مغرب کے مختلف ممالک میں وقتاً فوقتاً رحمت اللعالمین ﷺکی
شان میں گستاخی ٗ قرآن کریم کی بے حرمتی کی ناپاک حرکتیں منظر عام پر آتی
رہی ہیں اور یہ تسلسل جاری ہے۔جن کا بنیادی مقصد امت ِ مسلمہ کی دِ ل آزاری
اور جذبات کو مجروح کرنا ہوتا ہے۔ کسی انسان کی بے حرمتی ٗ توئین ٗ جذبات
کو مجروح کرنے کی کوئی بھی مہذب معاشرہ اجازت نہیں دیتا ٗ اور نہ ہی یہ
ضابطہ اخلاق ہے۔ اور پھر ایسی حرکت ٗ نازیبا الفاظ کا استعمال ٗ کبھی
کارٹون ٗ کبھی فلمیں ٗ کبھی بے حرمتی ٗ جس سے امتِ مسلمہ کی دِل آزاری کے
ساتھ ہی ایک ایسی ہستی کے حوالہ سے توئین کی ناکام جسارت کی جاتی ہے ٗ جن
کی خاطر یہ کائنات معرض وجود میں آئی۔ اگر اس زوایہ سے دیکھا جائے تو یہ
بات اظہر من الشمس ہے کہ جن کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے بلند کیا ہو ٗ ان کا
دُنیا کیسے مقام و مرتبہ کم کرنے کی جسارت کر سکتی ٗماسوائے اپنی ناکامی کے
اس میں کوئی بھی حقیقت نہیں ہے۔ لیکن یہ بالمعوم انسانیت اور بالخصوص امت ِ
مسلمہ کے ایمان کا سنگین معاملہ ہے۔ دُنیا میں جتنے بھی راہنما تشریف لائے
ٗ وہ انسانی معاشرت کی راہنمائی ٗ رشد وہدایت کے لیے آئے۔ ان تمام میں سے
نبی پاکﷺ وہ مقدس ترین ہستی ہیں جو تمام جہانوں کے لیے ہدایت ہی نہیں ٗ
بلکہ رحمت بھی ہیں۔ اِس مقدس ہستی کی عزت و توقیر نے ہی انسانیت کو عزت و
احترام ٗ امن ٗ بھائی چارہ ٗ آداب زندگی ٗ اور زندگی کا شعور بخشا۔ان کی
توئین گویا پوری انسانیت کی توئین ہے۔
یہ وہ عظیم ہستی ہیں جو وجہ تخلیقِ کائنات ہیں۔ آپﷺ کی عظمت در حقیقت اللہ
کریم کی عظمت ہے ٗ اور آپﷺ کی عظمت کا ادراک درحقیقت انسانیت کی عظمتوں کا
اساس ہے۔دُنیا بھر میں امن کے دُشمن ادیان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرکے
دُنیا میں فساد برپا کیے ہوئے ہیں۔ ساری دُنیا جانتی ہے کہ مسلمانوں نے
اسلام کو بزور شمشیر نہیں پھیلایا بلکہ نبی پاکﷺ کی عظمت کو دلوں میں راسخ
کیا اور ان کے طریقوں سے ہی دُنیا میں امن قائم ہوا۔
جدید دُنیا میں جہاں دُنیا کو ایک گلوبل ویلج میں تبدیل کر دیا گیا وہاں
اظہار رائے کی آزادی کے نام پر بھی بہت سے فتنے سر اُٹھا رہے ہیں۔ نبی پاکﷺ
کی ختم نبوت کے حوالے سے آپﷺ کی عزت و ناموس کے حوالے سے یورپی ممالک اور
امریکہ میں رسالت مآبﷺ کی شان اقدس میں گستاخانہ اندازاختیار کیا جا رہا
ہے۔یہ واقعات پہلے بھی تھے لیکن بہت ہی کم ٗ اگر یوں کہا جائے کہ سو شل
میڈیا اِس حوالے سے فساد کی جڑ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ
آزادی رائے اس قدر اخلاقی حدود پھلانگ جائے ٗ یہ سوشل میڈیا اس قدر مادر
پدر آزاد بن جائے کہ جو ہستی ٗ جو کتاب محبت ٗ ہدایت ٗ رحمت کا منبع ہو ٗ
ان کے خلاف یوں نازیبا الفاظ لکھیں اور پھر تشہیر کی جائے ٗیہ افسوس ناک ہی
نہیں ٗ بلکہ شرمناک بھی ہے۔ اور اسے اظہارِ رائے کی آزادی سے جوڑا دیا جانا
اس سے بھی بدتر ہے۔یہ بالعموم ضابطہ اخلاق ٗ انسانیت کی بے توقیری ٗ توئین
ہے۔ وہ جو انسانیت ٗ اعلیٰ اقدار کے علمبردار ہیں ٗ انہیں یہ کیوں نظر نہیں
آتا؟ کیا سوشل میڈیا کی اربوں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری، انسانیت کی
توئین سے بڑھ کر ہے؟ہر ذی شعور یہ بخوبی جانتا ہے کہ اللہ پاک نے یہ کائنات
