یہ انگوٹھا چھاپ؟

سرمایہ داری اورجدیدبنیادی حقوق کے فلسفے نے ایک حاسدحریص لالچی مریض پید اکیاہے جس کاخدااورنبی صرف پیسہ ہے۔یہ طالب لذات جانورہے لہٰذالذتوں میں اضافہ کیلئےاسے ہروقت،مسلسل ہرلمحے سرمایہ کی ضرورت ہے۔مغربی فلسفے اور سائنس وٹیکنالوجی نے حرص وحسد وہوس کی عمومیت کومفادعامہ کادرجہ دے دیا۔اس کے نتیجے میں ایک شیطانی وجودبرآمد ہوا۔ایسایک رخاانسان پیداہواجس کارخ صرف شہوت،غضب،لذت،دولت اوراس دنیاکے مزوں کی طرف ہے۔اسے اس سے کوئی بحث نہیں ہے کہ21ویں صدی میں شمالی کوریامیں ساٹھ لاکھ انسان بھوک سے مرگئے،افریقہ کے ملکوں ایتھوپیا،صومالیہ،سوڈان میں کئی لاکھ قحط سے موت کاشکارہوئے لیکن جدید سائنس کے بنائے ہوئے طیارے،بحری جہاز،ریلوے ٹرالر،ان بھوکے لوگوں تک اناج نہیں پہنچاسکے کیوںکہ ان کے پاس اناج کے پیسے نہیں تھے اوریہ جدیدانسان ان کو مفت میں اناج مہیانہیں کرناچاہتاتھا۔

آج عہدجدیدمیں ہرہفتے،ہرروزدن میں دومرتبہ غلے کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں،اس کی بنیادی وجہ مغرب کاتخلیق کردہ طلب ورسدکا قانون اورمغربی معیشت کی ایجادآزاد منڈی کی معیشت۔اجارہ داریاں اورسرمایہ دارانہ مزاج یعنی آزادی لذت کازیادہ سے زیادہ حصول ہے۔جدید معیشت وفلسفے نے دنیاکی تاریخ میں پہلی مرتبہ بتایاہے کہ(انسان جانوروں کی تلاش میں خوش ہے)اورسرمایہ میں اضافے کامطلب لذت کے حصول میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہے۔ظاہرہے اس فلسفے کے نتیجے میں قیمتیں ہی بڑھیں گی۔یہ درست ہے کہ جدیدسائنس وٹیکنالوجی نے غلے کی پیداوارمیں بے تحاشہ اضافہ کیاہے لیکن اس سائنس وٹیکنالوجی نے انسان کی حرص،حسدوہوس کوغلے کی پیداوارسے بھی کئی گنازیادہ بڑھادیاہے کیونکہ یہ سائنس لذت اندوزی کی جتنی چیزیں ایجادکررہی ہے اس کے حصول کیلئے مسلسل پیسہ کمانے کی دوڑمیں شامل ہوئے بغیرچارہ نہیں ہے۔

ورلڈبینک،ورلڈ فوڈآرگنائزیشن،آئی ایم ایف کے مطابق گزشتہ کئی برسوں سے دنیامیں جتنی غذائی اجناس پیداہوئی ہیں،دنیاکی تاریخ میں کبھی اتنی اجناس ،اتناغلہ پیدانہیں ہوالیکن اس کے باوجودغلے کی قیمت کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہی ہے اوراسی حساب سے بھوک میں اضافہ ہورہاہے۔ سوال یہ ہے کہ جب غلہ اجناس غذائی اشیاءانسانی ضروریات سے بہت زیادہ پیداہورہی ہیں تودنیامیں قحط کیوں آرہے ہیں؟لوگ خود کشی کیوں کررہے ہیں ؟دنیاکی تاریخ میں جس طرح قحط اب پڑے ہیں جس طرح لوگ بھوکے اب مرے ہیں جس طرح قیمتیں اب چڑھی ہیں کبھی نہیں چڑھیں آخر کیوں ؟

پوری تاریخ انسانی میں دنیاکی اکیس تہذیبوں میں کبھی ایسانہیں ہواکہ کسی نے بھوک سے خودکشی کی ہو۔اس دورمیں غلے کی کثرت کے باوجودخوکشیوں کے ریکارڈبن رہے ہیں،وجہ یہ ہے کہ اس دورمیں ضرورت سے زیادہ غلہ پیداکرنے والاانسانیت کی خدمت کیلئے،غربت کے خاتمے کیلئے،حاجت مندوں کی ضرورت کیلئے غلہ پیدانہیں کررہابلکہ وہ اپنے نفس کی خواہشات پورا کرنے کیلئے غلہ پیداکررہاہے،اسے پیسے چاہیں چاہے غلہ پڑاپڑاخراب ہوجائے یا ساری دنیابھوک سے مرجائے..یہ انسان انسان نہیں درندہ ہے۔اس کی درندگی بہمیت وحشت،ظلمت اس کے باطن کی تاریکی ذلت رسوائی خباثت اسے غلے کی ضرورت ڈیمانڈ بڑھنے پراسے غلے کی قیمت ذیادہ سے زیادہ کرنے پرآمادہ کرتی ہے،یہ لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قیمت کو بڑھاتا ہے۔

