میں تیرے نام سے کرتا ھوں ابتدا مولا
میرے الفاظ کو بخش دے حیات مولا
اللہ جل شانہ نے قرآن میں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی کو
"اسوتہ حسنہ" قرار دیا ہے،
اور آج دیکھو 1400 سو سال بعد غیر مسلم بھی مجبور ہو کر آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کو دنیا کا عظیم ترین انسان، مصلح راہنماء،سپہ سلار، اور عظیم محسن
مانتی ہے۔
سیرت النبی ﷺ پہ کسی کتاب کا مطالعہ بڑا خوبصورت تجربہ ہے۔ ہر مضمون، ہر
پہلو، ہر واقعے کے بعد آپ کی آقا ﷺ سے محبت کی تجدید ہوتی ہے۔ جیسے جیسے
آقا ﷺ کی شخصیت آپ پہ کھلتی ہے ویسے ویسے آپ کے دل میں ایک آئیڈیل کا تصور
مضبوط ہوتا جاتا ہے۔
سیرت النبی ﷺ کے موضوع پہ پیر کرم شاہ صاحب کی تصنيف ضیا النبی ﷺ ,
صدیقی صاحب کی "محسن انسانیت "ولی ریاض صاحب کی " ہادی عالم" کا مطالعہ کیا
تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ موجودہ کتابوں میں اورحالات میں سیرت
النبی ﷺ پہ نمایاں اور خوبصورت کتابیں ہیں,
گزشتہ ادوار میں ابن ہشام کی کتاب سب سے جامع ہے لیکن اسکو پڑھنے سے پہلے
سمجھنے کے لیے کسی پاکستانی مصنف کو پڑھنا لازم ہے تاکہ سیرت مبارکہ کو
مکمل سمجھ کر عمل بھی آسان ہو اور عقیدہ بھی مضبوط ہو,بے شک سیرت النبی ﷺ
کا مطالعہ دل کو نرم کرتا ہے۔
اہل علم ؤ دانش میری بات سے ان شاءاللہ متفق ہوں گۓ کہ سیرت نبوی صلی
اللہ علیہ والہ وسلم کے مطالعہ سےرقت طاری ہو جاتی ہے,
لیکن سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو محض کہانی بنا کر نہیں پڑھنا
چاہیے بلکہ اسے پڑھنے سے پہلے اور پڑھنے کے بعد اپنی زندگی کا جائزہ لینا
چاہیے کہ
کتنی مثبت تبدیلیاں آئی ہے ؟
ہم نے کتنا عمل کیا ہے ؟
ہم اسلام سے کتنے دور ہیں ؟
ورنہ "مہجورہ" کے مفہوم میں ہمارا یہ عمل بھی گردانہ جائے گا۔بیشک اللہ
تک پہچنے کا ڈائریکٹ راستہ سیرت النبی ﷺ ہی ہے۔آپ زندگی کے کسی موڑ پہ کبھی
بھٹک ہی نہیں سکتے۔لہذا خود بھی اور اگر ہو سکے تو گھر میں روز پانچ منٹ تک
خاندان کے تمام افراد کو متوجہ کر کے کسی بھی کتاب کا مطالعہ جسکو آپ پسند
کرتے ہیں, اسکو پڑھنے کا اہتمام کر لیں ,ان شاء اللہ فاہدہ ؤ عمل آپ تصور
ہی نہیں کر سکتے.
جیسے زمانہ جہالت میں بتوں کی پوجا,شراب,جوا,چوری,زنا,قتل,لڑکیوں کا زندہ
درگو جیسے گناہ عام تھے بلکہ یوں کہے سکتے ہیں کہ زمانہ بربادی اور تباہی
کے آخری کنارے پر تھا اور شرم وحیا کا دور دور نام و نشان نہ تھابس تاریکی
ہی تاریکی تھی,پھر کیا تھا اللہ کی رحمت جوش میں آہی اور انسانیت پر اللہ
پاک نے احسان فرمایا اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ابدی ہدایت
دے کر پیدا فرمایا,اللہ کریم نے اپنی بنائی اشرف انسانیت کو جہالت کی
تاریکیوں سے نکال کر اجالے اور ہدایت کے روشن راستے کی تلقین کرنے ,طریقہ
کار بتانے کے اپنے محبوب کائنات کے سردار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کو ابدی اور آخری تعلیمات دے کر معبوث فرمایا.
سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ مجھ جیسا طالب
علم قلم بند کرنے سے قاصر ہے لیکن اتنا ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ بازار مصر
میں یوسف علیہ السلام کی بولی لگ رہی تھی تو ایک بوڑھی عورت روہی
( سوتر کی آٹی) کے عوض خریدنے کے لیے موجود تھی ,وہ جانتی تھی کہ میں اللہ
کے محبوب یوسف علیہ السلام کو خرید نہیں سکتی لیکن خریدنے والوں میں نام تو
آجاۓ گا.
