حیات کے لیۓ روزی اور ھدایت کے لیۓ رسول

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ یُونس ، اٰیت 31 تا 35 حیات کے لیۓ روزی اور ھدایت کے لیۓ رسول !! ازقلم......اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قل
من یرزقکم
من السماء والارض
امن یملک السمع والابصار
و من یخرج الحی من المیت و
یخرج المیت من الحی و من یدبرالامر
فسیقولون اللہ فقل افلا تتقون 31 فذٰلکم اللہ
ربکم الحق فماذا بعد الحق الا الضلٰل فانٰی تصرفون 32
کذٰلک حقت کلمت ربک علی الذین فسقواانھم لا یؤمنون 33
قل ھل من شرکائکم من یبدؤالخلق ثم یعیدہ قل اللہ یبدؤالخلق
ثم یعیدہ فانٰی توفکون 34 قل ھل من شرکائکم من یھدی الی الحق قل
اللہ یھدی للحق افمن یھدی الی الحق احق ان یتبع امن لایھدی الا ان یھدٰی
فمالکم کیف تحکمون 36 ومایتبع اکثرھم الاظنا ان الظن لا یغنی من الحق شیئا
ان اللہ علیم بمایفعلون 36
اے ھمارے رسول ! آپ اپنے اہلِ زمانہ سے پُوچھیں کہ کون ھے وہ جو سات آسمان و زمین کے آٹھ دروازوں سے ہر انسان و حیوان کو ہر روز اُس کی روزی فراہم کرتا ھے اور کون ھے وہ جس نے تُمہارے کانوں کو سُننے کا مَلکہ اور تُمہاری آنکھوں کو دیکھنے کی مہارت دی ھے اور کون ھے وہ جو جاندار مُرغی سے ایک بے جان اَنڈا پیدا کرتا ھے اور پھر اُس بے جان اَنڈے سے ایک جاندار چُوزہ پیدا کر دیتا ھے اور کون ھے وہ جو اپنی ہر ایک مخلوق کے ہر ایک جاندار کی موت و حیات کی تدبیر کرتا ھے تو یقین جانیں تو یہ سارے لوگ کہیں گے کہ وہ صرف اور صرف اللہ ھے جو یہ سارے عظیم الشان کام کرتا ھے اور جب وہ آپ کو یہ جواب دے دیں تو تَب آپ اُن سے پُوچھیں کہ اگر تُم سب یہ سب جانتے اور مانتے ہو تو پھر اُس اللہ کی نافرمانی کیوں کرتے ہو اور تُم اپنے اُس پرورش کار کو چھوڑ کر کہاں بہٹک رھے ہو اور اے ھمارے رسول ! آپ کو تو آپ کے پروردگار نے یہ حقیقت بتادی ھے کہ جن لوگوں کے دل شرک کے تاریکی سے سیاہ ہو چکے ہیں اُن کے یہ سیاہ دل حق کے نُور سے مسرُور نہیں ہونے لگے لیکن پھر بھی اُن سے یہ پُوچھ لیں کہ تُم لوگوں نے جو لوگ اللہ کے اقتدار و اختیار کے شریکِ کار بنا رکھے ہیں اُن میں سے کون ھے جو کسی چیز کو عدم سے عالَم میں لاتا ھے ، پھر عالَم سے عدم میں لے جاتا ھے اور پھر بارِ دِگر اُس وجُود کا اعادہ کرتا ھے اور پھر آپ اُن کو یہ بھی یاد دلا دیں کہ وہ صرف اور صرف اللہ ھے جو ہر چیز کو عدم سے عالَم میں لاتا ھے اور عالَم سے عدم میں لے جاتا ھے ، اگر تُمہارا مُشاھدہ اُس کے اِن اعمال کا شاھد ھے تو پھر تُم اُس کو چھوڑ کر کہاں مارے مارے پھر رھے ہو اور آپ اُن سے یہ بھی پُوچھیں کہ تُم لوگوں نے جن لوگوں کو اللہ کا شریکِ اقتدار و اختیار بنا رکھا ھے اُن میں کون ھے جو کسی کو حق کا راستہ دکھاتا ھے اور اُس پر چلاتا ھے اور اگر تُمہارے اِن خود ساختہ الٰہوں میں کوئ بھی حق کا راستہ نہیں دکھاتا ھے تو پھر تُم خود سوچو کہ تُم کو اُس کی بات ماننی چاہیۓ جو حق کا راستہ دکھاتا ھے یا اُس کی بات ماننی چاہیۓ جو خود اِس راستے کا مُحتاج ھے ، حقیقت یہ ھے کہ جو لوگ اِن کُھلے کُھلے حقائق کو اپنی کُھلی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی انصاف کے بجاۓ ناانصافی پر تُلے ہوۓ ہیں تو اُس کی وجہ صرف یہ ھے کہ جو لوگ ھدایت کی روشنی میں چلنے کے بجاۓ اپنے اَندھے اندازوں سے چلنے کے عادی ہو جاتے ہیں تو پھر وہ عُمر بھر اپنے اُسی اَندھے پَن کے اَندھیرے میں ٹامک ٹویاں مارتے مارتے مر جاتے ہیں !

مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اللہ تعالٰی اپنی ذاتِ عالی کے ساتھ اپنی کائنات میں کبھی بھی ظاہر نہیں ہوا ھے لیکن وہ اپنی صفاتِ عالیہ کے ساتھ اپنی کائنات میں ہمیشہ جلوہ گر رہا ھے ، یہ زمین و آسمان ، یہ سُورج و چاند ، یہ ستارے و سیارے ، یہ سبزہ و گُل ، یہ دریا و سمندر ، یہ آب و ہوا ، یہ اَشجار و اَثمار اور یہ صحرا و کوہسار اُس خالق کی صفتِ خَلق کے وہ چند چیدہ چیدہ نمایاں جلوے ہیں جن کا وجُود انسان کے سامنے خالق کی اُس تخلیق کا ایک ایسا وسیع نقشہ پیش کردیتا ھے جس کو دیکھ کر انسان اپنے اُس خالق کی قُدرتوں اور قُوتوں کا اندازہ بھی لگاسکتا ھے اور اِن پر غور و فکر کر کے اُس کی ذات اور اُس کی ہستی پر اپنا ایمان و اعتماد بھی بڑھا سکتا ھے ، قُرآنِ کریم بھی انسان کو اِن مظاہر کائنات کی طرف متوجہ کرنے ، اِن کو دیکھنے اور اِن میں غور و فکر کرنے کی بار بار اسی لیۓ دعوت دیتا ھے تاکہ انسان خالقِ کائنات کے اِس اِس نقشِ تخلیق کو جانے اور اپنے خالق کے اُن اَحکامِ اَمر و نہی کو مانے جو اَحکامِ اَمر و نہی اُس نے مُختلف زمان و مکان میں اپنے مُختلف اَنبیاء و رُسل کے ذریعے انسان کو دیۓ ہیں اور سب سے آخر میں قُرآن کی صورت میں عالَمِ انسانیت کو تفویض کیۓ ہیں ، قُرآنِ کریم کی مُحولہ بالا آٹھ اٰیات میں اللہ تعالٰی نے جن آٹھ اُمور کا ذکر کیا ھے اور جن آٹھ امور کو اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں ھم نے بیان کیا ھے اُن اُمور کا تعلق بھی خالق کی اسی کائنات کے اُن ہی مظاہر کے ساتھ ھے جن کو انسان ہمیشہ سے دیکھتا آیا ھے اور جن پر اپنی فکری بساط کے مطابق ہمیشہ غور و فکر کرتا رہا ھے اور نزولِ قُرآن کے زمانے تک مظاہرِ کائنات کے بارے میں انسان کا یہ تصور اتنا پُختہ ہو چکا تھا کہ اِن مظاہر کو دیکھ کر ایک مومن و مُسلم ہی نہیں بلکہ ایک کافر و مُشرک بھی بِلا تردد اللہ کے خالقِ کائنات اور مالکِ کائنات ہونے پر استدلال کر سکتا تھا اور نزولِ قُرآن کے زمانے میں انسانی ذہن میں کوئ ایسی گرہ موجُود نہیں رہی تھی جو انسان اور اللہ کی پہچان میں رکاوٹ بنتی یا بن سکتی تھی ، نزولِ قُرآن کے زمانے میں اللہ تعالٰی نے انسان کے لیۓ اسی حقیقتِ ثابتہ کو ثابت تَر بنانے کے لیۓ اپنے نبی کو اپنے زمانے کے مُنکرینِ حق