دنیاکی تاریخ میں کبھی ایسانہیں ہواکہ کوئی شخص بھوکے لوگوں کی قطاریں دیکھ کرخوش ہوا،فاقہ مستوں کے سوکھے چہرے دیکھ کراسے مسرت حاصل ہوکہ ان چہروں اوراس حالت کی وجہ سے اس کے پیدا کردہ غلے کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔منافع ڈبل ہوجائے گا….اوراگراس کے غلے کی قیمت کم ہو جائیں تواسے دکھ ہو۔ایساذلیل انسان پوری تاریخ انسانی میں کسی تہذیب میں کسی مذہب میں کبھی پیدانہیں ہوا۔یہ اس جدید سائنس وٹیکنالوجی کاکمال ہے جوجدید فلسفے سے پیداہوئی ہے اوراس جدیدانسان کاضمیر خمیربھی اسی خاک سے اٹھاہے۔تاریخ کے ہر دورمیں پیداوارکامقصدصرف کھپت ہوتاتھا، پیداروارزیادہ ہوتی تواسے فروخت کردیا جاتایاخیرات کردیاجاتالیکن پیداواربرائے پیداوار،پیداوار برائے بڑھوتری منافع،اورپیداواربرائے تبادلہ انسان کا کبھی یہ مقصد نہیں رہا۔

لوگ صرف غلے کے ڈھیرغلے کی مقدار،غلہ اگلتی ہوئی زمینوں کی سائنس وٹیکنالوجی کودیکھتے ہیں لیکن اس رویے،طریقے، اسلوب حیات،طرز زندگی کونہیں دیکھتے جوغلے کے اس ڈھیرسے برآمدہوا۔یہ رویہ ایسے ہی نہیں برآمد ہوا،اس رویے کے بغیر اتناغلہ کبھی نہیں پیداہوسکتا تھا۔ خوشحالی کایہ ڈھیراور فارغ البالی کایہ انبارحرص وحسدوہوس کے اس مابعدالطبیعیاتی فلسفے سے برآمدہواہے جوسترہویں صدی کے بعدروشن خیالی،تحریک نشاۃ الثانیہ اور تحریک تنویرکے ذریعے دنیاکوملاہے اوردنیاپرابھی تک حکومت کررہاہے۔یہ سترہویں صدی کے دورتنویروروشن خیالی کاکمال ہے کہ انسان کی تمام صلاحیتیوں،توانائیوں اورامکانات کو عقلی اعتبارسے پیٹ ومعدہ تک محدودکردیاگیاہے۔

عہدقدیم میں جب کسی علاقے کی زمین زرخیزی کھودیتی زمین غلہ اگلنابندکردیتی تولوگ ان علاقوں سے نقل مکانی کرتے تھے۔ عہد جدید کی ضلالت قوم پرستی نے جس کی تاریخ چارسوسال سے زیادہ نہیں،قومی سرحدیں بناکراس نقل مکانی کوناممکن بنادیا ہے۔چندسال پہلے افریقہ میں قحط پڑااورلوگ ایک افریقی ملک سے دوسرے افریقی ملک جانے لگے توسرحدوں پرفائرنگ کرکے انسانوں کوہلاک کردیاگیا۔غزہ میں اسرائیل نے لوگوں کوقحط میں مبتلاکیا تو لوگ مصرکی سرحد پرجمع ہوگئے لیکن مصرنے بیکس فلسطینیوں کواپنی سرحدوں میں داخل ہونے سے جبراً روک دیا۔اس کافلسفہ یہ ہے کہ یہ لوگ آئیں گے توہماری معیشت پربوجھ بنیں گے۔ہمارے حصے میں سے کھالیں گے ہمارے وسائل کم ہوجائیں گے ۔