زندگی مختصراً ہے, وقت پوری رفتار سے کسی انتظار کے بغیر گزرتا جا رہا ہے,
بس طالب علم ہونے کے ناطے مختصراً لیکن جامع سیرت ترتیب دینے کی کوشش کی
ہےصداۓ وقت کے فورم سے, اللہ کریم سے دعا ہے کہ اپنی بارگاہ میں قبول فرما
کر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نام لینے والوں میں شامل فرما
لیں.
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آج کے عنوانات
(1)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کا نام اور کنیت
(2) خاندان نبوت
(3) ازواج مطہرہ
(5) پہلی وحی اور ابتداۓ تبلیغ کا آغاز
اسم محمدی خط ثلث میں کچھ یوں ہے,
احمد، ابوالقاسم، ابوالطیب، نبی التوبہ، نبی الرحمۃ، بدر الدجی، نور الہدی،
خیر البری، نبی المرحمۃ، نبی الملحمۃ، الرحمۃ المہداۃ، حبیب الرحمن،
المختار، المصطفی، المجتبی، الصادق، المصدق، الامین، صاحب مقام المحمود،
صاحب الوسیلۃ والدرجۃ الرفیعۃ، صاحب التاج والمعراج، امام المتقین، سید
المرسلین، النبی الامی، رسول اللہ، خاتم النبیین، الرسول الاعظم، السراج
المنیر، الرؤوف الرحیم، العروۃ الوثقی
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نسب اسماعیل بن ابراہیم کی نسل میں قریش عرب
سے ہے,
والدہ کا نام آمنہ بنت وہب رضی اللہ تعالی
والد کا نام عبدللہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالی
رضاعی والدہ کا نام حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی
رضاعی والد کا نام حارث بن عبد العزی
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اولاد نرینہ:
قاسم رضی اللہ تعالی ، عبد اللہ رضی اللہ تعالی ، ابراہیم رضی اللہ تعالی,
طاہر رضی اللہ تعالی
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صاحبزادیاں:
زینب رضی اللہ تعالی ، رقیہ رضی اللہ تعالی ، ام کلثوم رضی اللہ تعالی ،
فاطمہ رضی اللہ تعالی
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ازواج مطہرات :
خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالی ، سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالی ، عائشہ
بنت ابوبکر رضی اللہ تعالی ، حفصہ بنت عمر رضی اللہ تعالی ، زینب بنت خزیمہ
رضی اللہ تعالی,
ام سلمہ رضی اللہ تعالی ، زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی ، جویریہ بنت حارث
رضی اللہ تعالی ، ام حبیبہ بنت ابو سفیان رضی اللہ تعالی ، صفیہ بنت حی رضی
اللہ تعالی ، میمونہ بنت حارث رضی اللہ تعالی ، ماریہ القبطیہ رضی اللہ
تعالی, (باختلاف اقوال)
سرور کائنات محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت مشہور عام
تاریخ کے مطابق 12 ربیع الاول عام الفیل بمطابق 570ء یا 571ء کو ہوئی۔ آپ
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام مذاہب ؤ تا قیامت کے پیشوا ہیں,
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی کنیت ابوالقاسم تھی۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے
جانے والے انبیاء اکرام علیہ السلام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ
نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں
بھیجا۔
(انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی
تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے)۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا
ہوۓ,حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی
عمرمیں نازل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وصال تریسٹھ (63) سال کی
عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب
میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن
عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد رضی اللہ تعالی کا انتقال ان کی
دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی
تو ان کی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔
عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی
اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ آپکی والدہ ماجدہ نے آپکا
نام احمد رکھا تھااور آپکے دادا حضرت عبدالمطلب نے "محمد" رکھا تھا۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت
للعالمین,شاہد,مبشر,نذیر,داعی اللہ, سراج منیر, آپ صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم کے القابات ہیں, اس کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بہت
نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔
اپنی سچائی ، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے
پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے
باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا
جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر
ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل
علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ
عَلَقٍ (2) -- القرآن
ترجمہ: پڑھو (اے نبی) اپنے رب کا نام لے کر جس نے پیدا کیا (1) پیدا کیا
انسان کو (نطفۂ مخلوط کے) جمے ہوئے خون سے (2)(سورۃ 96 ( الْعَلَق ) آیات 1
تا 2)
یہ ابتدائی آیات بعد میں قرآن کا حصہ بنیں۔ اس واقعہ کے بعد سے حضرت محمد
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رسول کی حیثیت سے تبلیغ اسلام کی ابتداء کی
اور لوگوں کو خالق کی وحدانیت کی دعوت دینا شروع کی۔
انہوں نے لوگوں کو روزقیامت کی فکر کرنے کی تعلیم دی کہ جب تمام مخلوق اپنے
اعمال کا حساب دینے کے لئے خالق کے سامنے ہوگی۔ اپنی مختصر مدتِ تبلیغ کے
دوران ہی انہوں نے پورے جزیرہ نما عرب میں اسلام کو ایک مضبوط دین بنا دیا،
اسلامی ریاست قائم کی اور عرب میں اتحاد پیدا کر دیا جس کے بارے میں اس سے
پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت
مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے اور قرآن کے مطابق کوئی مسلمان ہو ہی نہیں
سکتا جب تک وہ ان کو اپنی جان و مال اور پسندیدہ چیزوں پر فوقیت نہ دے۔
قیامت تک کے مسلمان ان کی امت میں شامل ہیں۔
ولادت مبارک صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب فیل کے سال ماہ ربیع الاول بوقت صبع
صادق پیدائش مکہ مکرمہ میں ربیع الاول 53ھ / اپریل 571ء ہوئی (مشہور قول کے
مطابق)(بارہ , نو , دس ,ربیع الاول بھی روایت میں آتا ھے)
(آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات ربیع الاول ,12 ھ, 10ھ / جون 632ء کا
ذکر ہے) وضاحت آخر میں)
اعلان بعثت رمضان 12ھ / اگست 610ء، غار حرا در مکہ مکرمہ
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مرکزی قیام مدینہ منورہ کی مسجد نبوی رہا,
تاریخ اسلام کی روشنی میں اور علماۓ حق کے متفق قول کے مطابق رسول کريم صلى
الله عليه وسلم کا نسب نامہ کچھ یوں ہے جسکو حضرت مولانا طارق جمیل صاحب
اکثر بیان کرتے ہیں,
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دادی کا نام فاطمہ,
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دادا کا نام عبد المطلب,
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نانی کا نام برہ,
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی والدہ کا نام آمنہ رضی اللہ
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے والد کانام عبداللہ رضی اللہ آپ صلی اللہ
علیہ والہ وسلم کا گھرانہ.......بنو ہاشم
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا قبیلہ........قریش
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قوم......عرب
(باقی کی تفصیل یہ ھے)(صحيح البخاري ، كتاب مناقب الأنصار ، باب مبعث النبي
صلى الله عليه وسلم)
محمد صلى الله عليہ والہ وسلم کا شجرہ نسب کچھ اس طرح ہے
محمد بن عبد الله بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف
بن قصي بن كلاب بن مُرة بن كعب بن لؤي بن غالب
بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانة بن خزيمة بن مدركة بن إلياس بن مضر بن
نزار بن معد بن عدنان
"عدنان" تک کے نسب نامہ کی صحت پر پر تمام محدثین ، سیرت نگاروں اور علمائے
انساب کا اتفاق ہے۔
اور "عدنان" کے اولادِ اسماعيل عليه السلام سے ہونے کے بارے میں بھی کوئی
اختلاف نہیں۔
البتہ عدنان سے اوپر نابت بن اسماعيل عليه السلام کا شجرۂ نسب جو کہ محفوظ
نہیں رہا یوں بتایا جاتا ہے :
بن اُدبن مقوِّم بن ناحور بن تَيرح بن يعرُب بن يشجب
بن نابت بن اسماعيل بن ابراهيم خليل اللہ علیہ السلام
(بحوالہ : سیرت ابن ھشام)
عرب ازراہِ احتیاط "عدنان" سے اوپر کا نسب نامہ بیان نہیں کرتے تھے کیونکہ
وہ نسب کے بارے میں بےحد حساس تھے لیکن "نابت" کے حضرت اسماعيل عليه السلام
کے 12 بیٹوں میں سے ایک ہونے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اگر اختلاف ہے
تو اس میں کہ حضرت اسماعيل (عليه السلام) کے بڑے بیٹے "نابت" تھے یا
"قيذار" ؟
خزاں کے آغاز کے ساتھ جہاں درختوں سے گرتے ٹوٹتے, زرد , نارنجی پتے زمین سے
رگڑ کھاتے ہیں تو عجب سی سرگوشی کرتے سُنائی دیتی ہے اور دل کی دُنیا میں
ایک شور بپا ہو جاتا ہے باہر سے پُرسکون مگر قلب و روح کی بے تابی من کو
اضطراب میں مُبتلا کر دیتی ہے -
گُمان ہوتا ہے زرد ہوتے اشجار بھی غم اور اُداسی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں اور
ہم بے چین رُوحوں کے ہم سفر بن جاتے ہیں ,ہمارے تڑپتے سوالوں کے سفیر بن
جاتے ہیں,
مگر یہ دلکشی انکے حُسن کو نہایت خوبصورت بنا دیتی ہے لیکن ہمارے لوگ گندگی
سے اس کے ماحول کو میلا کر دیتے ہیں -
جیسے ہم اپنے رب کی عطا کردہ زندگی کو رحمن کے اصولوں سے باہر نکل کر
گزارتے ہیں اور شیطان کے دائرے کو قبول کر کے اپنی خواہش کے غلام بن کر نبی
کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت ؤ اطاعت کو بھول کر فانی دنیا کی
دلدل میں غرق ہوتے جاتے ہیں.
