اردو ہے جس کا نام

سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
بڑے بزرگوں سے، حکایتوں سے، کتابوں سے، روایتوں سے، پرانی تحریروں سے ہم نے کسی نہ کسی کو یہ کہتے ضرور سنا ہو گا کہ برصغیر پاک وہند کے بٹوارے کی سب سے اہم وجہ اردو و ہندی زبان کا تنازعہ بھی تھا. بہت سی قربانیوں کے بعد اردو کو قومی زبان کا رتبہ ملا اور پاکستان وجود میں آیا. بہت لگاؤ، بہت پیار بہت رتبہ تھا ہمارے بزرگوں کے دل میں اس زبان کا. قومی زبان کسی بھی ملک کی تہزیبی، ثقافتی ،معاشرتی اقدار کی عکاسی کرتی ہے اور آپس میں ابلاغ کا بہترین ذریعہ ہوتی ہے. اسی طرح ہماری قومی زبان اردو ہے قومی زبان انسان کی شناخت ہوتی ہے سننے والا فوراً پہچان لیتا ہے کہ آپ کس ملک سے تعلق رکھتے ہیں. مگر بدقسمتی سے کافی عرصے سے ہماری زبان زوال پزیری کا شکار ہے. جس کی وجہ سے ہم نے انگریزی کو اردو پر ترجیح دینا شروع کر دی ہے. انگریزی کے مقابلے میں ہر آنے والی حکومت نے اردو کے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک کیا ہے. ہر اچھی ملازمت گورنمنٹ کی ہو یا پرائیوٹ امتحانات اور انٹرویو انگریزی میں کیے جاتے ہیں انگریزی بھی ایسی جو ٹیٹھ ہو یعنی کے اردو کی مداخلت کسی طور برداشت نہیں، سرکاری سطح کے مراسلات، خط و کتابت بھی اسی زبان میں کی جاتی ہے. اردو وہ زبان ہے جس کی ترقی کے لئے سر سید احمد خان نے محنت کی، انشاء کی نظموں کی مٹھاس ہے، غالب اور فیض کی غزلوں کا ترنم ہے، اقبال کی زندگی کا اہم حصہ ہے لیکن اب اس کی افادیت کو، شفافت کو بھلایا جا رہا ہے بھلایا جا رہا ہے بلکہ مٹی میں ملا دیا ہے. آج کی نوجوان نسل اردو بولنے یا نہ آنے پر فخر محسوس کرتی ہے اور انگریزی زبان آنے پر خود کو تعلیم یافتہ اور کامیاب انسان ہونے کا تصور کرتی ہے. ہماری جہالت کی انتہا یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ہم نے ایک زبان کا مقابلہ تعلیم جیسے زیور سے کر لیا ہے کہ جس کو انگریزی پر عبور حاصل ہے وہ ذہنی طور پر بھی بہت لاجواب ہےاور معاشرے میں اس کا بہت رتبہ ہے. ایسا کیسے ممکن ہے ہم لوگوں کے لیے جاہل کا بھری بھرقم لفظ بھی چھوٹا لگتا ہے. ہم نے اس زبان کو اتنا سر چڑھا رکھا ہے کہ انگریزی کو ابلاغ کا بھی بہترین ذریعہ قرار دیا ہے. یہاں میں بتانا چاہتی ہوں کہ زبان صرف زبان ہے جبکہ ابلاغ آرٹ ہے زبان کوئی بھی اردو انگریزی فارسی سیکھی جا سکتی ہے جبکہ ابلاغ اندرونی صلاحیت ہے ہم اسے کسی زبان پر عبور ہونے سے حاصل نہیں کر سکتے. کہتے ہیں کسی قوم کو برباد کرنا ہو تو اس قوم سے سب سے پہلے اس کی قومی زبان کو قتل کرو. کوئی ہمیں برباد کیوںکر کرنا چاہے گا یہ ذمہ داری تو ہم نے اپنے