ساڑھے سات ہزارسال کی تاریخ میں قدیم تہذیبوں میں کبھی کسی شخص کوایک خطے سے دوسرے خطے ایک براعظم سے دوسرے براعظم منتقل ہونے پرقدغن عائدنہیں ہوئی،کسی تہذیب نے اوراس عہد کے کسی انسان نے یہ نہیں سوچا کہ کسی دوسرے شخص یاگروہ کے ہمارے علاقے میں آنے سے معاشی مسائل پیداہوں گے۔ہمارے وسائل کم ہوجائیں گے۔یہ ذلیل ذہنیت مغرب کے فکروفلسفے اورمغربی نیشنل ازم کی پیداوارہے جس نے پہلے ملکوں کوقومیت کی بنیادپرتقسیم کیااس کے بعدکلیسا بھی قومی کلیسا بن گئے،چرچ آف انگلینڈ،چرچ آف اسپین وغیرہ اس کے بعدسفرکیلئے پاسپورٹ ویزاکی پابندیاں عائد کردی گئی۔
1924ءتک جب خلافت عثمانیہ زندہ تھی اسلامی خلافت کے کسی حصے میں کسی شخص کی نقل وحمل حرکت پرکوئی پابندی نہ تھی،ہر مذہب عقیدہ کے لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرتے رہتے تھے،اس عہدکے لوگ،حکمران،دانشوراس بات سے آگاہ تھے کہ قحط بھوک خشک سالی کے باعث ہجرت اورنقل مکانی کرکے کسی اورملک سے آنے والاشخص ہمارابھائی ہے۔ اللہ کابندہ ہے،مشکل حالات میں ہے لہٰذاہماری خوشیوں کے خوشوں میں سے چندخوشے چن لے گاان کیلئے یہ خوشی کاموقع ہوتا تھا،وہ اس کااستقبال کرتے تھے،مددکرتے تھے،ہمدردی کرتے تھے،ان کی دانش کایہ عالم تھاکہ آنے والا صرف اپنے ساتھ ایک خالی پیٹ اورکھلامنہ لیکرنہیں آرہا ہے بلکہ اپنے دوہاتھ،اپنی عقل،اپنے تجربات، اپنی تہذیب تاریخ کاپوراورثہ،اپنی آبائی دانش،فہم، عقل،ذکاء،ذہانت،جذبات محسوسات،اورخداجانے کیاکیاکچھ لے کرآرہاہے۔یہ صرف روٹی نہیں کھائے گابلکہ اپنے تہذیبی تاریخی ورثے سے ہمیں اخذواستفادے کاموقع بھی دے گا۔

عہدحاضرکاذلیل انسان اس دانش سے محروم ہے اس لیے دنیانے ٹی وی پریہ نظارہ دیکھاکہ ایتھوپیا، جنوبی کوریا،صومالیہ،سوڈان، میں قحط کے بعد جب قحط زدہ لوگ اپنے ملک کی سرحدوں سے دوسرے ممالک کی سرحدیں پھلانگنے لگے توان کی عورتوں بچوں اوربوڑھوں کوگولی مارکرہلاک کردیاگیا۔کچھ عرصہ پہلے برمااورچنددن پہلے شام کے مہاجرین کی ہجرت کے مناظردنیا نے دیکھے ۔یہ لوگ سمندروں میں ہی ڈوب مرے اور انسانیت کاکوئی نجاد ت دہندہ انہیں لینے کوتیارنہ ہوا ۔ پانچ سالہ بچے ایلان کی سمند رکنارے پڑی لاش ساری دنیاکے میڈیا پرانسانیت کے عالمی علمبرداروں کامنہ چڑھاتی رہی۔

دنیاکی اکیس تہذیبوں میں نہ کبھی اتنی بیماریاں تھیں،نہ اتنی عیاشیاں،نہ اتنے ہسپتال،نہ اتنے ہوٹل،کیفے،اسنیک بار،ریستوران، فاسٹ فوڈیہ ممکن ہی نہیں تھاکہ کوئی شخص ایک جگہ سے دوسری جگہ جائے اوراس کی مہمان نوازی نہ کی جائے لہٰذاہوٹلوں کا کیاسوال،مہمانداری تمام اکیس تہذیبوں کی مستحکم روایت تھی لہٰذادنیا میں نہ کوڑے کرکٹ کاوہ ڈھیرتھاجواکیسوں صدی میں ہے نہ عیش وعشرت کی وہ زندگی جس سے مال کمانےکیلئےاربوں ٹن کوڑاتیارکیاجارہاہے۔فطری سادہ پرمسرت زندگی کے باعث لوگ ہرایک کے مہمان بنتے تھے اورلوگ بخوشی مہمان بناتے تھے،یہ ایک مذہبی فریضہ دینی ومذہبی ذمہ داری تھی طالب علم ایک براعظم سے دوسرے براعظم حصول علم کیلئےجاتے تووہاں کے امراء اورعام لوگ ان طالب علموں کی مہمان داری میں فخر کرتے انہیں اپنامہمان بناتے،ان کی خوراک کاخیال رکھتے تھے۔

