یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ ہم
جنس پرستی کیوں ہو رہی ہے دنیا میں ہم جنسی کو جواز دلوانے کی مہم میں تیزی
اس لئے آرہی ہے کہ ”گے(guy)“ مارکیٹ کی طلب میں اضافہ ہورہاہے۔ مغربی ملکوں
میں یہ پہلے ہی سے ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ سچائی یہ ہے کہ دنیا میں بازار جنس
(Sex) سب سے بڑی اور بڑھتی ہو مارکیٹ ہے اور سیکس میں بھی سب سے زیادہ ہم
جنسی کی مارکیٹ کی طلب ہے۔ ایک رپورٹ، جس کا عنوان ہے اغلام بازوں کیلئے
پرکشش وینکووربحیثیت ایک کروڑ کی صنعت“میں کہا گیا ہے:”ویسے تو وینکوور سب
سے زیادہ 2010کے اولمپک کھیلوں کی بہت زیادہ مبالغے کے ساتھ تشہیرکر
رہاہے۔اس شہر کی شان کو اس نے اپنا سب سے زیادہ کماؤ بزنس بنا ڈالا ہے۔مگر
اب سیاحت کی صنعت کو ایک اور نئی مارکیٹ مل گئی ہے ،جو ویسے تو ہمیشہ سے
موجودتھی۔ مگر پہلے اس کے نمایاں مارکیٹ بن جانے کے امکان کو محسوس نہیں
کیا گیا تھا:یعنی” گے(guy) مارکیٹ“(اغلام بازوں کا بازار)۔ کناڈا ڈاٹ کام
کے مطابق وینکوور میں گے(guy) ٹورزم حالیہ سالوں میں ایک کماؤ اوربھروسہ
مند سیکٹر بن چکا ہے۔ صرف امریکہ میں ہی گے ٹورزم کاسالانہ تخمینہ 55ملین
ڈالر کا ہے۔سان فرانسسکو کی ایک کمپنی کے ذریعہ کیا گیا ایک سروے بتاتاہے
کہ امریکہ سے باہر ہم جنس پرستوں کا چوتھا بڑا مقبول مقام وینکوور ہے۔ جب
کہ مونٹر یال اور ٹورنٹو کا مقام بالترتیب پانچواں اور چھٹواں ہے۔ جس سے
پتہ چلتا ہے کہ مجموعی طورپر کناڈا کی ہم جنس پرست سیاحت کی صنعت کس قدر
پھل پھول رہی ہے۔ یہی مجلہ مزید بتاتاہے کہ و ینکوور کی ٹورزم انڈسٹری
امریکہ کی گے مارکیٹ کو متوجہ کرنے کے لئے میڈیا کا سہارا لیتی ہے اوربڑے
پیمانے پر نیو یارک، سان فرانسسکو اور لاس اینجلس جیسے شہروں سے اپنے گاہک
بٹورتی ہے۔ وینکوور کی گے سیاحت کی صنعت کی ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہے کہ
جولائی 2003میں برٹش کو لمبیا نے ہم جنسی کی شادی کو جائز قراردیا تھا۔
بوائڈ(Boyd )کے مطابق ہم جنسی کی شادی کو جائزقرار دینے کے بعد ہم جنسی کی
سیاحت میں زبردست اچھال آیا۔ اس کی اس نے توجیہ یوں کی کہ اس سے ہم جنسی کو
معمول کی بات بنایا جاسکاہے اور ایسے تصورات و افکار اور رویے لائے گے جو
آزاد سیاست اور کھلی صارفیت کے ذریعہ ہم جنس پرستوں کو شہری حقوق دینے کی
وکالت کریں گے۔ (Boyd,2008,P224)۔
بوائڈ یہ بھی ذکر کر تاہے کہ شادی کی تقریبات کتنا بڑا بزنس ہیں۔ صرف
امریکہ ہی میں 2005میں 70بلین ڈالر کی کمائی ہوئی یعنی فی شادی 30 ہزار
امریکن ڈالر کا اوسط رہا۔ حتی کہ فوربس نے 2004میں یہ تخمینہ دیا کہ ہم
جنسی کی شادیوں نے صرف امریکہ ہی میں تقریبا 16ملین ڈالر کی آمدنی فراہم کی
ہوگی۔ ہم جنسی کو منظم کاروبار بنانے کے لئے انھیں اپنے انٹرنیٹ سائٹ پر یہ
اعلان کرنا پڑا کہ ان کے پاس ایسے مقامات ہیں جہاں اغلام باز قابل قبول ہیں
