یہ ان دنوں کی بات ہے جب کرونا ایک خوف اور وحشت کی علامت
تھی...ہر طرف خوف اور ہوس کا عالم تھا....سناٹا تھا اور مہیب سناٹا....لوگوں
نے اپنے پیاروں کی میتیں وصولنے اور تجہیز و تکفین سے راہ فرار اختیار کرلی
تھی....حرمین شریفین سے لے کر دنیا بھر کی مساجد تک بند ہو گء تھیں....بڑے
بڑے لوگ قرنطینہ میں چلے گئے تھے...ایسے میں پاکستانی علماء کرام نے اپنی
حکمت,بصیرت,تدبر اور کامیاب حکمت عملی کے ذریعے مساجد کھلی رکھیں...یوں تو
یہ سعادت اور اس کا اجر و ثواب ہر پاکستانی مسلمان کے حصے میں آیا لیکن اس
معاملے میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی,حضرت مولانا محمد
حنیف جالندھری,حضرت مولانا ڈاکٹر عادل خان اورحضرت مولانا مفتی منیب الرحمن
پیش پیش رہے اور قیادت کا حق ادا کیا... اس کار خیر کے لیے عملی اور
اجتماعی آواز سب سے پہلے اسلام آباد راولپنڈی سے بلند ہوء اور جڑواں شہروں
کے علماء کرام بالخصوص حضرت مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی صاحب اور حضرت
مولانا قاضی عبدالرشید صاحب نے ایسا کردار ادا کیا جو آب زر سے لکھنے کے
قابل ہے..اسی طرح کراچی اور سندھ کے علماء کرام اور ائمہ مساجد نے ایک نء
تاریخ رقم کی... یوں اﷲ رب العزت کے فضل و کرم سے مساجد آباد رہیں اور کریم
رب نے پاکستانی مسلمانوں کے حال پر کرم فرمایا اور کرونا سمیت دیگر بہت سی
تباہیوں اور وباوں کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھا....الحمد ﷲ
پاکستان میں لاک ڈاون تھا....کاروبار زندگی معطل تھا....تعلیمی ادارے بند
تھے....تاجر تنظیموں سے لے کر پرائیویٹ اسکولز اور اساتذہ کی تنظیمیں سراپا
احتجاج تھیں...امید اور امکان کی کوء کرن نظر نہیں آرہی تھی... ایسے میں
دینی مدارس کی بندش ایک بہت بڑا مسئلہ تھا بظاہر مدارس کے کھلنے کی کوء
صورت دکھاء نہ دے رہی تھی... ایسے ہی بحرانوں میں قیادت کا امتحان ہوتا ہے....صرف
مدارس کھلنے کا معاملہ ہی نہیں مدارس میں امتحانات کا انعقاد زیر غور تھا
اس موقع پراکثر لوگوں کی رائے تھی کہ مدارس میں امتحانات لیے بغیر ہی ترقی
دے دی جائے بعض لوگوں بلکہ اداروں نے امتحانات نہ کروانے کے لیے خطوط لکھ
رکھے تھے...میرے جیسے کم علم اور کم عمر طلبہ تو باقاعدہ امتحانات رکوانے
کے لیے مہم چلا رہے تھے حتی کہ ہر دینی کاز ہر ہمت اور جرات و استقامت سے
ڈٹنے والے مولانا ڈاکٹر عادل خان صاحب بھی امتحانات نہ کروانے کی رائے کا
اظہار کر رہے تھے لیکن مولانا محمد حنیف جالندھری کا اصرار تھا کہ امتحانات
ہونے چاہیں اور مولانا قاضی عبدالرشید,مولانا حسین احمد اور دیگر قائدین
وفاق ان کے ساتھ کھڑے تھے- ان کی دلیل یہ تھی کہ بحران کے اس وقت میں محض
پرچے ہی نہیں ہوں گے بلکہ دینی مدارس کی اجتماعیت,حسن انتظام کا بھی امتحان