سے وہ سوال و جواب کرنے کا حُکم دیا تھا جن کا متنِ اٰیات میں ذکر ہوا ھے اور جن کو مفہومِ اٰیات میں ھم نے واضح کیا ھے ، اِن سوالات و جوابات کا مقصد یہ تھا کہ قُرآن کے اِس بیان سے عھدِ مُستقبل کے ہر انسان پر یہ بات واضح ہو جاۓ کہ نزولِ قُرآن کے بعد کا زمانہ اللہ کے وجُود کے ثبوت کی فلسفیانہ مُوشگافیوں کا زمانہ نہیں ھے بلکہ اللہ کے اَحکامِ اَمر و نہی پر عمل کرنے کا زمانہ ھے اور ہر انسان پر یہ بات بھی واضح ہو جاۓ کہ نزولِ قُرآن کے بعد جو لوگ بھی تمسک بالقُرآن کے بجاۓ مباحثِ حدیث و فقہ میں اُلجھیں اور اُلجھائیں گے وہ تلبیسِ ابلیس سے بہت قریب اور قُرآن کی تعلیم و تفہیمِ سے بہت دُور ہوتے چلے جائیں گے ، قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا میں مظاہرِ کائنات کے بارے میں جن آٹھ عقلی و مَنطقی اُمور کا ذکر کیا ھے اِس مقام پر ھم اُن میں سے صرف اٰیتِ اَوّل کے اَمرِ اَوّل اور اٰیتِ آخر کے اَمرِ آخر کی طرف توجہ دلائیں گے ، انسان چونکہ دُنیا میں ایک ایسی مجبور و مُحتاج ہستی ھے جس کے خیالات کا سارا تانابانا اِس کی ضروریات سے جُڑا ہوا ھے اِس لیۓ اٰیاتِ بالا کی سب سے پہلی اٰیت میں سب سے پہلے اِس کی روزی کے سوال کو موضوعِ بحث بنا کر مظاہرِ کائنات سے خالقِ کائنات اور خالقِ کائنات سے رزاقِ کائنات کی ہستی پر یہ مَنطقی استدلال کیا گیا ھے کہ جس ہستی نے کائنات کو پیدا کیا ھے وہی ہستی اپنی مخلوق کے لیۓ روزی رسانی کا اہتمام کرتی ھے اور کر رہی ھے اور سلسلہِ کلام کی آخری اٰیت میں یہ بتایا گیا ھے کہ جس طرح کائنات میں انسانی حیات کی بقا کے لیۓ رزق کا حاصل کرنا ایک کارِ لازم ھے اسی طرح انسانی حیات کے ارتقاء کے لیۓ انسانی حیات کے لیۓ ھدایت کا حاصل کرنا بھی ایسا ہی ایک کارِ لازم ھے اور اِن دو اُمور سے یہ مَنطقی اخذ کیا ھے کہ زندہ رہنے کے لیۓ انسان کو اُس رزقِ حیات کی ضرورت ھے جس کو اللہ نے انسان کے لیۓ پیدا کیا ھے اور زندگی گزارنے کے لیۓ انسان کو اُس رسولِ ھدایت کی ضروت ھے جس کو اللہ نے انسان کی ھدایت کے لیۓ مامور کیا ھے اور جس پر اُس نے اپنی آخری کتاب نازل کر کے اپنے دین و آئین کو مُکمل کر دیا ھے !!
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 447038 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More