چونکہ ہم جنسی کو سماجی حیثیت نہ ملنے کے بعد بہت سے اغلام بازوں کو سازگار
جگہیں تلاش کرنی پڑتیں۔ (Puar,2002,P.103)۔ حقیقت میں منظم گے ٹورز1950کی
دہائی میں عام ٹرویل انڈسٹری کے عروج پانے سے قبل ہی شروع ہوچکے تھے۔ جس کی
بنیاد گے ٹراول کے باوا آدم ہنس ایبن اسٹن نے ڈالی تھی۔ (Puar,2002)
ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ چونکہ ہم جنسی کی شادیوں کو 2003میں برٹش کولمبیا
میں قانونی درجہ دیا جاچکا ہے۔اس بنا پر وہسٹلر(Whistlar)اب ایسی شادیاں
کروانے کیلئے ایک بہترین جگہ ہے۔ وہ اب اپنی شادی کی تقریبات کی تشہیر بھی
کرتے ہیں۔ اسی طرح ہنی مون منانے والوں کا اشتہاربھی دیا جاتا ہے۔ تاکہ
شادی کے بعد جوڑوں کے علاوہ مہمان بھی جشن منانے کے لئے رک جائیں۔ اس طرح
وہسلٹر میں ایک ہی مقام پر شادی کی تمام ضروریات پوری ہوجاتی ہیں۔ ان کے
پاس ایسی تقریبات کا منصوبہ بنانے والے بہترین منتظم موجود ہیں جو ہر چیز
مہیا کراسکتے ہیں۔ تاکہ سیرو تفریح کے ساتھ وقت گذارا جاسکے۔ یہ بہت ہی
کامیاب کاروباری اسکیم ہے۔یہ عجیب و غریب کمیونٹی (ہم جنس پرست) دو وجہ سے
یہاں آتی ہے۔وہسٹلر کی سیاحت اور شادی۔تودونوں ہی مقاصد ایک ہی جگہ کیوں نہ
حاصل کرلئے جائیں ؟
ایک دوسرا مضمون بعنوان ”ہم جنسی کو قانونی درجہ اور انکم ٹیکس“یہ بتاتاہے
کہ ہم جنس پرستوں کی شادیاں حکومتوں کے لئے کتنی منافع بخش ہیں۔جیمس آلم ،
ایم وی لی بیڈگیٹ اور لینرلی وٹننگٹن جیسے مبصرین کا اندازہ ہے کہ گے شادی
کو قانونی درجہ دینے سے وفاقی حکومت کی انکم ٹیکس سے آمد 0.3 بلین سے بڑھ
کر 1.3بلین تک پہنچ گئی ہے۔ ان اضافی محصولات کو شادی کے دوسرے معاشی فوائد
کے مصارف کی تلافی کے لئے استعمال کیا جاسکتاہے۔
مزید بآں شادی کی تقریبات معیشت کے لئے بہت فائدہ مند ہیں۔ 2000کے امریکی
مردم شماری بیورو کی رپورٹ کے مطابق اس وقت 601,209غیر شادی شدہ ہم جنس
جوڑے ملک کی تمام ریاستوں میں سے تقریبا99.3%میں بستے ہیں۔ Urban Institute
کا دعویٰ ہے کہ مردم شماری کے اعداد و شمار کم ہیں اوراس کے مطابق18سال سے
زائد عمر کے ہم جنس مرد اور ہم جنس عورتیں مجموعی امریکی آبادی کا 5%یعنی
10,456,40ہیں۔
ہمارااندازہ ہے کہ اگر ہم جنسی کی شادی کو قانونی جوازدیا جائے تو ان لوگوں
کے علاوہ جو ہم جنس پہلے سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں (دیکھیں یو ایس 2000مردم
شماری کے اعداد و شمار) دوسرے ہم جنس بھی شادی کرکے ساتھ رہنا چاہیں
گے۔آسانی کے لئے ہم فرض کرتے ہیں کہ ایسے لوگ 5لاکھ ہوسکتے ہیں۔ Brides
Magazineکے مطابق شادی کے مصارف کی اوسط لاگت 19ہزار امریکی ڈالر (تقریبا
9لاکھ 12ہزار روپئے)ہے۔ مزید ڈھائی لاکھ شادیوں کا صرفہ اس اوسط شرح کے
مطابق 4.75بلین امریکن ڈالر ہوگا! یاد رکھیں اس میں وہ رقم شامل نہیں ہے جو
شادی کے تحائف پر خرچ ہوگی۔ وہ ریاستیں جو ہم جنسی کی شادیوں کی اجازت دیں
