیات کے حوالے سے کام کرنے والی بین الاقومی غیر سرکاری تنظیم آئی یوسی این ضلع لسبیلہ میں بھی گزشتہ کئی سال سے کام کررہی ہے ‘ادارے کی طرف سے ہر سال ماحولیات کا دن منایا جاتاہے ۔اس سال بھی مجھے اسی ادارے کی طرف سے 5 جون کو عالمی یوم ماحولیات کی نسبت سے منغقد کیے جانے والے ایک پروگرام میں شریک ہونے کے لیے دعوت نامہ ملا جس میں بتایا گیا کہ اس سال ماحولیات کے دن کے منائے جانے کا موضوع" جنگلات ‘قدرت کی طرف سے ہمارے لیے ایک نعمت" ہے یہ موضوع انسانی زندگی اور کراہ ارض کے ماحول کے لیے بے حد اہمیت رکھتاہے ‘اس پروگرام َمیں لسبیلہ کے مختلف سماجی ‘سیاسی اور علاقائی معتربرین کومدعو کیاگیا ہے ‘پروگرام میں عالمی دن کے موضوع جنگلات پر مختلف دستاویزی فلمیں ‘معلوماتی پزیزٹیشن ‘تقریر یں پیش کی جائیں گی اور جنگلات کے فائدے اور اس کے کٹاؤ سے بچانے کے لیے بحث و مباحثے کیے جائیں گے ‘ اس پروگرام میں شرکت کرنے کے بارے میں سوچتے ہوئے لسبیلہ کے بے پنا ہ ماحولیاتی مسائل میرے ذہن میں گردش کررہے ہیں جن میں فورم پر بہت کم بات چیت جاتی ہے ۔آج کے دن جو کہ دنیا بھر میں ماحولیات کے حوالے سے جنگلات کے موضوع پر منایا جارہا ہے اس حوالے سے بھی لسبیلہ میں بہت سارے ماحولیاتی مسائل ہیں۔ہمارے ہاں بڑے پیمانے پر قانونی اور غیر قانونی جنگلات کی کٹاٹی کا عمل جاری ہے اور لسبیلہ کی سرسبز شاداب زمین کو چند ٹکوں کی خاطر اس کے نیم ‘بھبور‘بھیری ‘کو قربان کیاجارہاہے ‘حتیٰ کہ جار جیسے جنگلی درخت کو بھی نہیں چھوڑا جارہاہے -

جنگلات کے حوالے سے دیکھا جائے تو قدرت کی طرف سے انسان کی عطاکی گئی نعمتوں میں ایک نعمت جنگلات بھی ہے ‘جنت کی نعمتوں میں بھی باغات اور نبانات کا خصوصی ذکر ملتاہے کراہ ارض پر ان ہی سرسبر شاداب وادیوں کی سبب انسانی زندگی جنت کا نمونہ بنی ہوئی ہے ۔انسان کی بے شمار ضروریات ان ہی جنگلات کی مرہون و منت ہے ‘نباتات کو اگر زمین سے خارج کیاجائے تو انسانی زندگَی کا تصور ہی نہیں کیاجاسکتا‘ یہی جنگلات ہماری غذائی ضروریات میں ‘غلہ ‘پھل ‘پھول اور ادویات کے علاوہ ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والی لکڑی بھی مہہاکرتے ہیں ‘جنگلات ہی جانوروں چرندوں کا مسکین ہیں ‘علاوہ ازین حیوانی زندگی کا وجود انسانوں کی سماجی ‘نفسیاتی اور جمالیاتی زندگی کی تکمیل کے لیے بے حد ضروری ہے ۔انسانی زندگی کے سفر میں بھی یہی درخت ایک وفادار مخلص اور معاون دوست کی طرح ہر قدم پر موجود ہیں راستے میں سایہ دار درختوں کا وجود نہ صرف مفید ہے بلکہ ایک فرحت بخش احساس ہے -

دنیا کی دیگر علاقوں کی طرح ہمارے ہاں لسبیلہ میں تعمیر و ترقی کے نام پر جنگلات کا صفایا کیاجارہاہے ۔ہمارے ہاں درخت ماحولیات کے توازن کو برقرار رکھنے ‘بارش کے آنے اور زمین کے کٹاؤ کے عمل کو روکنے میں بڑے معاون ثابت ہوتے ہیں ‘ہمارے ہاں آبادی بھی دگنی ہوگی ہے ‘انسانی آبادی کے ساتھ ساتھ اس کے رہنے سہنے کی اور اس کی دیگر ضروریات بھی بڑھنے لگیں جن میں لکڑی کا استعمال بطور ایندھن ‘فرنیجر‘مکانات کی بناوٹ اور دیگر بہت سارے کام شامل ہیں ۔اسی لیے پاکستان سمیت پوری دنیا میں جنگلات کے کاٹے جانے کو ایک بھیانک خطرہ کے طور پر محسوس کیااور ساری دنیا میںجنگلات کے تحفظ کے لیے ایک مہم چھیڑ دی گئی‘-