سرور کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اشرف انسانیت کو جہالت
کی تاریکی سے نکالنے کے لیے ہی تشریف لاۓ.
جا زندگی مدینے سے جھونکے ہوا کے لا
شاید حضور ہم سے خفا ہیں منا کے لا
ٹکڑوں میں بٹ گئی ہے امت رسول کی
ابوبکر سے کچھ آئینے صدق و صفا کے لا
دنیا بہت ہی تنگ مسلماں پہ ہو گئی
فاروق کے زمانے کے نقشے اٹھا کے لا
گمراہ کر دیا ہے نظر کے فریب نے
عثمان سے زاویے ذرا شرم و حیا کے لا
یورپ میں مارا مارا نہ پھرئے گدائے علم
دروازہ علی سے یہ خیرات جا کے لا
باطل سے دب رہی ہے امت رسول کی
منظر ذرا حسین سے کچھ کربلا کے لا
جا زندگی مدینے سے جھونکے ہوا کے لا
شاید حضور ہم سے خفا ہیں منا کے لا
جب سے اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے، نفس و شیطان اس کو بہکانے کیلئے کوشاں
ہیں، شیطان کا مکرو فریب عام طور پر واضح ہوتا ہے یعنی عبادات سے روک دینا
اور گناہ کروانا،،، لیکن نفس کے دھوکے بہت شدید اور باریک ہوتے ہیں انسان
ان کو اکثر سمجھ نہیں پاتا، جیسے الله کی راہ میں مال خرچ کرتے وقت دل میں
ریا کاری یعنی دکھاوے کی خواہش کا پیدا ہونا، اس عظیم عمل کو برباد کر دیتا
ہے،،، اسی طرح بعض لوگوں کو جب کسی معاملے میں دل نہ چاہتے ہوئے معافی
مانگنی پڑ جائے،، تو نفس ان سے یہ جملہ کہلوا دیتا ہے کہ(اگر کوئی غلطی
ہوئی یا میری بات بری لگی ہے تو معافی چاہتا ہوں) یہ جملہ صرف وہاں قابل
قبول ہے جہاں کوئی بات ہوئی ہی نہ ہو اور محفل برخاست ہوتے وقت اس کو ادا
کیا جائے، لیکن جہاں آپ یقیناً غلطی پر تھے ویاں نفس آپ سے یہ کہلوا کر یہ
بتا، رہا ہوتا ہے کہ آپ کا نفس تکبر میں مبتلا ہے اور معافی مانگنا برائے
تکلف ہے
اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں نفس و شیطان کے دھوکوں سے بچائے اور عاجزی و
مسکینی عطا فرمائے یہی عاجزی قبر کی روشنی ہے (نفس کی خرابیاں سے اقتباس)
انسان بھی کیا شے ھے.دولت کمانے کے لیےاپنی صحت کھو دیتاھے.اور پھر صحت کو
واپس پانے کے لیے اپنی دولت کھو جاتا ھے.مستقبل کو سوچ کراپنا حال ضایع
کرتا ھےپھر مستقبل میں اپنا ماضی یادکرکےروتاھے. جیتا ایسے ھے جیسے کبھی
مرنا ھی نہیں اور مرتا ایسے ھےجیسے کبھی جیا ھی نہیں .( شیخ سعدی)
حضرت یوسف بن اسباطؒ سے پوچھا گیا: عاجزی کی انتہا کیا ہے؟ انہوں نے جواب
دیا:
’’آدمی گھر سے نکلے تو راہ میں ملنے والے ہر شخص کو خود سے بہتر جانے‘‘
مختصر سی مری کہانی ہے
جو بھی ہے ان کی مہربانی ہے
جتنی سانسوں نے ان کا نام لیا
بس وہی میری زندگانی ہے
کیف طاری ہو اشکباری ہو
یہ ہی ماحول نعت خوانی ہے
چشمِ تر سے سنائیں حال اپنا
خوش بیانی تو آنی جانی ہے
یاد کرنا ان کو رو لینا
بس یہی میری نعت خوانی ہے
دعوت و تبلیغ کا حکم اور مشرکین کی طرف سے تکا لیف اور مصاہب پر صبر کی
تلقین اور ساتھ ہی تسلی بھی دی گی...
