#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ یُونس ، اٰیت 96 تا 103
عجب کیا ھے کہ بڑا غرق ہو کر پھر اُبھر آۓ !! ازقلم.... اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ان
الذین حقت
علیھم کلمت ربک
لا یؤمنون 96 ولو جاءتھم
کل اٰیة حتٰی یرواالعذب الالیم 97
فلو لا کانت قریة اٰمنت فنفعھا ایمانا الّا قوم
یونس لمااٰمنواکشفناعنھم و متعنٰھم الا حین 98 ولو
شاء ربک لاٰمن من فی الرض کلھم جمیعا افانت تکرہ الناس
حتٰی یکونوامؤمنین 99 وماکان لنفس ان تؤمن الّا باذن اللہ ویجعل
الرجس علی الذین لا یعقلون 100 قل انظروا ماذا فی السمٰوٰت والارض وماتغنی
الاٰیٰت والنذر عن قوم لا یؤمنون101 فھل ینتظرون الّا مثل ایام الذین
خلوامن قبلھم قل
فانتظرواانی معکم من المنتظرین 102 ثم ننجی رسلنا والذین اٰمنواکذٰلک
حقاعلینا ننج المؤمنین 103
اے ھمارے رسول ! ھمارے نظامِ قضا و قدر کی ہر ایک تحقیق سے اِس اَمر کی
تصدیق ہو چکی ھے کہ جن لوگوں پر اللہ کا کلمہِ حق اپنے تمام دلائلِ حق کے
ساتھ آچکا ھے اور وہ اِس پر ایمان نہیں لاۓ ہیں تو اُن کو بھی پہلی قوموں
کی طرح اللہ کا عذاب دیکھ کر ایمان لانے کا انتظار ھے حالانکہ چشمِ فلک نے
آج تک کبھی بھی یہ نہیں دیکھا کہ قومِ یُونس کے سوا کسی اور قوم نے عذاب کی
وعید آنے کے بعد ایمان قبول کیا ہو اور پھر اُس کو دُنیا میں ملنے والے
رُسواکُن عذاب سے نجات بھی مل گئ ہو ، اگر آپ کے پروردگار کو انسان کا
آزمائش کے بغیر ایمان لانا منظور ہوتا تو وہ زمین کے ہر انسان کو خود ہی
ایمان دار بنا دیتا لیکن اللہ کے نظامِ تعلیم و تربیت میں تو فکر و عمل کی
ہی آزمائش ھے زور زبردستی کی گُنجائش نہیں ھے ، حقیقت یہ ھے کہ زمین کا جو
جاندار اللہ کے اِس نظامِ آزمائش سے مطمئن نہیں ہوتا ھے تو اُس کے وجُود پر
جہالت کی ایک غلاظت ڈال دی جاتی ھے جس سے اُس کی عقل مفلوج ہوجاتی ھے اور
وہ اپنی جہالت اور بے عقلی کے باعث اللہ کے اِس نظامِ آزمائش کے ذریعے ایک
اَچانک خوشی کی طرح اَچانک ملنے والے خوش کُن فوائد کی مسرتوں سے محروم ہو
جاتا ھے ، اے ھمارے رسول ! آپ اِن مُنکرینِ قُرآن سے کہیں کہ اگر تُم لوگوں
کی آنکھیں دیکھ سکتی ہیں تو پھر دیکھو کہ زمین و آسمان میں تُمہارے سمجھنے
کے لیۓ قُدرت کے کتنے آثار اور تُمہارے سنبھلنے کے لیۓ اُس کے کتنے اَنوار
موجُود ہیں لیکن اگر تُم کو ایمان لانے کے لیۓ اقوامِ رفتہ پر ٹُوٹنے والے
عذابِ رفتہ کا انتظار ھے تو پھر تُم میرے عذاب کے وقت کا انتظار کرو اور