ہمارے ہاں لسبیلہ میں بیلہ سے لے کر حب تک ساتھ دریجی ‘کنراج ‘ساکران اور لاکھڑا میں ہر طر ف جنگلات کے نظر آئے گے جن میں درختوں کی مختلف اقسام ہیں یہی درخت ہمیں ہمارے جانوروں کے چارے کے لیے کام آتے ہیں ۔اور یہ درخت ہمیں ایندھن کا کام دیتے ہیں ‘ہمیں اپنے علاقے میں اکثر خواتین اور بچوں کو لکڑیاں چنتے نظر آتی ہیں جو کہ یہ دیہاتی زندگی کا ایک حسین رخ پیش کرتی ہیں مگرچندماہ قبل میرے حیرت کی انتہا اس وقت ڈگمگا گئی جب میں نے اپنی این جی اوز کی فیلڈ وزٹ کے دوران بیلہ کے نواحی گاؤں کماچہ کے قریب ایک بڑے دس ویلرٹرالرکو دیکھاجس میں بڑی پیمانے پر درخت کاٹ کرکے لوڈ کیاجارہاتھا اور پولیس اور محکمہ جنگلات کی آنکھوں میں دھول جونک کر ان لکڑیوں کو پابندی کے باوجود دوسرے شہر منقل کیاجارہاتھا ۔

لسبیلہ میں درختوں کی کٹاؤ کے عمل اور اس کے خرید و فروخت میں بہت بڑا مافیا سرگرم ہے جو لسبیلہ مختلف علاقوں سے لوگوں کی زمین پر موجود درخت کو خرید کر اس کی بنیاد سے ہی کٹائی کرکے لے جاتے ہیں‘حیرت کی بات یہ ہے کہ اکثر علاقوں میں جب بڑے درخت کاٹ کاٹ کر ختم کردیے ہیں وہاں پر ایک عام سا پودہ جس کو لاسی زبان میں "جار" کیاجاتاہے اس کو بھی کاٹنے کا عمل شروع کیاگیا ہے جو کہ ماحولیاتی حوالے کام کرنے والے افراد نے لیے لمحہ فکریہ ہے ‘ جنگلات کی کٹائی پر ہمارے ادارے ہماری پولیس ‘ہمارے لیویز جہاں تک قصور وار ہے وہاں پر ہمارے غریب لوگ بھی اس جرم میں برابرکے شریک ہے ‘جو اپنی ناسمجھی یالاشعوری وجہ سے صرف چند ٹکوں کی خاطر اپنے زمینوں پر موجود درختو ں کو اس مافیا کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں‘اور خود اپنے ہی کھیتوں میں ٹھنڈی چھاؤں کی تلاش کرتے ہیں اور اپنے ہی خواتین اور بچوں کو دور دراز علاقوں میں لکڑیوں کی چنائی کے لیے مجبور کرتے ہیں یا مجبور ا پیسوں پر لکڑیاں لیتے ہیں ‘تححب کی بات یہ ہے کہ ہمارے گاؤں میں بھی ایندھن کے لیے لکڑیاں پیسوں پر لی جاتی ہے‘-

اس تمام تر عمل میں میرا خیال ہے کہ ہمارے سرکاری اداروں کے ساتھ ہماری غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں کو اپنے دفتروں سے اور سرکٹ ہاؤس کے کانفرنس ہالوں سے باہر نکل کر ان غریب لوگوں سے بات چیت کرنی ہونگی جو صرف چند پیسوں کی خاطر اپنی درخت کو ہمیشہ کے لیے بیج کر مافیا کی جیبیں گرم کرتے ہیں ۔کیونکہ ہمارے ہاں ماحولیات کو شدید خطرات کا سامنا ہے ہمار ے ہاں تیز باؤ والے بڑے خطرناک سیلاب آتے ہیں جو کہ ہمارے زمینوں کی کٹائی کا باعث بنتے ہیں ‘ہمارے ہاں قحط سالی کے بھی خطرات ہوتے ہیں جن سے ہمارے مال مویشی کو بھوکے مرنے کے اندیشے ہیں ہمارے ہاں تیز آندھیاں آنے کے امکانات ہوتے ہیں‘لیکن اگر درخت نہیں ہونگے تو ان آندھیوں کو کو ن روکے گا ‘اس تمام صورتحال میں ہمارے محکمہ جنگلات اور ماحولیات کے حوالے سے کام کرنے والی این جی اوز کو جنگلات کے کٹائی جیسے مسائل کے حوالے سے بہت زیادہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ علاقے میں جنگلات کے کٹائی کے نقصانات اور ان کے فوائد کے بارے میں عوام والناس میں شعور بلند کیاجائے تاکہ دنیا جو کہ ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل میں پھنسی ہوئے ہے ان مسائل سے کم از کم نقصان کو برداشت کیاجائے ‘ماحولیات کے عالمی دن مناتے ہوئے ہم پر لازم ہے کہ قیمتی وسائل کے حقیقی تحفظ کی شدید ضروریات کو سمجھیں اور صرف قوانین اور ضوابط کی پابندی کی حد تک نہیںبلکہ انفرادی سطح پر ماحول کے تحفط کے لیے کوشش کریں -
Khalil Roonjah
About the Author: Khalil Roonjah Read More Articles by Khalil Roonjah: 6 Articles with 7208 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.