گی ان کی سیاحت اور سیاحت سے متعلق معاشی سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ
ہوگا۔
مختصر عرصہ کے لئے سان فرانسسکو کے میئر گیون نیوزوم نے ہم جنس جوڑوں کو
شادی کے لائیسنس جاری کیے تو 3ہزارسے زائد ہم جنس مرد اور ہم جنس عورتوں کے
جوڑوں نے شادی کے لئے یوروپ سے اور امریکہ کی 20ریاستوں سے اس شہر کا رخ
کیا۔دراصل شادی تقریبات تو محض ایک ادنیٰ سی مثال ہیں۔ کیونکہ بہت سی
شادیوں کا اتمامی مرحلہ بھی ہوتاہے۔طلاق: طلاق یافتہ گان میں سے اکثر یت آپ
سے یہی کہے گی کہ رشتہ ازدواج میں داخلہ کا مرحلہ جتنا مہنگا ہوتاہے اس سے
نکلنا اس سے کہیں زیادہ مہنگا ہوتاہے۔ چنانچہ اگر شادیوں پر چند سو ڈالر ز
سے لے کر کئی ملین ڈالرز خرچ ہوتے ہیں تو طلاق پر اخراجات کا تخمینہ اس
صنعت میں کئی بلین ڈالر سالانہ تک جاتاہے۔ یاد رہے کہ ہم جنس جوڑوں میں بھی
طلاق کی شرح اتنی ہی ہے جتنی کہ جنس مخالف سے شادیوں میں ہوتی ہے۔ مجھے
حیرت اس بات پر ہے کہ طلاق کی چارہ جوئی کرنے والی وکلاءکی تنظیموں کے
ذریعہ کہیں بھی قانونی لڑائی کوپورے طورپر جائز نہیں سمجھا گیا!ایک میڈیا
فینا نشینل رپورٹ کے مطابق ”جب سے شکاگو کو ساتویں ہم جنسی کھیلوں کے لئے
منتخب کیاگیا ہم نے صرف 6مہینوں کے اندر اندر اپنے معاشی اہداف حاصل کرلئے
اور بعض حالات میں تو معاملہ شیڈول سے بھی سالوں آگے چلا گیا۔“( ٹریسی بیم،
سی جی آئی بورڈ کے مشترک وائس چیئر مین اور فنڈ اکھٹا کرنے والی کمیٹی کے
چیئر مین )۔
”ایک باراگرنشریات کے حقوق دیدئیے گئے ، توہم تین ملین امریکی ڈالر نقداور
اتنے ہی دیگر وسائل اکٹھا کرلیں گے“۔ 20ستمبر 2004 کو سی جی آئی نے پلے نٹ
آؤٹ انک کے ساتھ ایک ملین ڈالر اسپانسر شپ سودے کا اعلان کیا تھا۔ ہم جنس
مردوں اور ہم جنس عورتوں کے ایک قومی آرگن ”ایڈوکیٹ“ نے اپنا حالیہ ایڈیشن
نکالا جس میں تین صفحات میں Palm Springsہوٹلز کے اشتھارات تھے۔ یہ ہوٹل ہم
جنسوں کو سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ موریل فوسٹر، پام اسپرنگس کے ٹورزم
ڈائرکٹر کہتے ہیں کہ یہ پہلی بار ہے کہ یہ شہر اپنے آپ کو گے مارکیٹ کے لئے
پیش کررہاہے۔ لاس اینجلس کا ونٹی ٹراول ایجنٹس کہتے ہیں کہ موجودہ معاشی
تنزل کے باعث وہ اس مارکیٹ میں زیادہ سرگرم ہوگئے ہیں۔مختصراً ایک مبصر کے
نزدیک ”ہم جنس میڈیا کے ذریعہ امریکہ نے ایک بلین ڈالر کا کاروبار کیا۔ HBO
شوز، فلمیں، کتابیں، میگزینیں، وغیرہ اس میڈیا کا حصہ ہیں۔ امریکہ میں اکثر
جس چیز میں بھی منافع کمانے کا امکان ہو اس پر غور کیا جاتاہے۔
ہمارے نزدیک ہم جنسی کو جواز فراہم کرنے کا دہلی ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ
افسوس ناک اور حیرت انگیز ہے۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے قتل، دہشت گردی اور
عصمت ریزی کو جائز قرار دیا جائے۔ بلکہ واقعہ تو یہ ہے کہ ہم جنسی ان سب سے