2007ءمیں پاکستان میں گندم کی سب سے بہترین فصل ہوئی لیکن گندم کابحران آگیا۔دلیل یہ دی گئی کہ طلب ورسدکافقدان ہے جب فصل طلب سے زیادہ تھی تورسدکامسئلہ کیسے پیداہوا؟بحران گندم کاتھایابحران ذخیرہ اندوزوں کے خبثِ باطن کاتھا؟فقدان رسد کا تھایافقدان شرافت، ایمان اور دیانتداری کاتھا؟دنیامیں جہاں بھی سرمایہ دارانہ معاشرہ ہو،جہاں جمہوریت کے ذریعے معاملات طے پاتے ہوں وہاں معیشت لوگوں کی طلب اور ضرورت کے تحت نہیں چلتی بلکہ وہ مارکیٹ سے طلب ورسدکے تحت چلتی ہے بیچنے والے کوصرف اس سے دلچسپی ہوتی ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ پیسے ملیں خواہ خریدنے والااتنے پیسے دینے کے قابل ہے یا نہیں اورخریدنے والے کوصرف اس سے دلچسپی ہوتی ہے کہ وہ کم سے کم پیسے بلکہ لاگت سے کم پرمال خریدے۔یہ سول سوسائٹی کی خاصیت ہے کہ وہاں لوگوں کے تعلقات محبت الفت کی بنیادپرنہیں مفادکی بنیاد پرطے ہوتے ہیں یہ ایک خودغرض سوسائٹی ہے جس کے تعلقات کاتاناباناصرف مفاد،افادہ،ذاتی سرمایے میں اضافہ ہوتاہے۔پاکستان میں غذائی اشیاءکی کثرت کے باوجودقلت اس لئے ہے کہ پاکستان کے اردگردممالک میں غلہ یہاں کے مقابلے میں مہنگاہے لہٰذاپھریہاں سے غذائی اشیاء اسمگل ہو کربیرون ملک جائیں گی،یہاں کثرت کے باوجود قیمت بڑھے گی اسے کہتے ہیں طلب ورسدکاقانون۔اپنے وطن کے لوگوں کے گلے کاٹ دو،بیرون ملک مہنگے داموں غذائی اجناس بیچواوراسے طلب ورسدکے قانون کامنطقی نتیجہ کہہ کرعہدحاضر کے ذلیل فلسفۂ معیشت کواخلاقی حوالہ مہیاکرو،یہ عصرحاضرکی معیشت کاکل افسانہ ہے ۔

ہمارے روشن خیال دانشوراورمتجددین کہتے ہیں کہ ہم تاریخ کے سب سے عظیم عہدمیں جی رہے ہیں،جب تمام ظلم ختم ہوگئے ہیں ،انسان بہت روشن خیال اورمہذب ہوگیاہے،ان جاہل خودساختہ فقیہہ اوربرخودغلط علماءکویہ معلوم نہیں کہ عصرحاضردنیاکاسفاک ترین عصر،اس کا انسان دنیاکی تاریخ کاوحشی ترین درندہ اوراس کی اخلاقیات نفس پرستی شکم پرستی اورجاہ پرستی کے سواکچھ نہیں ہے۔ان ظاہرپرست دانشوروں کے پاس وہ عقل ہی نہیں کہ یہ اس منشورحقوق انسانی میں مستورسرمایہ داری کے دستورکو سمجھ سکیں،ان کی نظرسطحی چیزوں سے آگے بڑھ ہی نہیں سکتی کہ یہ دیکھ سکیں کہ سرمایہ دارانہ ذہنیت سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیاپرکس طرح مسلط ہواہے اوردنیاکوکس طرح تباہ کرچکاہے۔یہ انگوٹھاچھاپ ہردورمیں اس ظلم کی راہ ہموار کرتے ہیں اوراگرکوئی دلائل کے ساتھ اس مردم کش نظام کی بربادیوں کاتذکرہ کرتاہے اورعام انسانوں پرہونے والے مظالم کے خلاف کسی عملی جدجہد کآآغازکرتاہے تویہی انگوٹھاچھاپ اس کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں اوراپنے آقاؤں کے اشارے پرایسی عدل کی آوازکودبانے کیلئے اپنے تمام مکارانہ وسائل جھونک دینے میں لمحہ بھرکی تاخیر نہیں کرتے۔ اب ضرورت اس امرکی ہے کہ اس ظلم وفسق کے نظام کے خلاف خالقِ کائنات کے آخری پیغام قرآن کومکمل نافذکرکے انسانیت کواس عذاب سے محفوظ کیاجائے۔

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 315526 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.