#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ یُونس ، اٰٰیت 71 تا 74
قُرآن اور تاریخِ اسلام و تاریخِ مُسلم !! ازقلم....... اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
واتل
علیھم نبا نوح
اذ قال لقومہ یٰقوم
ان کبر علیکم مقامی
و تذکیری باٰیٰت اللہ فعلی
اللہ توکلت فاجمعوا امر کم
وشرکاء کم ثم لا یکن امرکم علیکم
غمة ثم اقضوا الیّ ولا تنظرون 71 فان
تولیتم فما سالتکم من اجر ان اجری الا علی
اللہ وامرت ان اکون من المسلمین 72 فکذبوہ
فنجینٰہ و من معہ فی الفلک و جعلنٰھم خلٰئف واغر
قنا الذین کذبوا باٰیٰتنا فانظر کیف کان عاقبة المنذرین 73
ثم بعثنا من بعدہ رسلا الٰی قومھم فجاءوھم بالبینٰت فماکانوا
لیؤمنوا بماکذبوا بہ من قبل کذٰلک نطبع علٰی قلوب المعتدین 74
اے ھمارے رسول ! آپ اِن لوگوں کو قُرآن سے نُوح و عھدِ نُوح کی وہ خبر پڑھ
کر سُنادیں کہ نُوح نے جب اپنی قوم سے کہا تھا کہ اگر تُم لوگوں کو میرا
یہاں پر رہنا اور اللہ کے اَحکام بیان کرنا پسند نہیں ھے تو مُجھے بھی اِس
کی کوئ پروا نہیں ھے کیونکہ مُجھے اپنی ذات کی حفاظت کے بارے میں اللہ کی
ذات پر مُکمل ایمان اور مُکمل اعتماد ھے ، اگر تُم میرے خلاف کوئ معاندانہ
قدم اُٹھانا چاہو تو ضرور اُٹھاؤ بلکہ چاہو تو اپنے ساری حالی موالی بھی
جمع کر لو اور پھر تُم مُجھے اپنی پُوری طاقت کے ساتھ اپنے انتقام کا نشانہ
بناؤ اور اپنے انتقام کے دوران مُجھے دفاع کی مُہلت بھی نہ دو لیکن اِس کے
باوجُود بھی تُم مُجھے نقصان پُہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکو گے کیونکہ
مُجھے اللہ کی وہ مدد حاصل ھے جو ہر مُشکل میں ہر مُصلح کو حاصل ہوتی ھے
لیکن میں چاہتا ہوں کہ تُم اِس بات پر ضرور غور کرو کہ تُم میری جن باتوں
سے رُو گردانی کرتے ہو وہ تُمہارے بَھلے کی باتیں ہیں اور میں تُمہارے
بَھلے کی اِن باتوں کا تُم سے کوئ معاوضہ بھی نہیں چاہتا کیونکہ میراِ
معاوضہ اللہ کے پاس ھے اور اللہ نے مُجھے حُکم دیا ھے کہ میں ہر صُورتِ حال
میں اللہ کے مُسلم بندوں میں شامل رہوں لیکن جب نُوح کی قوم نے نُوح کی کہی
ہوئ ہر موقعے کی ہر بات کو جُھٹلا دیا تو ھم نے نُوح کے ساتھ نُوح کی کشتی
میں آنے والے چند اَفراد کے سوا نُوح کو جُھٹلانے والے سارے لوگوں کو غرق
کردیا ، اِس واقعے کے بعد بھی ھم نے اُس بگڑی ہوئ قوم کی اصلاح کے لیۓ اپنے
رسول بہیجے لیکن اُس قوم نے ھمارے ہر پیغامِ وحی اور ھمارے ہر رسولِ وحی کی
تکذیب کی جس کے بعد ھم نے پہلی تباہ ہونے والی مُنکر قوموں کی طرح اِن
مُنکر قوموں کو بھی تباہ و برباد کردیا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
نُوح علیہ السلام کی نبوت اور تعلیمِ نبوت کا زمانہ 2882 قبل مسیح کا زمانہ
ھے ، قُرآنِ کریم کے مُختلف اشارات ، تاریخِ عالَم کے کُچھ قدیم کتبات اور
بائبل کے بیانات کے مطابق نُوح علیہ السلا کی بعثت کا محلِ وقوع عراق کا
شہر بابل تھا ، قُرآن سے پہلے بائبل اور بائبل کے بعد قُرآن نے عھدِ نُوح
کی جو کہانی بیان کی ھے وہی کہانی قدیم مصر و چین ، جدید امریکا و اسٹریلیا
، نیو گنی و جزائر شرق الہند کے علاوہ ہندوستان اور برما و ملایا کی اَقوام
میں بھی اسی طرح ھے مشہور رہی ھے اور اِس کی وجہ طوفانِ نُوح کی وہ وسعت ھے
جس نے دُنیا کے ایک بڑے وسیع رقبے کو متاثر کیا تھا اور دُنیا کے ایک بڑے