زیادہ خطر ناک ہے۔ اس وبا نے انسانی زندگی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا
ہے اور آئندہ بھی پہنچاسکتی ہے۔ جنسی بے راہ روی کی دوسری تمام اقسام میں
ہم جنسی سب سے زیادہ غیر صحت مندانہ رویہ ہے اور وہ آتشک ، ایچ آئی وی،
ایڈز وغیرہ امراض کا سبب بھی ہے۔ ہم جنسی سے انسانی صحت پر کیا اثرات مرتب
ہوتے ہیں اس کا اندازہ ذیل کی ایک رپورٹ سے لگایا جاسکتاہے:”1980کی ابتدائی
رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ ہم جنس پرست مرد اوسطاً 50سال سے کم عمر جی
پاتے ہیں۔ جو کہ مردوں کی عام آبادی کی اوسط عمر سے تقریبا 20سال کم ہے۔
”محفوظ سیکس“ اور ایڈز کے علاج میں ترقی کے باعث امید کی جاسکتی ہے کہ عمر
کی اس شرح میں کچھ اضافہ ہوا ہوگا۔ تاہم 1997میں کناڈا کے ایک مطالعہ میں
پایا گیا کہ ہم جنس پرست مرد عام مردوں کے مقابلے میں 20سال کم عمر پاتے
ہیں (اس کی بنیاد تین فیصد عام مردوں کے سروے پر رکھی گئی) اس تحقیق میں
کئی پیمانے بشمول وفیات کے استعمال کیے گئے۔
دوبڑے سرسری جنسی سروے (امریکہ اور برطانیہ عظمیٰ میں ) اور ایک بے شادی
شدگان کا ڈنمارک ، سویڈن اور ناروے میں سروے، بتاتے ہیں کہ ہم جنس پرستوں
کی اوسطاً 50سال سے کم عمر میں موت ہوجاتی ہے۔ ایک تیسری تحقیق (جو 2002میں
شائع ہوئی) میں پایا گیا کہ 88ہم جنس جوڑے والے مردوں نے 45سال عمر پائی۔
جب کہ 118ہم جنس تنہا مرد 46سال جیئے۔ اس تیسری تحقیق نے ہم جنس پرست مردوں
کی اوسط عمر عام مردوں کے مقابل میں 30سال کم کردی۔ایک اور تحقیق یہ بتاتی
ہے کہ ڈنمارک میں اوسطاً شادی شدہ مردوں نے ہمیشہ ہم جنس جوڑ ے کے ساتھ
رہنے والے مردوں سے زیادہ عمر پائی، تقریبا 23سال زیادہ (74بمقابلہ 51سال)
اور ناروے میں یہ فرق 25سال رہا (یعنی 77سال بمقابلہ 52 سال) اسی طرح شادی
شدہ عورتوں نے ہمیشہ ہم جنس شریک حیات والی عورتوں سے زیادہ عمر پائی۔
ڈنمارک میں 22سال (78بمقابلہ 56سال)۔ہم جنسوں کی مدتِ حیات کا موازنہ سگریٹ
نوشوں کی مدتِ حیات سے کریں توسگریٹ نوشی کرنے والے کی عمر تقریباً 10سال
کم ہوسکتی ہے۔
سگریٹ نوشی کا شکارفرد کی عمراوسطاً 10 سال کم ہوسکتی ہے پھر بھی میڈیااور
اطباءسگریٹ نوشی پر شدید تنقید کرتے رہتے ہیں۔دراں حالیکہ سگریٹ نوشی سے
مدتِ عمر میں جتنی کمی ہوتی وہ اس سے بہت کم ہے جتنی کہ ہم جنس طرز زندگی
سے ہوتی ہے۔“واضح طورپر ہم جنسی پوری دنیا کے انسان کے لئے توخطرہ ہے ہی
تاہم یہ خود ہم جنس پرستوں کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ہندو ستان میں ایچ
آئی وی کا پھیلاؤ NACOکے ایک سروے کے مطابق، نارمل آبادی کے مقابلہ میں
تقریباً 8گنا زیادہ ہے۔ ہم جنسی کو قانونی جواز دینے سے اس مارکیٹ کو
بڑھاوا ملے گا اور گے لٹریچر، گے کلب، اور گے فحاشی کاایک سیلاب آجائے گا
اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس کا شکار ہوں گے۔ یہ دلیل کہ اس سے ایڈز کی روک