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی
ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک عملی نمونہ
(مولانا محمداللہ خلیل قاسمی صاحب کے قلم سے بھی چند نمایاں باتیں اس میں
شامل ہیں جو کہ آپکی نظر کر رہا ھوں)
اسلام ، عالمی اورابدی مذہب ہے۔ اسلام کی تعلیمات اور اس کاسرمدی پیغام
دنیا کے ہر گوشے میں بسے ہوئے انسانی افراد اور معاشرے کے لیے یکساںطور پر
قابل عمل ہے۔ اس عالمی اور آفاقی مذہب کے پیغمبر آخر الزماں سیدنا محمد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر مرحلہ اور ہر پہلو پوری امت
مسلمہ کے لیے ایک کامل اسوہ اور مکمل نمونہ ہے جیسا کہ قرآن کریم کی شہادت
ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُم فِیْ رَسُولِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (۲۱:۳۳) آپ کی
گھریلو زندگی ہویا سماجی زندگی، مکی زندگی ہو یا مدنی زندگی ، عبادات ہوں
یا معاملات، سیاسیات ہوں یا اخلاقیات و مذہبیات، آپ صلی اللہ علیہ والہ
وسلم کی زندگی کا عملی نمونہ ہر شعبۂ زندگی میں تمام انسانوں کے لیے قابلِ
تقلید ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں ہم مسلمانوں کے لیے جو جس
بھی ملک میں ہیں بے شک اقلیت میں ہیں،ایک مکمل عملی نمونہ موجود ہے۔ ملک
میں اکثریت غیر مسلمین ہو ,سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مسلمان وہاں کی
آبادی کا تقریباً پندرہ فی صد ہی ہوں۔
یہ مسلمانوں کا اپنا محبوب وطن ہوتا ہے اور مسلمان اس سرزمین کے ایک اٹوٹ
حصہ ہوتے ہیں ۔ ہمارے آباء و اجداد اسی خاک میں مدفون ہوتےہیں اور اس بر
صغیر میں ہماری تہذیب و تمدن اور تاریخ و روایات کے کتنے ہی انمٹ نقوش اور
لاثانی یادگاریں ثبت ہیں کہ اگر اس گراں قدر تہذیبی، ثقافتی و تاریخی ورثہ
کو ہندوستانی تاریخ سے مٹادیا جائے تو یہاں کی تاریخ روکھی اور بے رنگ نظر
آنے لگے گی۔
حصولِ آزادی کے بعد بھی گو مسلمانوں کو اس ملک میں مسلسل گذشتہ ساٹھ برسوں
سے معاشی و تعلیمی اور سیاسی و سماجی آزمائشوں کا سامنا ہے؛ لیکن ملک کے
مجموعی حالات مسلمانوں کے لیے اگر ہمت افزا نہیں تو کم از کم مایوس کن اور
دل شکن بھی نہیں۔ یوں تواسلام کی ساری تعلیمات پر کاربند ہونا مسلمانوں کی
مذہبی ذمہ داری اور اسلامی تقاضا ہے۔ تاہم مسلمانوں کے لیے ملک کے موجودہ
حالات میں نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ’’مکی نمونہ‘‘ خاص طور پر مکمل عملی
نمونہ پیش کرتا ہے۔
امانت و دیانت اور پاکیزگی و شرافت:
مکی زندگی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی شناخت تھی آپ صلی
اللہ علیہ والہ وسلم کی صاف ستھری اور پاکیزہ زندگی ۔ مکی زندگی میں نبوت و
رسالت سے سرفراز ہونے سے پہلے اور بعد کے زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ والہ
وسلم کی شناخت آپ کی صداقت و امانت، شرافت و پاکیزگی ، تواضع و انکساری
اور تقوی و پاکبازی تھی؛ مکہ کا ہر باشندہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی
شرافت و پاکیزگی اور اعلی اخلاق کا قائل تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم
کو عام طور پر صادق اور امین کہا جاتا تھا۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت حجرِ
اسود کو اس کے مقام تک اٹھا کر رکھنے میں قریش کے اندر جو سخت اختلاف پیدا
ہوا اور جس کی وجہ سے خوںریز جنگ چھڑنے والی تھی ، وہ آپ صلی اللہ علیہ
والہ وسلم کی جوانی کا زمانہ تھا، لیکن قریش کے سرداروں اور بڑے بوڑھوں کو
جب یہ ہاشمی نوجوان دکھائی پڑا تو سب نے بیک آواز ہو کر کہا: ھَذا
مُحَمَّدُن الأَمِیْنُ رَضِیْنَا ھَذا مُحَمَّدُن الأمِیْنُ (یعنی یہ
محمد امین شخص ہیں، ہم ان سے خوش ہیں، یہ امین ہیں)۔اور سب نے اس نوجوان کے