وسیع رقبے پر ایک بڑے زمانے تک اِس تباہ کُن کہانی کی بازگشت سنی جاتی رہی
تھی ، قُرآنِ کریم کی کتابی ترتیب میں نُوح علیہ السلام کا ذکر سب سے پہلے
سُورہِ اٰلِ عمران کی اٰیت 33 میں وہاں پر ہوا ھے جہاں پر اللہ تعالٰی نے
آدم کا اور اٰلِ ابراھیم و اٰلِ عمران کا ذکر کیا ھے ، دُوسری بار آپ کا
ذکر سُورةُالنساء کی اٰیت 163 میں وہاں ہوا ھے جہاں اللہ تعالٰی نے اپنے
دیگر 10 انبیاۓ کرام پر نازل ہونے والی وحی کے ضمن میں آپ پر نازل ہونے
والی وحی کا بھی ذکر کیا ھے ، تیسری بار سُورةُالاَنعام کی 84 میں اللہ
تعالٰی کے 18 انبیاۓ برحق کے ساتھ 18 ویں نبیِ برحق کے طور پر آپ کا ذکر
ہوا ھے ، قُرآنِ کریم میں ذکرِ نُوح کا چوتھا مقام سُورةُالاَعراف کی اٰیت
60 ھے جس میں قُرآن نے نُوح علیہ السلام کی اُس دعوت کی تفصیل بیان کی ھے
جو دعوت آپ نے اپنی قوم کے سامنے پیش کی تھی اور آپ کی قوم نے جو دعوت رَد
کر دی تھی اور قُرآنِ کریم کی کتابی ترتیب میں ذکرِ نُوح کا پانچواں مقام
اٰیاتِ بالا کا یہ مقام ھے جہاں پر قُرآنِ کریم نے تین اٰیت میں عھدِ نُوح
، دعوتِ نُوح ، نتائجِ دعوتِ نُوح اور طوفانِ نُوح کے 950 سال کے سارے
زمانے کو ایک ہی مقام پر جمع دیا ھے ، نُوح علیہ السلام کی حیات اور آپ کی
دعوتِ حیات کے یہ واقعات جو ھم سُورةُ الاَعراف کی اٰیت 60 میں ھم بیان کر
چکے ہیں اُن کو اُس مقام پر دیکھ لیا جاۓ ، جہاں تک موجُودہ اٰیات کا تعلق
ھے تو اِس مقام پر ھم قُرآن کے اُس بیانیۓ کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں جو
اِس سلسلہ کلام کی اٰیت 72 کے آخری حصے میں بیان ہوا ھے اور جس میں نُوح
علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا ھے کہ مُجھے اللہ نے اِس بات کا حُکم دیا
ھے کہ میں ہر حال میں اللہ کے مُسلم بندوں میں شامل رہوں اور قُرآنِ کریم
کی بیان کردہ تاریخ کے مطابق آپ سے پہلے گزرنے والے یہ مُسلم بندے آدم و
ادریس ہیں جو آپ سے پہلے مبعوث ہوۓ ہیں اور آپ نے اُن کا اللہ کے مُسلم
بندوں کے طور پر تعارف کرایا ھے اور جس کا مطلب یہ ھے کہ آدم نام کے جس
انسان سے قانونِ دین کا آغاز ہوا تھا وہ ایک مُسلم انسان تھا اور آدم نام
کے جس مُسلم انسان سے جس دین کا آغاز ہوا تھا اُس دین کا نام بھی اسلام تھا
اور قُرآنِ کریم کی سُورةُالاَنعام کی اٰیت 163 کے مطابق نُوح علیہ السلام
کے بعد ابراھیم علیہ السلام نے بھی اِنہی اَلفاظ میں اسی اعلان کا اعادہ و
تکرار کر کے اسلام اور مُسلم کی اِسی تاریخ کو اپنے زمانے سے آدم کے زمانے
تک مربوط کیا تھا اور پھر سُورةُالبقرة کی اٰیت 128 کے مطابق آپ نے اپنی
ایک دُعا کے ذریعے اللہ سے اسی اسلام اور اسی مُسلم کو قیامت تک زندہ رکھنے
کی درخواست کی تھی اور اسلام کا یہی وہ مُسلم ھے جس کا سُورتِ یُونس کی اِس
اٰیت کے علاوہ سُورةُالبقرة کی اٰیت 128 ، 133 ، 136 ، سُورہِ اٰلِ عمران
کی اٰیت 52 ، 64 ، 80 ، 84 ، 102 ، سُورةُالمائدة کی اٰیت 111 ،
سُورةُالاَنعام کی اٰیت 163 ، سُورة الھُود کی اٰیت 14 ، سُورةُ الحجر کی
اٰیت 2 ، سُورةُ الاَنبیاء کی اٰیت 108 ، سُورةُالنمل کی اٰیت 91 ، سُورَہِ
فصلت کی اٰیت 33 ، سُورةُالزُخرف کی اٰیت 69 ، سُورةُ الاَحقاف کی اٰیت 15
اور سُورةُالذٰریات کی اٰیت 36 میں ذکر ہوا ھے اور یہی اسلام اور مُسلم کی
وہ قابلِ فخر تاریخ ھے جس کو قُرآن نے بیان کیا ھے !!
|