بنگلہ دیشی بھائی

چنوتی، ایک مثالی گاﺅں اور اُسکے باکمال لوگ

بنگلہ زبان میں چنوتی کے لفظی معنی ” چیلنج“ کے ہیں اور حقیقت میں بھی اِس گاﺅں کے رہنے والوں نے اپنے عملی کاموں سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘، کہتے ہیں کہ کہیں بھی کوئی اچھی چیز نظر آئے تو بجائے حسد کرنے کے اگر اُس کی تعریف کرو تو اللہ تعالٰی خوش ہو کر وہی نعمت اُسے بھی عطا کردیتا ہے جو چاہتا ہے کہ خدا اسے بھی ایسی ہی نعمت سے نوازے ، اور اِس کا سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان بخیل ہونے سے بھی بچ جاتا ہے ، اللہ پاک کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ایک دوسرے سے محبت کرنا ہے، جو میں بنگلہ دیش کے ایک چھوٹے سے گاﺅں کے لوگوں میں دیکھ کر آیا ہوں، اِس گاﺅں کا نام ”چنوتی“ ہے یہ چٹاگانگ سے تقریباً چالیس کلو میٹر پر کاکسس بازار جاتے ہوئے راستے میں امیر آباد کے قریب ایک ذیلی سڑک پرواقع ہے، چھوٹی بڑی پہاڑیوں پر مختصر سی پڑھی لکھی آبادی والے اس گاﺅں میں سے بہت سارے لوگ باہر کے ملکوں ، امر یکہ ،کینیڈااور انگلنیڈ میں ہونے کے باوجود اپنے اس پیارے سے گاﺅں سے اتنے قریب ہیں کہ جس وقت چاہتے ہیں اپنے گاﺅں کا نظارہ کر لیتے ہیں،یہاں کے رہنے والے دو بھائی لطیف الاسلام اور شریف الاسلام نے کمپیوٹر انجینئر بن کر سب سے پہلے اپنے گاﺅں کے نام سے ایک ویب سائیٹ پر سب دوریوں کو ختم کر دیا ہے ، ہر خوشی یا غمی کے موقعے پر سب ایک دوسرے اس ویب پر آ کر اپنے دکھ سکھ بانٹ لیتے ہیں اس گاﺅں کا ہر فرد ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے، مجھے وہاں ”سیر ت النبی ﷺ کی پاک محفل “ میں شرکت کرنے کا موقع نصیب ہوا جو ہر سال ربیع الاول کے مبارک مہینے میں متواتر اُنیس دن تک وہاں جاری رہتی ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں ،دن رات حضور پاکﷺ کی سیرت مبارک پر ایمان افروز واعظ و نصیحت کے ساتھ ساتھ تینوں وقت کے کھانے کا انتظام بھی ہر خاص و عام کے لیے ہوتا ہے ، روزانہ تین سے چار گائے زبح کی جاتی ہیں پورا انتظام گاﺅں والے مل کر خود ہی کرتے ہیں ، گاﺅں کو خوبصورت بنانے کے لیے وہاں کا ہر باشندہ کوشاں نظر آتا ہے، بھائی چارے کی مثال ہیں یہ لوگ آپ بھی اِس ویب پر گاﺅں کا نظارہ کر سکتے ہیں!!
www.chunati.com

اِسی گاﺅں کے قدرتی مناظر جنہیں دیکھ کر آنکھوں میں ٹھنڈک سی محسوس ہوتی ہے ، لوگوں کی آپس میں محبت دیکھ دل میں ویسے ہی جذبات اُمڈے چلے آتے ہیں،، جیسے کسی اچھے اور نیک لوگوں کی محفل میں بیٹھنے سے نیکی کی ترغیب ملتی ہے ا ور اگر کہیں برے لوگوں کی صحبت میں بیٹھ جاﺅ تو وہ اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں۔


image
image
image
image

قارئین میری تحریریں پڑھ کر ضرور سوچیں گے کہ میں بنگلہ دیش کی اتنی تعریف کیوں کرتا ہوں ؟ تو اِس کے بارے میں اِتنا عرض کروں گا کہ اگر کسی کا کوئی بھائی ناراض ہو کر الگ ہو جائے تو اُس سے وہ رشتہ جو ایک خدا اور اُس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھنے والوں اور ایک ساتھ پچیس سال رہنے سے قائم ہوا وہ اتنی آسانی سے نہیں ٹوٹ سکتا ، جیسے دوسگے بھائی بھی الگ ہو کر اپنی پہچان نہیں بدل سکتے ویسے ہی مسلمان جہاں بھی رہیں آپس میں بھائی بھائی ہیں یہی فرمانِ رسول ﷺ ہے۔