میں تُمہاری ہمتِ انتظار کا انتظار کرتا ہوں لیکن جو لوگ عھدِ رفتہ پر ایک
سنجیدہ نگاہ ڈالیں گے تو وہ یقینا یہ بات جان جائیں گے کہ ھم ہر زمانے میں
اپنے پیغام بروں کو اور اپنے پیغمبروں کا پیغام ماننے والوں کو اسی طرح
بچاتے رھے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
مُحولہ بالا اٰیات کی تعداد 8 ھے جن میں سے پہلی 2 اٰیات کے بعد اور آخری 5
اٰیات سے پہلے آنے والی اٰیت اِس موضوع کا مرکزی مضمون ھے اور دیگر7 اٰیات
اِس مرکزی مضمون کی تعلیقات ہیں ، اِس اٰیت کے اِس مضمون اور اِس مضمون کی
اِن تعلیقات میں یُونس علیہ السلام کی قوم کے ساتھ پیش آنے والا انسانی
تاریخ کا وہ پہلا اور آخری مُنفرد واقعہ بیان کیا گیا ھے جو قومِ یُونس سے
پہلے بھی کبھی کسی قوم کے ساتھ پیش نہیں آیا اور قومِ یُونس کے بعد بھی
کبھی کسی قوم کے ساتھ پیش نہیں آیا ، یُونس علیہ السلام کے عھدِ نبوت ،
مقامِ نبوت اور پیغامِ نبوت کے بارے میں ھم اِس سُورت کے آغاز میں تاریخ کی
دستیاب معلومات اور تفصیلات کے علاوہ قُرآنِ کریم کی اُن اٰیات کی بھی نشان
دہی کر چکے ہیں جن اٰیات میں قُرآن نے یہ واقعہ بیان کیا ھے ، قُرآنی اٰیات
اور اہلِ تحقیق کی دیگر تحقیقات سے اِس واقعے کا جو لُبِ لُباب سامنے آتا
ھے وہ یہ ھے کہ یُونس علیہ السلام کا زمانہ عیسٰی علیہ السلام کے زمانے سے
790 برس اور سیدنا محمد علیہ السلام کے زمانے سے 1360 برس قبل کا زمانہ تھا
، یُونس علیہ السلام جنوبی فلسطین کے علاقے گلیلی کے شہر گاتھ ہیفر Gath
Happer سے 28 برس کی عُمر میں اللہ کے حُکم پر اشوری سلطنت کے اُس عظیم شہر
نینوا میں تشریف لے گۓ تھے جس کی اُس وقت سُورةُالصٰفٰت کی اٰیت 147 کے
مطابق آبادی ایک لاکھ سے زیادہ تھی اور اِس شہر میں وہ مُشرک لوگ آباد تھے
جو آپ کی دعوت کی فطری صداقت کی وجہ سے آپ کو اللہ کا سَچا نبی تو مانتے
تھے لیکن اپنے مالی اور معاشی مفادات کو نقصان پُہنچنے کے شیطانی وساوس کے
باعث اللہ کے اَحکامِ نازلہ کا انکار کرتے تھے ، یُونس علیہ السلام نے اپنی
اُس قوم کو اَحکامِ اِلٰہی کی طرف لانے کی بہت کوشش کی لیکن آپ کی اُس قوم
نے آپ کی ہر بات ہر وقت ہی سُنی اَن سُنی کردی یہاں تک کہ یُونس علیہ
السلام کو اللہ نے 40 دن بعد اُس قوم پر اپنا عذاب نازل کرنے کی خبر دی اور
یُونس علیہ السلام نے وہ خبر اپنی قوم تک پُنچا دی لیکن جب 37 دن گزر گۓ
اور عذاب نہ آیا تو یُونس علیہ السلام شہر سے باہر جا کر عذاب کا انتظار
کرنے لگے اور جب اِن تین دنوں میں بھی اُن کو اللہ کی طرف سے اپنی قوم پر
