قصور میں غربت جیت گئی،

دین سے دوری ہے اور کی بیماری بڑھتی جا رہی ہے

معصوم زندگیاں ہار گئیں، ماں کی گود ,باپ کی شفقت کے ساۓ انکے محافظ نے لوٹ لیے, غربت سے تنگ بیروزگار باپ ہار گیا ,اللہ کی رحمت سے مایوس ہو گیا, دنیا کی ذلت, اولاد کے قتل کا غم اور آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی رسوائی اشرف انسان نے اپنا مقدر بنا لی, باپ نے اپنے پانچ بچوں کو نہر میں پھینک دیا، ریسکیو نے 3 کمسن لڑکیوں اور دو لڑکوں کی لاشیں نکال لیں، پولیس نے باپ کو حراست میں لے لیا۔

باپ ایک عظیم نعمت ہے۔باپ کا مقام بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاباپ جنت کے دروازوں میں بیچ کا دروازہ ہے اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کر یا اس کو ضائع کردے ایک موقعہ پرایک صحابی رسول آکر آپ کی خدمت میں شکایت کرنے لگے کہ میرے والد میرے مال سے خرچ کرنا چاہتے ہیں ایسے موقع پر میں کیا کروں آپ نے جواب دیاتو اورتیرا مال تیرے والد ہی کے لیے ہے ،یہاں پربڑی غور ظلب بات ہے کہ باپ اک چھت کی مانند ہوتا ہے جس طرح اک چھت گھر کے مکین کوموسم کے سرد گرم موحول سے محفوظ رکھتی ہے۔ والد ایک ذمہ دار انسان ہے جو اپنی خون پسینے کی محنت سے گھر چلاتا ہے و الد ایک مقدس محافظ ہے جو ساری زندگی خاندان کی نگرانی کرتا ہے۔والد کے آنسو تمہارے دکھ سے نہ گریں ورنہ اللہ تم کو جنت سے گرادے گا۔اوردوران حیات باپ کا ادب واحترام کرنا ان سے محبت کرنا اولاد پر لازم ہے۔اللہ تعالیٰ میرے والد کا اور دنیا کے تمام والدین کا سایہ سروں پر سلامت رکھے۔

ماں, باپ کا ہونا دنیا ؤ آخرت میں جنت کے حصول کا باعث ہوتا ہے, ہر غم انکی گود میں جاکر خوشی میں تبدیل ہوجاتا لیکن فانی کے حالات کبھی کبھی اسی رحمت کو قاتل بنا دیتے ہیں,
قصور کا محمد ابراہیم ایک ہفتے سے بیروزگار تھا، بیوی بھی ناراض ہوکر میکے چلی گئی۔وہ اپنے پانچ بچوں کو لیکر (بی ایس لنک) نہر پہنچ گیا، پہلے زاروقطار رویا، پھر تین بیٹیوں اور دو بیٹوں کو نہر میں پھینک دیا۔راہگیروں کی اطلاع پر ریسکیو آئی اور بچوں کی لاشیں نکال لیں، مرنے والوں میں ایک سال کا محمد احمد، تین سالہ تاشہ، چارسال کی فائزہ، پانچ سالہ زین اور سات سال کی معصوم نادیہ شامل تھی ۔
(ڈی پی او) قصور کے مطابق ملزم کو گرفتار کرلیا، تفتیش جاری ہے، جبکہ دوسری طرف افسوس ناک واقعے پر علاقے کی فضا بھی سوگوار ہے۔
نا زمین پھٹی نا آسمان گرا بے"

ریاست مدینہ کے دعویدار، گرونانک جیسے منصوبہ پر کروڑوں، اربوں روپے خرچ کر دینے والے ادارے اور حکومتی ارکان کونسلرز سے لےکر، ناظم، (ایم پی اے)، (ایم این اے)، منسٹر، سینیٹر اور مختلف وزارتوں کے بھوکے، جن کے کتے، بلیاں بھی دبئی اور لندن سے منگوائے گئے لوازمات کھاتے ہیں۔جن کے گھوڑوں تک کے لاکھوں روپے کے اخراجات ہیں۔

جن کے گھروں میں کروڑوں کی گاڑیاں کھڑے کھڑے زنگ آلود اور کباڑ ہو جاتی ہیں، جن کے گھروں میں روزانہ ہزاروں روپے کا رزق کوڑے کے ڈھیر میں ڈال دیا جاتا ہے۔