سر پہلے سے لی ہؤی ہے کسی کو کیا ذمہ دار ٹھرانا جب اپنا سکہ کھوٹھا ہو تو. میں نے اور یقیناً آپ نے بھی ہمارے اہل وعیال میں بہت سے لوگوں کو کہتے سنا ہو گا کہ ہمارا بچہ یا بچی بہت لایق ہے فر فر انگریزی بولتا ہے ایسے لوگوں سے ہمیشہ میرا ایک سوال رہا ہے کہ زبان تو سن لی لائقی نظر نہیں آئی. بھلا ایک زبان کیسے مترادف ہو سکتی ہے ذہانت کے ذہانت تو خداداد صلاحیت ہے اور پنجابی بولنے والے انسان میں بھی پائی جاتی ہے. ہم اپنی زبان کو اس قدر فراموش کر چکے ہیں کہ نہ ہمیں لکھنی آتی ہے اور نہ ہی تلفظ پر کبھی غور کیا. انگریزی کا تلفظ بگڑنے پر تو ہم شرمندگی جب کہ اردو کا تلفظ بگڑنے پر فخر محسوس کرتے ہیں. یہ کیسا فخر ہے جو اپنی ہی شناخت روند کر مل رہا ہے. تاریخ گواہ ہے بیشتر قوموں نے کامیابی اپنی زبان کو ہی عزت دے کے حاصل کی ہے. ہم انگریزوں سے آزاد تو ہو گئے لیکن آج تک اس زبان کی گرفت میں جکڑے ہوئے ہیں.انگریزی کی بیڑیاں ہمارے پاؤں میں بندھی ہیں. کیا فائدہ ہوا پاکستان کا اس نظریے کا، اس آزادی کا جب ایک دن یہی ہونا تھا. دماغ تو سمجھوتا کر لیتا ہے پر دل کسی طور ایسی آزادی سے مطمئین نہیں. میرا نظریہ انگریزی زبان کے خلاف نہیں ہے لیکن اپنی زبان کو زیر کر کے ایسی زبان رکھنے کا کیا فائدہ. میری التجا ہے گورنمنٹ آف پاکستان سے کہ اسکولوں میں دسویں تک اردو کا معیار بلند فرمائیں زیادہ سے زیادہ نصاب اردو میں مقرر کریں. یہاں اساتزہ کا کردار سب سے افضل ہونا چاہیے انہیں طالب علموں سے اردو میں مخاطب ہونا چاہیے اردو کو زندگی کا حصہ بنایا جائے لیکن آج کل کے تو اساتذہ بھی انگریزی کو اردو پر ایسے فوقیت دیتے ہیں جیسے انگریزوں سے رقم لے رکھی ہو ان کی زبان بولنے کی. . معاشرے میں یہ چیز عام بنائیں کہ آپ کا تعلیم یافتہ ہونا کسی زبان سے منسلک نہیں ہو سکتا. بہت دیدہ دلیری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اپنی شناخت مٹانے کے لیے جس میں میری قوم کے لوگ ماہر ہیں. خدارا اس بات پر توجہ دی جائے اور اپنی شناخت کو زیر کرنے کے بجائے مضبوط بنایا جائے. انسان اور قوم اس وقت ہی کامیابی کی منازل طے کرتے ہیں جب وہ دنیا کے سامنے اپنی پہچان رکھتے ہیں اور کسی اور کی پہچان اپنانے سے انکار کرتے ہیں یہ ہی ایک سچے انسان کی اور بہادر وبہترین قوم کی نشانی ہے. اپنا عکس بناؤ اور دنیا کو دکھاؤ بھیگ میں مانگا ہوا عکس نہیں ہوتا وہ صرف بھیگ ہوتی ہے اپنی پہچان اپنانا بھکاری بننے سے قدر بہتر ہے.
 

Mahnoor Rizwan
About the Author: Mahnoor Rizwan Read More Articles by Mahnoor Rizwan: 3 Articles with 2237 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.