حکیمانہ فیصلے کو بخوشی قبول کیا اور اس طرح ایک خون ریز جنگ چھڑتے چھڑتے
رہ گئی۔
(سیرۃ المصطفیٰ۱۱۶:۱،بحوالہ سیرت ابن ہشام)
نبی اکرم ﷺ پر نبوت کے ابتدائی مراحل میں جب اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوتا
ہے کہ نبوت کے پیغام اور توحید کی دعوت کو علی الاعلان اپنے قبیلہ والوں تک
پہنچا یا جائے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہِ صفا پر تشریف لاتے ہیں اور
قریش کے قبائل کو آواز دیتے ہیں۔ ارشاد فرماتے ہیں : اے قریش! اگر میں
کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے دشمن کی فوج حملہ آور ہونے کو تیار ہے تو کیا تم
یقین کرو گے؟ پوری قوم یک زبان ہو کر کہتی ہے: نَعَمْ! مَا جَرَّبْنَا
عَلَیْكَ اِلَّا صِدْقاً (ہاں! ہم نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں
سوائے صدق اور سچائی کے کچھ نہیں پایا)۔(صحیح بخاری ، حدیث نمبر 4397)
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امانت و دیانت کا عالم تھا کہ مکہ کے بڑے
بڑے تاجر خواہش مند ہوتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کے تجارتی
سامان لے کر شام و یمن وغیرہ کی عالمی منڈیوں میں جائیں تاکہ آپ صلی اللہ
علیہ والہ وسلم کے ذریعہ ان کی تجارت کو فروغ حاصل ہو۔ نبوت و رسالت سے
سرفراز ہونے کے بعد بھی مکہ کے وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی
دعوتِ اسلام کو نہیں مانتے تھے، وہ بھی آپ کے پاس اپنی امانتیں بغرض حفاظت
رکھ جاتے تھے؛ انھیں اس بات کا اطمینان تھا کہ ان کی امانت اس امین کے
علاوہ کسی اور کے ہاتھوں میں اتنی محفوظ نہیں ہے۔
صبر و استقامت:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کا دوسرا سب سے واضح عنصر آپ کا
بے پناہ جذبۂ صبر و استقامت، اولو العزمی اور اپنے صحیح موقف پر پہاڑ کی
طرح قائم رہنے کی قوت تھی۔ تبلیغِ اسلام اور دعوتِ حق کے بعد مکہ کی اکثریت
آپ کے خلاف تھی۔ وہ ہمیشہ آپ کے اور مٹھی بھر مسلمانوں کے در پئے آزار
رہتے، انھیں تکلیفیں پہنچاتے، ایذائیں دیتے اور دن رات اسلام، پیغمبر اسلام
اور متبعینِ اسلام کے خلاف سازشیں کرتے؛ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
کفار مکہ کے اس برتائو کا جواب صبر و خاموشی اور ہمت و استقامت سے دیا۔ آپ
نے دعوتِ حق کے اپنے موقف سے ذرہ برابر پیچھے ہٹنا گوارا نہیں کیا، حتی کہ
آپ کو پورے عرب کی بادشاہت، مال و دولت، حسین ترین عورتوں اور ہر خواہش کی
چیز پیش کیے جانے کی پیش کش بھی کی گئی ، لیکن آپ نے اس دعوت حق کے سامنے
ہر کسی پیش کش کو حقارت سے ٹھکرادیا۔ آپ نے حضرت ابو طالب کی فہمائش کے
جواب میں فرمایا کہ چچا اگر میرے ایک ہاتھ میں چاند دوسرے میں سورج رکھ دیا
جائے اور کہا جائے کہ اس کام سے باز رہو، تو بھی میں ایسا نہیں کرسکتا۔
تصادم سے گریز اور دعوت و تبلیغ کا تسلسل:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صبر آزما اور مخالف ماحول میں اہلِ مکہ کے
سامنے اعلی اخلاقی نمونہ پیش کیا ۔گالیوں کا جواب دعائوں سے، پتھر کا جواب
نرم کلامی سے ، دل آزاری کا جواب ہمدردی و غم گساری سے دیا۔ آپ نے اس
ماحول میں تصادم سے گریز کیا اور حکمت و بصیرت کے ساتھ کام کرتے رہے۔ لوگوں
کی بھلائی اور دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے ان کو خدائے واحد اور اللہ
کے پسندیدہ دین کی طرف بلاتے رہے۔ دعوت و تبلیغ کا جو فرضِ منصبی آپ نے
اٹھایا تھا، اس پر پوری دلجمعی، استقامت اور سختی سے قائم رہے۔ یہی وجہ تھی
کہ آپ کی دعوت دلوں کے قلعوں کو تسخیر کرتی چلی گئی اور مکہ کی ایک بڑی
تعداد نے مخالف ماحول میں بھی اسلام میں کشش محسوس کی ۔جو لوگ کل تک آپ کے
مشن کے شدید ترین دشمن تھے، وہ آپ کے اخلاق عالیہ اور دعوت حق کی گرمی سے
