|
|
عام طور پر ہمارے معاشرے میں یہ تصور عام ہے کہ اگر ایک کمزور لڑکی کو
ایک بچے کے ساتھ شوہر گھر سے نکال دے کہ وہ غیر تعلیم یافتہ ہے تو ایسی
لڑکی کا مستقبل بہت برا ہوتا ہے- وہ اپنے اس بچے کو لے کر در در بھٹکنے
کے لیے مجبور ہو جاتی ہے اور لوگ ہمدردی کے نام پر اس کا استعمال کرتے
ہیں اور اس کا بچہ بے چارگی کی تصویر بن جاتا ہے- |
|
مگر عظمیٰ نامی اس لڑکی نے ایسا کچھ نہ کیا ڈیلی پاکستان کو انٹرویو دیتے
ہوئے عظمیٰ نے بتایا کہ اس کا تعلق قصور سے تھا اور 1999 میں وہ اپنے
والدین کے ساتھ لاہور آئی جہاں ان لوگوں نے ایک چھوٹا سا گھر کرائے پر لے
لیا اور عظمیٰ نے ایک گارمنٹ فیکٹری میں چھ روپے یومیہ کی بنیاد پر نوکری
کر لی-جس کے بعد اس کے والدین نے ایک اچھے پڑھے لکھے نوجوان سے اسکی شادی
کر دی- |
|
مگر اس چالاک نوجوان نے عظمیٰ کے والدین کی سادگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان
کے آبائی گھر کو ساڑھے چھ لاکھ میں فروخت کروا کر اس کے پیسے ہتھیا لیے اور
ایک تین منزلہ مکان پچاس ہزار ایڈوانس دے کر کرائے پر لے لیا- اسی دوران
عظمی کے گھر ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی ۔عظمیٰ نے اس دوران اسکول کی شکل تک
نہ دیکھی تھی جس کے طعنے اس کا شوہراس کو آئے دن دیتا رہتا تھا- |
|
|
|
ایک دن اس کے شوہر نے اس کو اور اس کے والدین کو گھر
سے نکال دیا یہاں تک کہ ان کے پاس کھانے کی روٹی اور سر چھپانے کی کوئی جگہ
تک نہ تھی- وہ اپنے سسرال والوں کے پاس بھی مدد مانگنے گئی مگر انہوں نے
بھی ٹھکرا دیا اس موقع پر اس کے شوہر نے عظمیٰ سے اس کے بچے کچھے زیورات
بھی لوگوں کو پیسے واپس کرنے کے بہانے چھین لیے اور عظمیٰ خالی ہاتھ رہ گئی- |
|
اسی دوران ایک حادثے میں اس کے شوہر کا انتقال ہو گیا اور وہ اپنے بچے کے
ساتھ اس دنیا میں تنہا رہ گئی- مگر عظمیٰ نے ان تمام مسائل سے ہار ماننے کے
بجائے ان سے لڑنے کا فیصلہ کر لیا اور اپنی پڑھائی شروع کرنے کی کوششیں
شروع کر دیں- اس نے میٹرک کے امتحانات پرائيویٹ دینے کا فیصلہ کر لیا- |
|
اس نے اس دوران سخت ترین محنت کر کے میٹرک، انٹر بی کام اور اس کے بعد یونی
ورسٹی آف مینجمٹ اور ٹیکنالوجی سے ایم بی اے کیا- یاد رہے عظمی کا شمار ان
افراد میں ہوتا تھا جس نے ایک دن بھی اسکول کی شکل نہیں دیکھی تھی مگر
زمانے کے تھپیڑوں نے اسے تیرنا سکھا دیا جس میں سب سے اہم کردار عظمیٰ کی
شدید ترین محنت کا تھا- |
|
|
|
بی کام کے دوران عظمیٰ کی زندگی میں ایک نرم دل شخص داخل ہوا جس نے عظمیٰ
اور اس کے بیٹے کو بہت عزت سے قبول کیا اور اس کو عزت سے اپنا لیا مگر جس
دن عظمیٰ نے ایم بی اے میں داخلہ لیا اس کے شوہر کو اٹیک ہوا اور وہ کوما
میں چلے گئے- 21 دن تک عظمیٰ یونی ورسٹی اور ہسپتال دونوں جگہوں پر بٹ کر
رہ گئی- |
|
اپنے تعلیمی اخراجات کی تکمیل کے لیے ایک دکان میں صرف 500 روپے سے پیناڈول
کی چند گولیاں لے کر رکھی تھیں- مگر وقت کے ساتھ سخت محنت سے انہوں نےاس
اسٹور کو اتنی ترقی دی کہ اب اس اسٹور میں تیس لاکھ روپے کا سامان موجود ہے
جس نے عظمیٰ کے اخراجات کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا- |
|
آج عظمیٰ ایک کامیاب خاتون کے طور پر کام کر رہی ہیں وہ ایک جانب ایک
کامیاب بزنس وومن ہیں اور دوسری جانب ایم بی اے کے بعد ایک اچھی نوکری بھی
ان کی راہ دیکھ رہی ہے- عظمیٰ درحقیقت ان تمام خواتین کے لیے ایک مثال ہے
جو کہ وقت سے ہار مان لیتی ہیں- |