ہوگا اور شو آف پاور کی بھی ایک صورت ہوگی اور بالآخر امتحانات کا فیصلہ
کیا گیا سب لوگ دانتوں میں انگلیاں دابے حیرت سے اس منظر کو دیکھ رہے تھے....وفاق
المدارس کے امتحانات ہوئے اور خوب ہوئے....وفاق المدارس کی قیادت....وفاق
المدارس کے ذمہ داران....وفاق المدارس کے کارکنان اور وفاق المدارس کا نظام
بروئے کار آیا اور خوب آیا... امتحانات ہوئے اور ایسے ہوئے کہ ہمیشہ کے لیے
اور سب کے لیے مثال قائم ہوگء اور پھر رفتہ
مدارس کھل گئے...مدارس کی رونقیں بحال ہوگئیں اور اﷲ رب العزت نے مدارس سے
بلند ہوتی قال اﷲ وقال الرسول کی صداوں اور معصوم بچوں کی دعاوں کی برکت سے
پاک وطن اور اس کے عوام پر کرم فرما دیااور ہم کرونا کی تباہ کاریوں سے بچ
گئے....الحمد ﷲ علی ذالک
پھر صرف یہی نہیں بلکہ دینی مدارس میں درس و تدریس کا آغاز سب سے پہلے
ہوا-5 اگست سے مدارس کھولے گئے,درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوا جبکہ اسکالز
15.ستمبر سے بھی مشکل سے کھلے-مجھے اسکولز کی نمائندہ تنظیموں کے کء
اجلاسوں میں جانے کا موقع ملا,بعض ایسے ایسے اجتماعات میں بھی شریک ہوا جس
میں ملک بھر کے تمام پرائیویٹ اور سرکاری اسکولز کی نمائندہ تنظیموں
کیقائدین کی بہت بڑی تعداد موجود تھی- اسکولز کی قیادت کی حالت,افتراق,بے
بسی اور کیفیت دیکھ کر اندازہ ہوا اور بارہا سجدہ شکر بجا لایا کہ اﷲ رب
العزت نے ہمیں وفاق المدارس اور اتحاد تنظیمات مدارس کی شکل میں کتنی بڑی
نعمت عطا فرماء ہے-الحمدﷲ ثم الحمدﷲ
اب ایک بار پھر کرونا کی دوسری لہرنے سر اٹھایا ہے....دوبارہ سے لاک ڈاون...پھر
سے وہی ماحول...پھر سے تعلیمی اداروں کی بندش اور پھر سے خطرات کے سائے
منڈلانے لگے ہیں ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم گزشتہ تجربے سے کچھ
سیکھتے, سب لوگوں کی فکر ایک ہوتی....سب کی آواز ایک ہوتی....ہر طرف سے
وفاق المدارس کی قیادت کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جاتا...بچے بڑے مدارس
کھلے رکھنے اور مدارس کی بہاریں برقرار رکھنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا
کرتے لیکن بہت افسوس کی بات یہ ہے کہ دینی مدارس کے بعض وابستگان,سوشل
میڈیا کے نوخیز دانشوران اور تعلیم بیزار عناصر نے عجیب ماحول بنانے کی
کوشش کی اور بہت سے سادہ لوح لوگ بھی دانستہ اور نادانستہ ان کی سازشوں
شکار ہوکر دشمن کا کام آسان کرنے لگے....ارے بندگان خدا!سوشل میڈیا کی تیلی
جس جس کے ہاتھ میں ہے خدا را اس سے آگ تو نہ لگایا کیجیے....صرف اپنی
آزادمزاجی کی تسکین کے لیے مدارس کے پورے نظام اور ملک بھرکے دینی سلسلوں
کو اجاڑ ڈالنے پر تو نہ تل جایا کیجیے....ہماری خوش قسمتی ہے دینی مدارس کی