پگھل کر پانی پانی ہوجاتے اور اہل ایمان کے حلقے میں شامل ہوجاتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی سے یہ چند خاص سبق ملتے ہیں کہ اہل
ایمان کو اپنے حق و صداقت کے موقف پر پورے یقین و اعتماد کے ساتھ جمنا
چاہیے اور اس کی طرف پورے وثوق کے ساتھ دعوت دینی چاہیے ۔ جہاں تک ہوسکے
اپنے پڑوسیوں، اہل خاندان ، اہل وطن سے خواہ وہ کسی کبھی فکر و خیال اور
مذہب کے ماننے والے ہوں ، ان سے اخلاق و محبت، خیر خواہی و ہمدردی اور
بہتری و بھلائی کا برتائو کرنا چاہیے۔ نیز، معاشرے کے سامنے ہمیشہ اپنے
اعلی کردار و عمل ، تقوی و طہارت، امانت و دیانت اور اخلاص و خیر خواہی کے
ذریعہ بلند پایہ اخلاقی اقدار و آداب کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ہجرت حبشہ سے چند سبق:
نبوت کے پانچویں برس دو مرحلوں میں تقریباً سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایماء پر حبشہ (موجودہ ایتھوپیا ، افریقہ) کی
طرف ہجرت فرمائی۔ گو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہجرت میں حصہ نہیں لیا،
لیکن چوں کہ آپ کے اصحاب (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے آپ کے مشورہ سے
ہجرت اختیار کی تھی اور آپ کی تعلیمات کی روشنی میں انھوں نے وہاں زندگی
گزاری ؛ اس لیے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کا ہی ایک حصہ تصور
کیا جاتا ہے۔
حبشہ ایک غیر مسلم ملک تھا، وہاں کا حکم راں نجاشی اس وقت نصرانی تھا۔ سو
کے قریب مسلمانوں کی جمعیت وہاں کی قلیل ترین اقلیت تھی؛ لیکن حبشہ کی
زندگی میں حضرات صحابہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی
روشنی میں جو لائحہ عمل اختیار کیا، وہ ہندوستان جیسے ملک میں رہنے والی
مسلم اقلیت کے لیے ایک بہترین اسوہ ہے۔
حبشہ پہنچنے کے بعد مسلمانوں نے وہاں اپنی کالونی بنالی اور اس عادل بادشاہ
کي رعایا بن کر رہنے لگے۔ ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے کہ کفار مکہ کے دو
نمائندوں عبد اللہ بن ربیعہ اور عمرو بن العاص نے حبشہ کی سرزمین بھی
مسلمانوں پر تنگ کرنی چاہی اور بادشاہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا نا چاہا۔
اس موقع پر حبشہ کے مسلمانوں نے جو طریقۂ کار اختیار کیا، وہ ہمارے لیے
روشن نمونہ کا درجہ رکھتا ہے۔ مسلمانوں نے سب سے پہلے اجتماعیت اور اتحاد
کا مظاہرہ کرتے ہوئے، حضرت جعفرطیار رضی اللہ عنہ کو اپنا امیر منتخب کیا۔
پھر انھوں نے باہمی مشورہ اور اتفاقِ رائے سے یہ طے کیا کہ جس دین حق کی
خاطر ہم نے اپنا وطن چھوڑا ہے، اس کے خلاف ہم کچھ نہیں کہیں گے اور جو کچھ
حق ہوگا ، حکمت و بصیرت کے ساتھ معقول و مدلل انداز میں اس کو سامنے رکھیں
گے۔ نیز، اپنے جائز مقصد کے حصول اور اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے عادل
بادشاہ کے عدل و انصاف اور قانون کا سہارا لیں گے؛ چناں چہ جب قریشی
نمائندوں نے نجاشی کے سامنے مسلمانوں پر یہ الزام لگایا کہ یہ بد دین ہوكر
اپنے ملک سے بھاگ آئے ہیں ، ان کو واپس کیا جائے، تو نجاشی نے مسلمانوں سے
صفائی پیش کرنے کو کہا۔ ان روشن اصولوں کی رہ نمائی میں حضرت جعفرِ طیار
رضی اللہ عنہ نے نہایت معقول انداز میں کہا کہ: کیا ہم غلام ہیں جو تمہارے
یہاں سے بھاگ آئے ہیں، یا ہم نے کسی کا قتل کیا ہے یا ہم کسی کا مال ہڑپ
کرکے آئے ہیں۔اس بر محل اور معقول سوال کا جواب ان قریشی نمائندوں کے پاس
نہیں تھا۔
پھر نجاشی نے مسلمانوں سے پوچھا کہ آخر وہ کون سا دین ہے جس پر تم ایمان
رکھتے ہو۔ اس کے جواب میں حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے حضرت رسولِ اکرم
ﷺ کی تعلیمات کا جو خلاصہ پیش کیا، وہ ایک بہترین دینی اور سماجی نمونہ
تھا۔ حضرت جعفرؓ نے اسلام کے تعارف پر مشتمل جو تقریر نجاشی کے دربار میں