اپنے محبوب نبی پاکﷺ کے لیے تخلیق کی اور آپﷺ کی بدولت ہیں سارئے جہانوں کے
اندر جان ہے اور نظام ِ کائنات ان ہی کی بدولت رواں دواں ہے۔ ہر مسلمان کے
اندر روح محمد ﷺ ہے۔
سوشل میڈیا نے دُنیا کو گلوبل ویلج بنایا جدید سائنسی ترقی نے زیست ِ
انسانی کو سہل کیا ٗ اس کے مثبت استعمال نے انسانی زندگی کو آسان تر کر دیا
ٗ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں لیکن یہ سب کچھ انسانیت سے بڑھ کر ہر گز
نہیں ہے ٗ آزادی ِرائے کی آڑ میں اَدب واحترام کا دامن کبھی بھی چھوڑا جانا
چاہیے۔ اور پھر ایسی مقدس ترین ہستی کے حوالہ سے نازیبا الفاظ ٗ خاکے کسی
صورت نہیں ہونے چاہیے۔ رحمت اللعالمین ﷺ کی عزت و تکریم ٗدرحقیت اللہ پاک
سے محبت اور تکریم ہے۔ نام نہاد آزادی ِاظہار کے علمبرداروں کو یہ بات سمجھ
جانی چاہیے کہ یہ ایک ہستی کی نہیں بلکہ پوری انسانیت اور بالخصوص امت ِمسلمہ
کی توئین اور دِل آزاری ہے۔ یہ عمل بنیادی انسانی حقو ق کے بھی متصادم
ہے۔یہ کم علمی ٗ جاہلیت ہے کہ آپ خود تو انسانی حقوق کے علمبردار کہلائیں
لیکن انسانیت کو اپنے ہی ہاتھوں پاؤں تلے روند ڈالیں ٗ اور اللہ کے محبوب ﷺ
کی ذات اقدس کے حوالے سے گستاخی مرتکب ہو تے رہیں۔ بقول حضرت اقبالﷺ ہر
مسلمان کی اند روح محمدﷺ ہے اور اِس روح محمدﷺ کا یہ کمال ہے کہ ہر مسلمان
اپنا آقا کریمﷺ سے اپنی جان مال اولاد سے بڑھ کر محبت کرتاہے۔آج بھی انسانی
حقوق کا حوالہ دے کر جو انسانیت کی توئین کی جاتی ہے وہ اقبالؒ کے اشعار سے
بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب ٗتُو سمجھتا
ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری ٗہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام ٗجس کے
پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری!
مسلمان اربوں کی تعداد میں کرہ ارض پر آباد ہیں ٗ دُنیا میں زندہ قوموں
اپنے بنیادی ایمان و عقائد کی حفاظت کرتی ہیں۔ نبی مہربان ﷺجب تک ہر مومن
کو اپنی جان ٗ اپنے ماں باپ ٗ اپنی اولاد اور دُنیا کے ہر انسان سے زیادہ
محبوب نہ ہو جائیں وہ اللہ کی نظروں میں حقیقی مومن نہیں کہلا سکتا۔ ہماری
تو پہچان ہی ہمارے آقا و مولا ﷺہیں۔ در دلِ مسلم مقامِ مصطفیؐ است ٗآبروئے
ما زنام مصطفیؐ است۔
ہالینڈ ہو یا کوئی بھی ملک ٗ قوم انہیں ایسی ناپاک جسارت نہیں کرنی چاہیے
جس سے نہ صرف انسانیت کی تذلیل ہو بلکہ دُنیا کا امن داؤ پر لگ جائے۔ایسے
توئین آمیز واقعات سے مسلمانوں کے جذبات بُری طرح مجروح ہورہے ہیں۔ ایسی
صورت میں لازم ہے کہ سوشل میڈیا ہو یا کوئی بھی اظہار رائے کا پلیٹ فورم اس
کا منفی استعمال روکا جائے۔ ضابطہ اخلاق کے ساتھ مثبت اور تعمیری ٗ فلاحی
استعمال کیا جاناچاہیے جس سے امن ٗ بھائی چارے کی فضا قائم ہو اور دُنیا
امن کا گہوارہ بن سکے ٗ کیونکہ اسلام وہ امن پسند دین ہے جو نام ہی امن،
بھائی چارے ٗ محبت ٗ الفت، خیر خواہی کا نام ہے۔ پوری دُنیا کا امن تباہ
کرنے کی ایسی کوشش کو روکنے کے ساتھ ہی ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی ہونی
چاہیے۔ ہر مذہب ٗ قوم کے عقائد ٗ مقدس مقامات ٗ مقدس ہستیوں کی عزت و تکریم
ہمیں اسلام نے بتائی ہیں۔ اسلام ہی دین ِ فطر ت ہے اسی میں بھلائی ہے۔اور
پھر یہ واقعات امت ِ مسلمہ کو جھنجوڑ رہے ہیں کہ متحد ہو جائیں۔
|