عذاب نازل ہونے کی خبر نہ ملی تو آپ اپنے شہر کا رُخ کرنے کے بجاۓ دل
براشتہ ہو کر بحرِ اوقیا نوس کی طرف نکل گۓ اور دُوسری طرف آپ کی قوم کے
ساتھ یہ معاملہ ہوا کہ جس شب یُونس علیہ السلام نے شہر چھوڑا اُسی شب اُن
کی قوم کے اَفراد کو خیال آیا کہ یُونس علیہ السلام نے تو آج تک کبھی بھی
کوئ جُھوٹ نہیں بولا تو پھر وہ اللہ کے عذاب کی کوئ جھوٹی خبر ہمیں کس طرح
دے سکتے ہیں اور اَب جب وہ متوقع عذاب کے خوف سے شہر چھوڑ کر چلے گۓ ہیں تو
اُن کی دی ہوئ خبر کے مطابق ھم پر اللہ کے عذاب کا آنا یقینی ہو چکا ھے اور
پھر جب اُس قوم کو ایک یقینی عذاب کے آنے کا یقین ہو گیا تو اُس کے سارے
مرد و زَن اجتماعی توبہ میں مُنہمک ہو گۓ اور اللہ نے اُن کی اجتماعی آہ و
زاری اور بیقراری پر رحم کھاتے ہوۓ اُن پر نازل کیا جانے والا عذاب روک دیا
اور انسانی تاریخ میں یہ پہلی اور آخری قوم ھے جس کے سر پر آیا ہوا عذاب
اللہ نے اُس کی توبہ کے باعث موقوف کیا ھے اور ھمارے نزدیک اِس کی وجہ اِس
کے سوا اور کُچھ نہیں ھے کہ یُونس علیہ السلام کی قوم بَد عمل ہونے کے
باوجُود بھی یُونس علیہ السلام کو اللہ کا سَچا نبی مانتی تھی اور جب اُس
نے اللہ کے ایک سیاہ ہوائ طوفان کی صورت میں اپنی طرف بڑھنے والے یقینی
عذاب کو دیکھ بھی لیا اور اُس وقت انہوں نے اللہ کے سَچے نبی کو اپنے
درمیان موجُود بھی نہ پایا تو وہ پُورے صدقِ دل کے ساتھ اپنے سَچے اللہ کے
سامنے جُھک گۓ اور اللہ نے اُن کو اپنے عذاب سے بچا لیا اور شہر چھوڑنے کے
بعد یُونس علیہ السلام کو جو واقعات پیش آۓ ہیں اُن کا ذکر تو اُس کے
متعلقہ مقام پر کیا جاۓ گا لیکن اِس مقام پر ھم اِس اَمر کی طرف توجہ دلانا
چاہیں گے کہ اللہ کی طرف رجوع کا راستہ اور توبہ کا دروازہ بدترین حالات
میں بھی کُھلا ہوتا ھے اور انسان کو اپنے محدُود علم کے مطابق خود ہی یہ
گمان نہیں کرلینا چاہیۓ کہ اُس پر توبہ کے سارے دروازے بند ہو چکے ہیں اور
توبہ کے دروازے بند ہونے کے بعد اُس کو توبہ کرنے کی ضرورت نہیں ھے بلکہ
اِس خیال کے برعکس ہر انسان کو اِس نا اُمیدی و یاس کے بجاۓ اللہ سے یہ
اُمید اور آس رکھنی چاہیۓ کہ اُس کی معصیتوں پر اللہ رحمتیں ہمیشہ سے ہمیشہ
کے لیۓ حاوی ہیں اور یہ بات بعید نہیں ھے کہ اللہ کو ھماری عاجزی پسند آجاۓ
اور ھماری پر غیر مُستحق جانوں پر بھی اُس کی رحمت برس جاۓ ؎
عجب کیا ھے کہ بیڑا غرق ہو کر پھر اُبھر آۓ
کہ ھم نے انقلابِ چرخ گردوں یوں بھی دیکھے ہیں
|