جب اللہ رب العزت کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے تو اپنے رب کو کیا جواب دیں گے کہ ان کے موجود ہوتے ہوئے، ان کے قریبی معاشرے کا حصہ اس طرح بھوک، افلاس اور بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشیاں کر رہا تھا پر ان کے بچے اور یہ دبئی، لندن اور مختلف دنیا کے ممالک کی سیر سپاٹوں میں مصروف تھے، اپنی تجوریاں بھرنے اپنے کاروبار کو پھیلانے، بڑھانے اور دنیا پر حکمرانی کے خوابوں میں مدہوش تھے۔وہ سیاسی دنگل، اپنی وزارتوں کے لئے دنگا مشتی اور لاکھوں کروڑوں صرف میڈیا پرموشن پر خرچ کر رہے تھے۔اس طرح کے حادثات و واقعات اسلامی جمہوریہ پاکستان میں روز کا معمول ہو گئے ہیں۔(مگر نعوذ باللہ شاید ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہمیں مرنا نہیں ہیں۔)

'اللہ رب العالمین جس شخص کو جتنا بڑا رتبہ دیتے ہیں، جتنے بڑے مرتبے پر فائز کرتے ہیں ,جتنی زیادہ عزت دیتے ہیں، اتنی ہی زیادہ اس کی ذمہ داری بھی ہوتی ہے۔(حکومتی غلط پالیسیز کی وجہ سے ہزاروں، کروڑوں، اربوں روپے کے نقصانات ایک طرف۔)

مگر!
اس وقت جو بے حس، بے غیرت، بے شرم معاشرے کی بنیاد رکھی جا رہی ہے، اس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی,میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اپنی فکر اور اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی دوڑ میں لگا دینے کی جو افراتفری اس دور میں پھیلائی جا رہی ہے وہ اسلامی معاشرے میں سب سے زیادہ نقصان کا باعث ہے,مذہب سے دوری، ایک دوسرے کا احساس ختم کردینے والے عوامل، معاشرے میں عدم برداشت کو ختم کر دینے والے تصورات کی بنیاد ,علم سے دور کر دینے والے ماحول کو پروان چڑھانا، کسی بھی انسانی معاشرے کو ختم کر دینے والی نشانیاں ہیں, انصاف سے محروم معاشرہ جرائم کی آرام گاہ بن جاتا ہے۔

بے شک بڑے بڑے اداروں کے سربراہان، سیاستدان، حکومتی و اپوزیشن ارکان کو کوسنے، رونے، پیٹنے کے بجائےہم اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر ڈالیں تو ہمیں اپنی ہزاروں نہیں لاکھوں خامیوں کا اندازہ ہو جائے گا۔

جس محلے میں یہ حادثہ پیش آیا کیا اس محلے میں کوئی ایک شخص بھی ایسا صاحب حیثیت نہیں تھا جو کسی ایک پڑوسی کو ایک وقت کا کھانا کھلا سکتا؟

اسلامی تعلیمات کے مطابق انسان کے چالیس گھر چاروں طرف اسکے پڑوسی ہوتے ہیں لیکن اسلام کی ابدی تعلیمات سے دور انسان کیا سمجھے گا اللہ کی حکمت کو کیونکہ ہم نے کھانا پینا کھلانے کی رسومات صرف مخصوص دنوں اور تہواروں تک محدود کر دی ہیں,بہت سے لوگ اپنی عزت نفس کو برقرار رکھتے ہوئے کسی لنگر خانے یا خیرات کھانے پر کھاتے ہوئے شرم محسوس کرتے ہیں,بہت سے لوگ اپنی عزت نفس کو اپنی زندگی سے بھی زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور پھر اس طرح کے حادثات جنم لتے ہیں۔

(اسے حکومت کی کم عقلی کہیے، کم علمی کہیے یا پھر دانستہ یا غیر دانستہ معاشرے میں ایسی چیزوں کو پروان چڑھانا، جس سے معاشرہ مفلوج ہو جائے، لوگوں کے کاروبار برباد کر کے لنگر خانے آباد کرنا کسی بھی غیرت مند انسانی معاشرے کے لئے بربادی کا باعث بنتے ہیں۔)

اسی دنیا میں ایک معاشرہ اللہ کے نبی کریم سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح تخلیق کر کے گئے تھے کہ لوگوں میں محبت کی انتہا تھی، مہمان کے بغیر کھانا کھانے میں شرم محسوس کی جاتی تھی,پڑوسی کو اپنی ہانڈی کا حصہ دار بنایا جاتا تھا۔موجودہ حالات میں نبی کریم سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر چلنے کی اشد ضرورت ہے۔

نوٹ !
یہ بھی خبر ہے کہ اس شخص کی اپنی بیوی کی بھانجی سے تعلقات تھے جسکی شادی ہونے کے بعد اسنے یہ سفاکانہ کھیل کھیلا ۔
یہ ایک جنسی ذہنی بھیڑیا ہے.
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 567835 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More