تھام میں مدد ملے گی بالکل واہیات ہے۔ قانون میں مناسب تبدیلی کے ذریعہ
ایڈز کا شکار گے مریضوں کی تیمارداری کی جاسکتی ہے۔جب تک اباحیت، فحاشی ،
ہم جنسی اور قحبہ گیری کے خلاف موثر مہم نہ چلائی جائے ایڈز کو کنٹرول کیا
ہی نہیں جاسکتا۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ جنسی رویے انسانی زندگی پرجوئے،
شراب، اور سگریٹ نوشی سے زیادہ برے اثرات ڈالتے ہیں۔ کیونکہ جنسی مسائل
جنین، مرد عورت اور بوڑھوں وبچوں سبھی پر اپنا اثر ڈالتے ہیں۔ ”جنسی بے راہ
روی کا یہ سیلاب بلا خیزانسانی جنین، نوزائیدہ بچوں اور20 سے 40سال کی عمر
کے لوگوں کا اتنی بڑی تعداد میں قتل عام کررہاہے کہ اس سے لازماً مدتِ حیات
20۔40 سال تک گھٹ جائے گی۔
یہ کہنا کہ ہم جنسی فطری ہے ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے کہ مجرمانہ رجحانات
فطری ہیں۔ یہ چیزیں فطری نہیں بلکہ انتہائی خطرناک انسانی انحرافات ہیں۔ ہم
جنسی پہلے ہی کم از کم 40ملین لوگوں کے موت کی نقیب بن چکی ہے جو اب تک
ایڈز اور سیکس سے متعلقہ امراض کا شکار ہوچکے ہیں۔ ایڈز کے نا م پر ہم جنسی
کو سند قبول دینے کے بجائے ایچ آئی وی کے شکار لوگوں کو جنسی طورپر الگ
تھلگ کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ ایچ آئی وی کو دوسروں تک نہ پھیلا سکیں۔
الغرض ہم جنس پرستی جسے آج دنیائے مغرب میں قانونی جواز دیا جا رہا ہے اور
اس ابدی قانون کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے جس نے انسانیت کی بنیاد ڈالی۔اگر
ہم کسی بھی مذہبی قید سے با لا تر ہو کربطور انسان کے سوچیں تو پھر بھی
ہمیں جو اصول ملتا ہے وہ یہ کہ حضرت آدم تمام انسانوں کے باپ ہیں۔اور ان کی
خلوت کو دور کرنے کے لیے جس کو اس کا ساتھی بنایا گیا وہ حضرت حوا تھیں جس
کو عورت کا درجہ دیا گیا۔توگویا انسان اپنی زندگی مرد اور عورت کے جوڑے کی
صورت میں گزارے گا اور اب ایک ہی جنس کے دو اشخاص کو قانونی جواز فراہم
کرنا سمجھ سے با لاتر ہے۔اگر ہم بطور مسلم اسلام کی بات کریں تو اس میں تو
ہمیں اور بھی قید ملتی ہے کی اسلام نے ہمیں نکاح سے متعارف کرایا اور اس کے
لیے بھی ہمیں مرد اور عورت کا تصور دیا۔اور چونکہ معاشرے کی بقاءکا انحصار
عورت پر ہوتا ہے اس لیے مرد کو اس کا ساتھی بنایا گیا اور یہ کہا گیا کہ آپ
ایک قانون کے ساتھ آپس میں رہ سکتے ہیں اور معاشرے کو بقاء بخش سکتے ہیں
اور اس کے لیے پوری حدود وقیود لاگو کردیں تاکہ کسی سطح پر بھی معاشرے میں
بگاڑ پیدا نہ ہو سکے۔اگر دور جدید میں مغرب ایک بے ہودہ طرز عمل کو قانونی
جواز فراہم کر رہا ہے تو گویا وہ انسانیت کی تذلیل کرتا ہے اور انسان کو
اللہ نے اشرف بنایا ہے۔ لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ فکری طور پر بیدار ہو کر
مغرب کے اس فعل کا جواب دیا جائے اور انسان کو اس تذلیل سے بچایا جائے۔آئیں
اور مل کر اس میں اپنا کردار ادا کریں۔ |