قیادت مولانا محمد حنیف جالندھری اور مولانا مفتی منیب الرحمن جیسے اہل
بصیرت کے ہاتھوں میں ہے...مولانامفتی محمد تقی عثمانی,مولانا فضل الرحمن
اور دیگر قومی رہنماوں کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے...وفاق
المدارس کے قائدین ہم سب سے اچھی تقریریں کر سکتے ہیں,ہم سے زیادہ میڈیا پر
آکر کلمہ حق بلند کر سکتے ہیں,ہم سے زیادہ بڑے مجمعوں سے خطاب کر سکتے
ہیں,کروڑوں لوگوں کی نظریں ان پر لگی ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ وقتی
واہ واہ کو سامنے رکھتے ہیں نہ طعنوں اور تبصروں کو خاطر میں لاتے ہیں....انہوں
نے حکومتی اور سرکاری معاملات کو بھی پیش نظر رکھنا ہوتا ہے,مدارس کو
مشکلات سے بھی بچانا ہوتا ہے اور حکومت اور ریاستی اداروں کے ساتھ ہر قسم
کی محاذ آراء سے بھی بچنا ہوتا ہے,ملکی حالات بھی بڑے مشکل ہیں,عالمی مسائل
اور دباو کا وطن عزیز کو سامنا ہے,دیگر بہت سے پہلو ہیں....ہر کسی کے سامنے
ہر پہلو نہیں ہوتا...نہ ہوسکتا ہے....اگر اور کچھ نظر نہ آئے سمجھ نہ آئے
تو صرف اتنا کیا کریں اپنے قریب کی کسی مسجد ومدرسہ میں جاکر اﷲ کا پاک
کلام پڑھنے والے بچوں کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کر لیا کریں....اپنے کابر پر
تبصرے اور پوسٹیں کرنے سے قبل اتنا سوچ لیا کریں کہ وہ ہمارے مدارس کے
پہریدار ہیں,برسوں اور عشروں سے پہرہ دے رہے ہیں اس عرصے میں ہمارے مدارس
محفوظ ہیں,ہمارا نظام محفوظ ہے,ایک بال برابر ترمیم و تحریف نہیں ہوء,مدارس
کی قوت,تعداد اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے کمی نہیں ہوء,مدارس کی آزادی
وخودمختاری پر کوء قدغن نہیں لگاء جا سکی,ہمارے قائدین اپنے حصے کا کام کر
رہے ہیں اور خوب کر رہے ہیں لیکن ہمیں بھی تو چند کام کرنے کی ضرورت ہے
1-اپنے بڑوں پر اعتماد رکھیے اگر نائن الیون کے بعد سے لے کر گزشتہ بیس
برسوں میں کوء مدارس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا حالانکہ بہت دباو تھا,بہت مشکل
حالات تھے,بہت جتن کیے گئے,بہت کوششیں ہوئیں لیکن کوء مدارس کا کچھ نہیں
بگاڑ سکا تو ان شاء اﷲ آئندہ بھی کوء مدارس کا کچھ نہیں بگاڑ پائے گا
2-اپنی اجتماعیت اور اپنی صفوں پر نظر رکھیے کہ ہمارا سب کچھ اﷲ رب العزت
کی نصرت کے بعد اسباب کے درجے میں اجتماعیت اور وحدت صفوف ہی ہے-اگر کسی کو
چھتری اور چھت کا کوء مقصد نظر نہ آئے اور اسے احساس نہ ہو کہ چھت کیسی کڑی
دھوپ,کتنی آندھیوں اورطوفانوں سے تحفظ کا ذریعہ ہوتی ہے تو وہ کم از کم ان
لوگوں کو ضرور دیکھ لیا کرے جن کے پاس چھت نہیں ہوتی یاد رکھیے! وفاق
المدارس ہمارا سائبان اور چھت ہے اﷲ رب العزت اسے سلامت رکھیں..آمین
3-علاقاء سطح پر اجتماعیت اور باہمی رابطوں کا اہتمام کیجیے-اس سلسلے میں
