دنیائے عالم میں بعض ممالک ایسے ہیں جہاں سے ہر کچھ عرصہ
بعد کسی نہ کسی حوالے سے حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے۔ گذشتہ
دنوں میں فرانس اس حرکت کا مرتکب ہوا ہے ، جس پر ہر مسلمان کا دل رنجیدہ
ہے۔ آج ہمیں جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر کچھ دن بعد
کسی نہ کسی غیر مسلم کو ایسی جسارت کا خیال آتا ہے اور وہ اس اقدام سے خود
کو باز نہیں رکھ پاتا۔ آخر ہم کیوں غیر مسلموں کو اب تک یہ نہیں سمجھا سکے
کہ مسلمانوں نے آج تک ان کی کسی مقدس ، روحانی ہستیوں کی شان میں گستاخی
نہیں کی ۔ کبھی کارٹون بنائے اور نہ ہی کوئی کلمات کہہ کر کافروں کے مذہبی
و روحانی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ۔ تو پھر آخر کیوں ہر کچھ دن بعد کوئی نہ
کوئی کافر ہماری ایمانی حرارت جانچنے کی کوشش کرتا ہے؟ ۔
شاید، کہ کفار جانتے ہیں کہ دنیا کے 57 اسلامی ممالک مجموعی طور پر ان کی
ایسی حرکتوں کا منہ توڑ جواب دینے کی جرات نہیں رکھتے۔ انفرادی طور پر کوئی
مسلمان متعلقہ گستاخ کو جواب دینے کوشش کرتا ہے تو مسلم ممالک اسے تحفظ
فراہم کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ گستاخِ رسول ﷺ و گستاخِ صحابہؓ کے
خلاف کوئی مسلمان انتہائی اقدام اٹھانے کے بعد اگر متعلقہ ملک میں قانون
نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت میں آ جائے تو اس کا اپنا ملک بھی اس کا
ساتھ نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے بعض حلقے شانِ اقدسﷺ میں گستاخی
کرنے والے ممالک کے سفیر کو ملک بدر کرنے اور غیرملکی اشیاء کے بائیکاٹ کا
مطالبات کرتے ہیں تو ہمارے مطالبات کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ ان وجوہات کا
فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا ہماری مقدس ہستیوں پر انگلیاں اٹھانے جیسی گستاخیاں
ڈنکے کی چوٹ پر کرتی ہے اور ہم خون کے گھونٹ پینے کے سوا کچھ نہیں کر پاتے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو
جواب دینے کا واحد اور موثر ذریعہ نبی ﷺ کے پیغامات کا پرچار ہے۔ بڑے
پیمانے پر آپ ﷺ کے اسباق کی ترویج کرنا اور اس پیغام کو دنیا بھر کے ایک
ایک گھر تک پہنچانے کا غیر محسوس طریقے سے اہتمام کرنا، ان گستاخیوں کا
انتہائی موثر اور بھرپور جواب ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس پالیسی کو حکومت
پنجاب نے بھرپور طریقے سے اپناتے ہوئے ہفتہ شانِ رحمت اللعالمینؐ دینی جوش
و جذبے اور عقیدت کے ساتھ منایا۔ حکومت پنجاب نے مقدس ہستیوں کے خلاف عالم
کفر کی گستاخیوں کا منفرد انداز میں جواب دیتے ہوئے اپنا بھرپور کردار ادا
کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور انتظامی تاریخ میں پہلی مرتبہ
پورا ایک ہفتہ سرکاری طور پر نبی ﷺ کی ذات سے منسوب کرتے ہوئے، ان ﷺ کا
پیغام دہرایا اور تمام محکموں ، ہر ضلع، ہر ادارے میں تقاریب شان رحمت
