کلرسیداں ٹریفک سرکل میں اس وقت انچارج سرکل عمران نواب
خان کی قیادت میں ایک بہت اچھی اور محنتی ٹیم کام کر رہی ہے جو ٹریفک کے
بڑھتے ہوئے مسائل کو قابو کرنے میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض نہایت ہی عمدہ
طریقے سے ادا کر رہے ہیں مانکیالہ سے لے کر کلرسیداں شہر اور اس سے آگے کے
تمام چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی انہوں نے ٹریفک کی روانی کو بہتر بنانے اور
اس حوالے سے مسائل کو اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے ٹریفک وارڈنز کی محنتی ٹیم
ٹریفک کے بڑھتے ہوئے مسائل کو ہر لحاظ سے کنٹرول کیئے ہوئے ہے اور ان کی
کوشش ہوتی ہے کہ ڈیوٹی ٹائم کے بعد بھی اپنی زمہ داریوں کو جاری رکھا جائے
تا کہ ٹریفک کے حوالے سے کوئی مسئلہ درپیش نہ آ جائے بعض اوقات رات کو بھی
کوئی نہ کوئی وارڈن کلرسیداں چوک میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں ٹریفک کے بڑھتے
ہوئے مسائل کو ٹریفک وارڈنز کی ٹیم تو کنٹرول کرنے میں اپنا بہترین کردار
ادا کر رہی ہے وہ شہریوں کی شکایات پر فوری ایکشن بھی لیتے ہیں ان کی
دادرسی بھی کرتے ہیں الغرض وہ اپنی بساط کے مطابق اپنے زمے تمام فرائض احسن
طریقے سر انجام دے رہے ہیں جس پر عمران نواب خان اور ان کی پوری محنتی ٹیم
مبارک باد کی مستحق ہے لیکن اس کے ساتھ ہی شہر کے دکانداروں اور عام عوام
کی طرف سے غیر زمہ داری کے مظاہرے قدم قدم پر نظر آ رہے ہوتے ہیں جس کی
جہاں مرضی ہو گاڑی کھڑی کر دی جاتی ہے دکاندار اپنی گاڑیاں اپنی دکانوں کے
باہر کھڑی کر دیتے ہیں خریدار اپنی گاڑیاں جس دکان سے کچھ خریدنا ہو بلکل
اس کے سامنے کھڑی کرنے میں اپنی عزت نفس سمجھتے ہیں شہریوں کی طرف سے اس
غیر زمہ داری کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل حل ہونے کے باوجود بھی حل طلب ہیں
اور اس غیر زمہ داری کی وجہ سے عوام عوام کو سخت مشکلات سے دوچار ہونا
پڑجاتا ہے اور ٹریفک پولیس کی ساری محنت ذائل ہو جاتی ہے وہ کس کس سے لڑیں
اگر دکاندار کو کہتے ہیں کہ گاڑی ہٹاؤ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ بھائی میں نے
تو گاڑی اپنی دکان کے سامنے کھڑی کی ہوئی ہے یہاں سے کون ہٹا سکتا ہے
کلرسیداں میں اس وقت ٹریفک کا بھاؤ بہت زیادہ ہے جو آئے روز بڑھتا جا رہا
ہے اس کے ساتھ ساتھ شہریوں کی طرف سے غیر زمہ داریوں کا سلسلہ بھی بڑھتا جا
رہا ہے جس سے عام عوام پبلک ٹرانسپورٹ اور خاص طور پر ایسی ایمبولینسز جو
مریضوں کو ایمریجنسی میں پہنچا رہی ہوتی ہیں کو سخت دقت کا سامنا کرنا پڑتا
ہے جہاں پر ٹریفک کے مسائل میں اضافہ کی اور بھی بہت سی وجوہات موجود ہیں
وہاں پر ایک سب سے بڑی وجہ یہ بھی پائی جاتی ہے کہ اکثر دکاندار حضرات نے
اپنی دکانوں کے سامنے ریڑھی بانوں کو جہگہ دے رکھی ہوتی ہے جس سے فٹ پاتھ
بند ہو جاتے ہیں اور پیدل چلنے والوں کو مجبورا روڈ پر سے ہی گزرنا پڑتا ہے
جس سے آئے روز حادثات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں بلکل اسی طرح کی صورتحال
چوکپندوڑی میں بھی دکھائی دیتی ہے جہاں پر کلرسیداں اور راولپنڈی جانے والی
گاڑیوں کے سٹاپ عین روڈ پر بنائے گئے ہیں جس سے بھکڑال اور بھاٹہ ہ روڈ سے
آنے والی گاڑیوں کو سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ صورتحال
حادثات میں اضافے کا باعث بھی بن رہی ہے چوکپندوڑی میں بھی وارڈن کبھی ایک
طرف اور کبھی دوسری طرف دوڑ رہے ہوتے ہیں لیکن وہ کہاں اور کس کس کو کنٹرول
کریں ہر ڈرائیور ہر دکانداراور ہر عام شہری ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ پیدا
کرنے میں فخر محسوس کر رہا ہوتا ہے حالانکہ یہ شرمندگی کا باعث ہوتا ہے ہر
کام ٹریفک وارڈنز کی زمہ داری میں نہیں آتا ہے ہماری اپنی بھی کچھ اخلاقی
زمہ داریاں بنتی ہیں جن پر عمل پیرا ہوئے بغیر ٹریفک کے مسائل حل نہیں ہو
سکتے ہیں موجودہ صورتحال میں کلرسیداں سرکاری ہسپتال سے لے کر مرید چوک تک
کا سفر کسی عذاب سے کم نہیں ہے روڈ کے دونوں اطراف گاڑیاں کھڑی ہونے کی وجہ
سے منٹوں کا سفر بہت طویل لگتا ہے کلرسیداں کے منتخب نمائندوں اور سرکاری
انتظامیہ کو اس حوالے سے کوئی پلان ترتیب دینا ہو گا اگر شہر میں موجود
اڈوں کو منگال بائی پاس یا پھر دوبیرن چوک کی طرف شفٹ کروا دیا جائے تو
ٹریفک مسائل میں واضح کمی ممکن ہو سکتی ہے شہر میں صرف اسی گاڑی کو داخل
ہونے دیا جائے جس کی کوئی خاص مجبوری ہو جن گاڑیوں کا شہر سے کوئی واسطہ نہ
ہو ان کو باہر سے جانے کا پابند بنایا جائے وقت طور پر ٹرانسپورٹرز شور
مچائیں گئے لیکن اس کی افا دیت کو دیکھ کر سب ٹھیک ہو جائے گا اگر اس اہم
مسئلے پر دھیان نہ دیا گیا تو بہت جلد شہر سے گزرنا جان جوکھوں کا کام بن
جائے گا اور ٹریفک کا مسئلہ ایک گھمبیر صورتحال اختیار کر جائے گا جو کسی
کے کنٹرول سے بھی باہر ہو جائے گی
|