بچوں کو عزت دو

گزشتہ کچھ ادوار سے وطن عزیز میں ننھے بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے. مزید یہ کہ ان واقعات کی شرح نمو میں ہر سال اضافہ ہی ہو رہا ہے. بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات درج کرنے والی ایک تنظیم جس کا نام ساحل ہے اس کے اعداد و شمار کے مطابق تو وطن عزیز میں ہر روز آٹھ بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور ہراساں کرنے جیسے بدترین واقعات ہو رہے ہیں.

میرے خیال سے اس سال یہ شرح مزید بڑھ گئی ہوگی. کیونکہ اس سال جتنے واقعات ملکی منظر نامے پر نمودار ہوچکے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی ہے . اس سے دو سوچیں بیدار ہوتی ہیں. پہلی تو یہ ہے کہ اب زیادہ تر لوگ اس قسم کے واقعات کو چھپاتے نہیں ہیں. جس کی وجہ سے ان واقعات کا زیادہ اندراج دیکھنے کو مل رہا ہے یہ ایک مثبت قدم ہے . دوسرا یہ بھی ہے کہ وطن عزیز میں بے حیائی کا بھی اضافہ ہوا ہے. نیز بے حیائی کا تو اب یہ عالم ہے کہ خواتین اور بچوں کی عزتیں عام شاہراہوں پر سفر کرتے ہوئے بھی محفوظ نہیں ہیں. یعنی بیک وقت یہ دونوں چیزیں شعور بھی اور بے حیائی بھی ساتھ جنم لے رہے ہیں.

ضرورت اس امر کی ہے کہ شعور کو صحیح طریقے سے استعمال میں لاکر وطن عزیز میں پھیلی اس بے حیائی کا خاتمہ کیا جائے. اس سلسلے میں اب کافی باتیں بھی ٹیلی ویژن اور اخبارات کی حد تک شروع ہوگئی ہیں. لیکن اس آگاہی کو عام کرنے کے لئے اب تک جو اقدامات ہوئے ہیں. ان میں سب سے بہترین کام احساس ذمہ داری نے کیا ہے جو کہ ایک نجی غیر منافع بخش تنظیم ہے. نیز اس تنظیم کی بنیاد بھی طلباء و طالبات نے ہی رکھی تھی اور اس کو چلا بھی وطن عزیز کے طلباء و طالبات رہے ہیں. اسلام آباد سے وجود میں آنے والی اس تنظیم میں آج کل ملک کے ہر گوشے سے طلباء و طالبات شامل ہو رہے ہیں اور اپنے وطن کو بہترین بنانے کا احساس رکھتے ہوئے صرف اس آگاہی(بچوں سے زیادتی اور ہراساں کرنے) کو ہی نہیں، بلکہ ملک کے دیگر مسائل پر بھی ذمہ داری کے ساتھ ملک کے طول و عرض میں اپنی آواز بلند کر رہے ہیں. تاکہ ملک سے اس بے حیائی سمیت دیگر بدترین مسائل کا خاتمہ ہو اور یہ ملک آنے والی نسلوں کے لئے بہترین مقام بن جائے.

اس ہی سلسلہ میں اس تنظیم کی جانب سے بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور ہراساں کرنے جیسے واقعات کو موضوع بحث بنا کر اس کی آگاہی کو عام کرنے کے لئے ایک نیشنل ڈیبیٹ کا اہتمام کیا گیا تھا . جس کو یہ این سی ایچ سی کا نام دیتے ہیں. یعنی اس کانفرنس کے انعقاد سے یہ قوم کو بچوں کے تحفظ کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرنا چاہتے ہیں. لہذا اس سلسلے میں انھوں نے ملک کے ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی رہنمائی حاصل کی کہ وہ اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار بھی کریں اور اس کے سدباب کے لئے کوئی حل بھی تلاش کریں. اس کانفرنس میں مختلف ڈاکومنٹریز دکھا کر بھی رہنمائی فراہم کی گئی اور تصاویر کے ذریعے سے بھی اس موضوع کو منظر پر لایا گیا ہے.

اس کانفرنس سے ایک بحث کا آغاز بھی ہوتا ہے جس کا حاصل ملک سے اس ناسور کا خاتمہ ہے. در اصل اس ساری بحث پر اگر میں بات کروں گا تو میری تحریر بھی طویل ہوجائے گی. اس لئے اپنی تحریر اور آپ کے وقت کا خیال کرتے ہوئے میں بس چند اہم اور بنیادی سوالات اور ان کے جوابات آپ کے سامنے رکھوں گا جو کہ اس ساری کانفرنس سے حاصل کردہ مفید معلومات کو ایک کوزے میں سمیٹ دیتے ہیں.