اللعالمینؐ منعقد ہوئیں۔ بلاشبہ موجودہ سے قبل کسی حکومت نے یوں اہتمام کے
ساتھ یہ کام نہیں کیا اور یہ اعزاز بزدار حکومت کے حصے میں آیا۔
حکومت پنجاب نے اس ضمن میں پروگرامات کے حوالے سے پورا میپ تشکیل دیا۔ ایک
شیڈول جاری کیا جس میں ہر لیول پر مقابلہ حسن قراء ت و نعت، مضمون نویسی،
خطاطی، تقاریر، ریسرچ آرٹیکلز، سیمینار، واکس، کانفرنسز، نعتیہ مشاعرے،
محافل سماع، لیکچرز، محافل میلاد، خصوصی سٹیج پلے، خصوصی نشریات اور
دستاویزی فلموں سمیت مختلف سگنٹس شامل تھے۔ حکومت پنجاب کے پلیٹ فارم سے
تمام چھوٹے بڑے شہروں ، اضلاع اور تمام شعبہ جات میں ہزاروں کی تعداد میں
پروگرامات کا انعقاد ہوا۔ یہ پروگرامات صوبے، ڈویژن، ضلع، تحصیل اور شہروں
کی سطح پر الگ الگ منعقد ہوئے۔ سکول، کالج اور یونیورسٹی لیول پر ہونے والے
پروگرامات اس کے علاوہ تھے ۔ نہ صرف سرکاری محکموں بلکہ نجی سطح پر بھی ہر
ادارے میں اس ضمن میں ایونٹس منعقد ہوئے ۔ ان سیگمنٹس کے ذریعے جہاں دنیا
بھر کو پیغام گیا کہ نبی ﷺ امن کے داعی ہیں …… ان کی ذات سے نہ کسی کو
نقصان پہنچا ، نہ ہی انہوں نے کسی کو اذیت دینے کی اجازت دی …… اور نہ ہی
انؐ کا پیغام اپنانے یا انؐ کے دئیے گئے روڈ میپ پر چلنے سے کسی کی شہرت
متاثر ہوگی …… وہیں ہمارے طلبہ اور نوجوان بھی نبی ﷺ کی سیرت کے مزید
مطالعے کی طرف مائل ہوئے ۔ بلاشبہ یہ منفرد سرگرمیاں ہیں جو کسی بھی حکومتی
پلیٹ فارم سے پہلی بار منعقد ہو ئی ہیں۔ دوسری جانب حکومت کا ان سرگرمیوں
کو آئندہ کیلئے سرکاری طور پر اپنے سالانہ کیلنڈر کا حصہ بنانے کا عزم بھی
یقینا قابل تعریف ہے۔ یقینا یہ تمام پروگرامات کفار کے ان تعصبات کا جواب
ہیں جو وقتاً فوقتاً ان کے اذہان پر کھجلی کرکے انہیں گستاخی کی جسارت پر
مجبور کرتے ہیں۔
یہ تمام سیگمنٹس بلاشبہ متاثر کن تھے ، تاہم دو سیگمنٹ زیادہ منفرد اور
مختلف ہیں ۔ جن میں دستاویزی فلم بنانے کا مقابلہ اور سیرتؐ پر ریسرچ کرنے
والوں کیلئے 50 کروڑ روپے مالیت کی سکالر شپ کا اجراء شامل ہیں۔ دستاویزی
فلمیں بنا کر انہیں ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر مختلف زبانوں کے سب
ٹائٹلز کے ساتھ نشر کرنے کا فیصلہ اور نبی ﷺ کی سیرت پر ریسرچ کرنے والے
محقق کی حوصلہ افزائی کیلئے سکالرشپس دینے کے اقدامات یقینا سراہے جانے کے
قابل ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دستاویزی فلموں اور ریسرچ کو بڑے
پیمانے پر پھیلایا جائے اور سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا پر انہیں سپانسر
کرواکر بڑے پیمانے پر بوسٹ کیا جائے تاکہ یہ دستاویزی فلمیں اور تحقیقات،
فرانسیسیوں سمیت غیر مسلم دنیا کے ہر فرد کی موبائل سکرینوں تک پہنچیں اور
انہیں ہمارے نبی ﷺ کی حرمت کے تقدس کا احساس ہو سکے۔ یقینا پے در پے
گستاخیوں کے تناظر میں انہیں اس سے بہتر جواب دیا بھی نہیں جا سکتا۔
|