اسلام آباد راولپنڈی کی مثال سامنے رکھیے الحمدﷲ ہمارے جڑواں شہروں میں
علماء کرام, اکابر کی برکت سے باہم متحد ہیں,منظم ہیں,انتظامیہ سے رابطے
میں رہتے ہیں,قائدین سے مسلسل رہنماء لیتے ہیں تو ان دونوں شہروں کا منظر
نامہ ہی مختلف ہے-
4-اجتماعی معاملات میں تھوڑی ہمت,جرات,استقامت کی ضرورت ہوتی ہے بہت معمولی
سی....کوء سرکاری اہلکار آ جائے توگھبرا اور گڑبڑا جانے کے بجائے اس سے
پورے اعتماد کے ساتھ بات کیجیے,ڈھنگ سے ڈیل کیجیے...کرونا کی پہلی لہر کے
دوران جب ہر طرف خوف کا عالم تھا ایسے میں میرے برادر صغیر مولانا عبدالروف
محمدی سیکرٹری اطلاعات پاکستان شریعت کونسل کو جمعہ پڑھانے کی پاداش میں
گرفتار کیا گیا اس پر بھرپور ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا,الحمد ﷲ ان کی
گرفتاری اور گرفتاری پر دئیے جانے والے ردعمل سے خوف کی فضا ختم ہوء,جبر کا
ماحول ٹوٹا,نوجوانوں میں حوصلہ پیدا ہوا اور مولانا عبدالروف گرفتاری کی
وجہ سیہیرو بن کر لوٹے,سوشل میڈیا میں اور علاقاء طور پر خاص طور ہر مذہبی
معاملات میں فائدہ ہوا-ارے بھاء! لوگ اگر سیاست اور زمینوں کی خاطر اسٹینڈ
لے سکتے ہیں اور گرفتاریاں اور مسائل برداشت کر سکتے ہیں تو دین کے لیے تو
یہ سب بڑی سعادت کی بات ہے-سر اٹھا کر جینے کا ہنر سیکھیے ورنہ کوء نہیں
جینے دے گا-
6-آخری بات یہ کہ میڈیا اور سوشل میڈیا دو دھاری تلوار ہے خدارا اس کو
سمجھیے-کسی کو چھٹی کا شوق ہے تو وہ خود کرے ناں چھٹی لیکن تمام مدارس کو
اجاڑنے کے لیے سوشل میڈیا پر افواہ سازی کا بازار تو گرم نہ کرے,کسی کے
مزاج میں سستی یا مفاد پرستی ہے تو وہ دوسروں کو تو ''وھن''کے مرض میں تو
مبتلا نہ کرے-
یاد رکھیے!بہت سے معاملات میں خاموشی وقت کا تقاضہ ہوتا ہے,بہت سی چیزوں
میں ابہام لازم ہوتا ہے,سینہ بہ سینہ بات آگے پہنچائیے...وفاق المدارس کے
ضلعی مسوولین اور علاقاء ذمہ داروں سے رابطے میں رہیے,علاقاء مسوولین صوباء
ذمہ داران سے اور وہ مجالس عاملہ اور مرکزی قائدین سے رابطہ کریں... اگر
ہمارے بڑے ہر کس و ناکس کا فون سنتے ہیں تو یہ ان کی عظمت ہے لیکن خود تو
احساس کیجیے کہ میرے فون کے علاوہ بھی ان کے بہت کام ہوں گے اور وہی بات جو
مجھے ضلعی مسوول اور مقامی ذمہ دار سے معلوم ہو سکتی ہے اس کے لیے میں
مرکزی ذمہ داران کو کیوں زحمت دوں-
سب کو ان باتوں کو سمجھنا ہوگا,دوسروں کو سمجھانا ہوگا,شعور اجاگر کرنا
ہوگا,اجتماعی معاملات اور دینی مفادات کے معاملے میں ذمہ داری کا مظاہرہ
کرنا ہوگا...احتیاط سے کام لینا ہوگا....اجتماعیت کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور
سب سے بڑھ کر رجوع الی اﷲ اور دینی حمیت اور حکمت و بصیرت سے کام لینا ہوگا
اﷲ ہمارا حامی وناصر ہو
آمین
|