کی تھی، اس میں رسول پاک ﷺ کی چودہ تعلیمات کا ذکر تھا:
(۱) توحید (۲) سچائی (۳) امانت داری (۴) صلہ رحمی (۵) پڑوسیوں سے اچھا سلوک
(۶) حرام کاموں سے پرہیز (۷) خوںریزی سے گریز (۸) بدکاری سے پرہیز (۹)
جھوٹی بات سے پرہیز (۱۰) مالِ یتیم سے پرہیز (۱۱) عورتوں پر الزام تراشی سے
گریز (۱۲) نماز قائم کرنا (۱۳) زکوٰۃ دینا (۱۴) روزہ رکھنا۔
ان تعلیمات میں، مذہب، اخلاق اور سماج سب کچھ کی رہنمائی موجود ہے۔
دوسرے دن قریشی نمائندوں نے ایک دوسری چال چلی اور حضرت عیسی علیہ السلام
سے متعلق عبدیت کے اسلامی عقیدہ کے خلاف نجاشی عیسائی بادشاہ کو بھڑکانا
چاہا کہ یہ لوگ حضرت عیسی عليه السلام کو اللہ کا بیٹا نہیں مانتے۔
مسلمانوں کے لیے یہ مشکل وقت تھا؛ لیکن حق پرستی اور صداقت شعاری کے روشن
اصولوں کی روشنی میں جو اسلامی عقیدہ تھا، وہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ
نے بلاکم و کاست پیش کردیا اور بالآخر حق کا بول بالا ہوا اور باطل رسوا و
ذلیل ہو کر واپس ہوا۔
کتبِ سیرت و احادیث میں حبشہ میں مسلمانوں کی عام زندگی کی تفصیلات نہیں
ملتیں، لیکن جو کچھ جابجا روایات میں ملتا ہے، اس سے بھی ان کے طرزِ معاشرت
کی ایک جھلک دکھائی دیتی محسوس ہوتی ہے۔ حضرات نے صحابہؓ نے اپنی چھوٹی سے
بستی بنا کر تجارت وغیرہ کا پیشہ اختیار کیا اور مقامی غیر مسلم آبادی کے
ساتھ معاملات کیا۔اس سے مسلمانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ جہاں بھی رہیں محنت
و مشقت اور امانت و دیانت کے ساتھ حلال روزی کے ذرائع اختیار کریں۔
مسلمانوں نے ملک کی خیر خواہی اور اہل ملک کے ساتھ وفاداری کا برتائو کیا۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں دنوں نجاشی بادشاہ کو ایک بغاوت کا سامنا
کرنا پڑا؛ چناں چہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کی کامیابی کے لیے دعا
کی۔ اس سے یہ اصول ماخوذ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے ملک اور عادل رہ نما
کے ساتھ وفاداری اور خلوص و محبت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ہم مسلمانوں کو ہجرتِ حبشہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اتحاد و اتفاق کا
مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ نازک اور اہم مواقع پر اجتماعیت اختیار کرکے باہمی
مشورہ سے کام لینا اور اپنا امیر منتخب کرلینا چاہیے۔ مسلمانوں کو یہ طے
کرلینا چاہیے کہ کسی حال میں بھی حق و صداقت کا دامن نہیں چھوڑیں گے اور
اپنے ایمان و یقین کا سودا کسی صورت میں نہیں کریں گے، یہی ان کی مذہبی اور
تہذیبی زندگی کی اساس ہے۔ نیز، جذباتیت سے گریز کرتے ہوئے حکمت و بصیرت سے
کام لینا چاہیے اور مخالف حالات کا صبر و استقامت سے سامنا کرنا چاہیے ۔
دین کی دعوت، حکمت،معقولیت اور مدلل طریقہ سے اپنے ہم وطنوں کو دینی چاہیے
اور ہمیشہ طاقت کا مقابلہ حکمت و دانائی سے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اس
سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے ملک کے نظامِ عدل سے واقفیت حاصل کرنا چاہیے اور
اسے اپنے تحفظ کے لیے اوراپنا حق حاصل کرنے كے ليے استعمال کرنا چاہیے۔
نیز مسلمانوں کو جس ملک میں وہ رہیں، وہاں امن پسند شہری کی حیثیت سے رہنا
چاہیے اور تخریبی کارروائیوں سے گریز کرنا چاہیے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا
ہے کہ اپنے موقف، مقصدِ حیات اور طرزِ زندگی سے ہم وطنوں کو واقف کرائیں؛
تاکہ وہ غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں اور تحفظ کے مسائل پیدا نہ کریں اور
اسلام سے اجنبیت کی وجہ سے اس کو حریف نہ سمجھیں۔ نیز، مسلمانوں کو ہم
وطنوں کے مذہب، مزاج اور تہذیبی شعار سے ضروری واقفیت حاصل کرنی چاہیے تاکہ
امن وسکون کی فضا معاشرے میں پیدا ھو..
|