اعتدال پسندی ہی مسائل کا حل ہے

اللہ کریم نے فتنے کو قتل سے بھی بڑا جرم قرار دیا ہے ، اب فتنہ اسلام کا نام لے کر پھیلایا جائے یا قومیت کا بدبودار نعرہ لگا کر ، فتنہ بہرحال ایک سنگین جرم ہے ، میری نظر میں فتنے کے ساتھ فرقہ واریت بھی ایک جرم ہے ، بلکہ آسان لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ فرقہ واریت اور فتنہ بہن بھائی ہیں ، دونوں کی وجہ سے ملک اور قوم کا شدید نقصان ہوتا ہے ، اللہ کریم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں ٹکڑے ، ٹکڑے نہ ہوں ، قرآن کریم کے اسی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے صحابہ کرامؓ اور اہل بیت رسول ﷺ نے ایثار و قربانی اور محبت کی اعلیٰ روایات کو قائم کیا ، نبی کریم ﷺ دنیا سے رخصت ہوئے تو خلیفہ بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیقؓ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ بنے ، فتنہ پھیلانے والوں نے کوشش کی کہ اس نازک موقع پر کوئی فتنہ پھیل جائے لیکن جماعت رسولﷺ اور اہل بیت رسولﷺ نے ان سازشیوں کی ناپاک اور مذموم سازشوں کو اپنے اتحاد اور اتفاق سے مکمل طور پر ناکام بنایا،حضرت صدیق اکبڑؓ دنیا سے رخصت ہوئے تو سیدنا فاروق اعظمؓ خیلفہ ثانی بنے ، خلیفہ کے لئے امیرالمومنین کا لقب بھی سیدنا فاروق اعظمؓ نے ہی اختیار کیا ، اُن کے دور خلافت میں بھی فتنے کی کوشش کرنے والے کوشش کرتے رہے لیکن الحمدللہ جماعت رسولﷺ اور اہل بیت رسول ﷺ چٹان کی طرح ان فتنہ پرور لوگوں کے خلاف متحد رہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کی فتوحات میں اضافہ ہوا ، حتیٰ کہ قبلہ اول یعنی بیت المقدس کو سیدنا فاروق اعظمؓ نے بغیر کسی جنگ و جدل کے اپنی حکمت و بصیرت اور رعب و دبدبے سے ہی حاصل کرلیا۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس وقت امتِ مسلمہ کی تباہی اور بے سروسامانی کی وجہ اگرچہ ہر شعبہ حیات میں عدمِ توازن اور بے اعتدالی ہے لیکن ہمارے ملک میں بدقسمتی سے مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت نے ہمیں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ہر جماعت، طبقہ اور قیادت اپنے علاوہ ہر ایک کو صفحہ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دینے پر تلی ہوئی ہے سوچ و فکر کی اس شدت اور انتہاپسندی نے ہمیں ان راہوں پر گامزن کر دیا ہے جو آگ اور خون کی وادیوں میں جا اترتی ہیں۔وہ مسلمان جو کبھی جسد واحد کی مانند تھے فرقہ واریت کی لہر نے انہیں گروہوں اور طبقات میں بانٹ کر رکھ دیا ہے۔ اسی امر کی طرف اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے یوں اشارہ کیا ہے:

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

اگر ہم اسلام کا سطحی طور پر بھی مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ اسلام زندگی کے ہر شعبے میں عدل و انصاف اور میانہ روی کا داعی ہے۔ شدت پسندی اور انتہا پسندی جہاں بھی اور جس بھی معاملے میں ہو گی اس کا انجام انتہائی خطرناک، مہلک اور عبرتناک ہو گا۔ اس لئے دینِ فطرت ہمیں انفرادی، قومی اور بین الاقوامی سطح کے جملہ معاملات میں توازن و اعتدال برقرار رکھنے کا سختی سے حکم دیتا ہے۔ وہ نظامِ سیاست و معیشت ہو یا جہاں فکرو نظر، میدانِ جہاد ہو یا تبلیغ و اقامتِ دین، حقوق العباد کی ادائیگی ہو یا حقوق اﷲ کی بجا آوری سماجی اقدار کا معاملہ ہو یا مذہبی اعتقادات کا الغرض جس جس گوشے کو جس جس زاویے سے بھی دیکھا جائے اس میں حسنِ توازن جھلکتا نظر آئے گا۔

اگر ہم فرقہ واریت کی لعنت پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآنی پیغام ’’واعتصموا بحبل اﷲ جمیعا ولا تفرقوا‘‘ کو اپنا حرزِ جاں بنانا ہو گا اور برداشت، اخوت اور رواداری کو اپناتے ہوئے جسد واحد کی طرح متحد ہونا ہو گا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم باہمی اختلافات کو فراموش کر کے اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف متحد ہو جائیں اور اسلام کے خلاف ہونے والے منفی پراپیگنڈے کا بھرپور اور منہ توڑ جواب دیں، ہمیں اس واضح حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کی بقا اور اس کا عروج فرقہ پرستی اور گروہی اختلافات میں نہیں بلکہ باہمی اتحاد و یکجہتی میں پنہاں ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر ہم طبیعت، مزاج اور زاویہ نگاہ میں اعتدال اور میانہ روی لائیں اور ایک دوسرے کی بات کو خندہ پیشانی اور تحمل سے سننے اور برداشت کرنے کی خو پیدا کر لیں تو تضاد اور مخاصمت کی فضا کی جگہ باہمی موافقت و یگانگت اور محبت و مروت ہماری زندگیوں میں آجائے گی نفرت کی وہ دیوار ہمارے درمیان سے ہٹ جائے گی جو ملی اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اگر مذہبی رواداری اور تحمل و بردباری ہمارا شیوہ بن جائے تو بہت سے مسلکی فروعی اختلافات ختم یا کافی حد تک کم ہو سکتے ہیں ان اقدامات سے امتِ مسلمہ کے اندر تباہ کن انتشار و افتراق کا یقینی خاتمہ ہو جائے گا اور امت مسلمہ کو فرقہ واریت کی لعنت میں مبتلا دیکھنے والی طاقتوں کے عزائم خاک میں مل جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں فرقہ پرستی سے کوسوں دور کر کے اعتدال پسندی کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Muhammad Nafees Danish
About the Author: Muhammad Nafees Danish Read More Articles by Muhammad Nafees Danish: 43 Articles with 32932 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.