آجکل بنگلہ دیش میں کچھ ایسی کوششیں ہو رہی ہیں کہ اُسے بھی ہندوستان کی طرح سیکولر بنا دیا جائے ، مثلاً سرکاری مذہب اسلام کو یہ کہہ کر ہٹانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ مذہب تو انسان کا ہوتا ہے ، سرکار کا نہیں !! پارلیمان کی کاروائی کے شروع میں بسم اللہ کو غیر ضروری اس لیے قرار دیا جا رہا ہے کہ منسٹری میں ہندو بھی شامل ہیں، یہ سب کر کے کیا وہ مسلمانوں کے دل سے اسلام کو مِٹا سکیں گے ؟ کیا ہندوستان میں پاکستان سے زیادہ مسلمان نہیں رہتے ؟ جن پر طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں کبھی طالبان اور کبھی پاکستان کا ساتھ دینے والے کہہ کر اُن کا قتل عام کیا جاتا ہے، کشمیری مسلمانوں پر ظلمُ ستم کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں پھر بھی اسلام کے نام لیوا ڈٹے ہوئے ہیں ، بڑا افسوس ہوتا ہے جب میں سنتا ہوں کہ یورپ میں کام کرنے والے مسلمان اپنی اصلیت چھپانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسلمان کہنے سے ٹیروریسٹ ، طالبان اور جانے کن کن ناموں سے شرمندگی اُٹھانی پڑے گی۔

طا لبان کو صرف مسلمانوں کو بد دل اور بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ورنہ کہاں ٹوئین ٹاور اور کہاں ایک چھوٹا سا ہوائی جہاز !! یہ تو ایک چیونٹی سے ہاتھی کو مروانے والی بات ہے، کہ چھوٹی سی چیونٹی نے ایک بہت بڑے ہاتھی کو ٹکر ماری جس سے وہ مر کر لوتھڑوں کی شکل میںزمین بوس ہو گیا ، ہاتھی کی سونٹھ میں گھس کر کاٹنے سے ہاتھی مر جاتا ہے یہ تو سنا تھا مگر۔۔۔۔ نا قابلِ یقین بات ہے ! پھر بھی لوگ یقین کر لیتے ہیں، جو لوگ افغانستان اور عراق میں لاکھوں بے گناہ لوگوں کو مار کر شرمندہ نہیں ہوتے اُن کے سامنے ہم لوگ مظلوم ہو کر بھی ظالم کو آئینہ دکھانے کی بجائے اپنے موجودہ حکمرانوں کی طرح خاموشی سے آنکھیں جھکا لیتے ہیں ، کیوں ہے نا تعجب کی بات!!

بات ہو رہی تھی بنگلہ دیش کی جسے آجکل شیخ حسینہ ڈیجیٹل بنانے کے لیے کوشاں ہیں ، بڑی اچھی بات ہے ، ایک بھائی نے ایٹم بم بنا کر یورپ امریکہ کو اپنا دشمن بنا لیا ہے دوسرا بھائی کیوں پیچھے رہے وہ بھی ڈیجیٹل بنگلہ دیش بنا کر اپنے غریب عوام کو دال بھات کی جگہ لیپ ٹاپ ہاتھ میں پکڑا کر دنیا کو یہ کہنے کے قابل ہو جائے گا، ” ہماری طرف بھی دیکھیں کہ ہم بھی کسی سے کم تو نہیں ہیں!!

یہاں ایک بات ماننی پڑے گی کہ بنگلہ دیش کے پاس ایک ایسا ویپن ہے جس سے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کو بھی زیر کیا جا سکتا ہے ، اور وہ ہے اپنے دیس کی دھرتی اپنے کلچر اپنی زبان اور اپنے لوگوں سے ”دلی محبت“ جس کی ایک جھلک میں نے اِس چھوٹے سے گاﺅں میں دیکھی جو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 83991 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.