اس کانفرنس میں جب بچوں کی کردار سازی کے حوالے سے سوال اُٹھایا گیا تو قابل قدر استاد محترم سکندر صاحب نے بہت تفصیل سے بیان کیا کہ کیسے بچوں کی کردار سازی کی جائے. جس میں انھوں نے چند اہم نکات سامنے رکھے تھے لیکن میں ان کے نکات میں سے مخصوص نکتہ ہی آپ کے سامنے پیش کروں گا . وہ یہ کہ جیسے ہم کسی کمپیوٹر پر پروگرامنگ کرتے ہیں اور کوئی نیا سوفٹویئر بناتے ہیں ایسے ہی ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں کی بھی پروگرامنگ کریں اور ان کو زمانے کے طور طریقوں اور معیار کے مطابق ان کا سوفٹویئر تشکیل دیں. اس میں سب سے پہلے تو والدین کو خود اپنے آپ کو شیشے میں دیکھنا ہوگا کیونکہ ان کے بچے ہمیشہ ان کا عکس ہی دیکھیں گے اور اس ہی سے وہ متاثر بھی ہوں گے. یعنی اگر والدین بچوں کے سامنے سچ بولیں گے تو بچوں کو بھی سچ بولنے کی عادت پختہ ہو جائے گی. لیکن یہاں میں اپنا ایک تجزیہ بھی پیش کروں گا اور بدقسمتی سے معاشرے کا روایتی رویہ بھی جو کہ ہر گھر میں دیکھنے کو ملتا ہے. ہم بات کر رہے تھے سچ کے حوالے سے لیکن یہاں تو والدین خود جھوٹ بول دیتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی کو بھی یہی راہ دکھاتے ہیں.

یعنی اگر کوئی دروازے پر دستک دے اور آپ نے اس شخص سے نہ ملنا ہو تو سب سے پہلے آپ اپنے بچوں کو جھوٹ کا سہارا دے کر منع کر دیتے ہیں. یہ وہ جھوٹ ہوتا ہے جو کہ کبھی تو بچوں کے معصوم چہرے پر مسکراہٹ بن کر عیاں ہو جاتا ہے. لیکن والدین اس طرح سے ان کو جھوٹ کی تعلیم دے رہے ہوتے ہیں اور ایسا کرنے سے ان کی جھوٹ کی عادت پختہ ہو جاتی ہے. یہ تو میں نے صرف جھوٹ کے حوالے سے ہی بات کی ہے اور بھی بہت سی غلط عادات ہم اپنے بچوں کو اس طرح سے پختہ کروا رہے ہیں. جبکہ والدین کو اپنے بچوں کی بہترین طبیعت کے لئے اس حکمت پر عمل کرنا ہوگا اور ان کے سامنے اپنا بہترین چہرہ رکھنا ہوگا. جس سے ان کی مثبت کردار سازی ہوسکے. یہ تو تھا ایک سوال اور اس کا جواب نیز اس میں میرا اپنا خیال بھی شامل ہوگیا ہے.

دوسرا سوال جو کہ بہت اہم تھا کہ کیا وجہ ہے کہ وطن عزیز میں اس ناسور کو آج کل سرگرم دیکھا جارہا ہے؟ اس کے جواب میں کانفرنس میں شریک بیشتر مہمان گرامی کا ایک موقف تھا. جس سے آپ اور میں تضاد بھی کرسکتے ہیں. ان کا موقف یہ تھا کہ یہ سب جو ملک میں ہورہا ہے بچوں اور خواتین کے ساتھ یہ سب پھیلی ہوئی بے حیائی اور بے حسی کا نتیجہ ہے. نیز اس بے حیائی کی وجہ مغربی ثقافت اور ملبوسات کو اپنے رہن سہن میں شامل کرنا ہے. یعنی کہ مغربی نظام جس نے مغرب کو آزار خیال یا پھر دوسرے معنوں میں بے حیا بنا دیا ہے. آج کل پاکستان میں بھی یہی نظام رائج کیا جارہا ہے اور ملک کو بے حیائی کا شکار کیا جارہا ہے. جس کی وجہ سے ان واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے.

یہاں میں تھوڑا سا تضاد بھی کرتا ہوں. وہ یہ کہ مدرسوں اور مساجد میں تو اس نظام کے خلاف اعلان جنگ ہے. ہمارے علماء کرام اس معاملے پر سخت نظر بھی رکھتے ہیں. لیکن پھر بھی مدرسوں اور مساجد میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور ہراساں کرنے جیسے واقعات کیوں سامنے آریے ہیں؟ یقیناً مغرب بھی اس بے حیائی کی وجہ ہوگا لیکن اصل میں ہم بحیثیت انسان خود خراب ہوتے ہیں. ہم کب تک مغربی نظام اور مغرب کو اس بحث میں مورد الزام ٹھہرائیں گے. جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم خود اخلاقی طور پر کھوکھلے ہوگئے ہیں.

ہمارا معاشرہ قانون کی دھجیاں اڑا کر فخر محسوس کرتا ہے. ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے غریب کا استحصال ہوتا نظر آیا ہے. لیکن اب نہیں اب سے میں اور آپ اس سب ظلم کے خلاف آواز بلند کریں گے اور جو بچے اس ناسور کا شکار ہوے ہیں. ان کی عزت معاشرے میں دوبارہ سے بحال کریں گے اور دیگر بچوں کی حفاظت یقینی بنائیں گے . نیز اربابِ اختیار کو بھی مجبور کریں گے کہ وہ اس حوالے سے سخت سے سخت ترین رویہ اور قانون سازی بھی کریں . مزید اس قانون پر امیر غریب کا فرق کیے بغیر عمل بھی کروائیں. کیا خوب انداز میں پروین شاکر صاحبہ نے ظلم کے خلاف خاموش رہنے والوں کے لئے لکھا ہے کہ؛
ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا
خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح
Muhammad Humayun Shahid
About the Author: Muhammad Humayun Shahid Read More Articles by Muhammad Humayun Shahid: 34 Articles with 27392 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.