تن کو ڈھانپنے کے لیے، کپاس کو ناپنے کے لیے، اقتدار کی
حصولی کے لیے آخر کتنا گرے گے ہم اور کب تک گریں گے. یہ کہاں جا رہے ہیں ہم
کس سمت بڑھ رہے ہیں کس نے ہمیں ان باتوں کا درس دیا ہے کون سکھا رہا ہے اور
اگر کوئی سکھا بھی رہا ہے تو ہماری اپنی عقل کہاں ہے کیا یہ اخلاقیات
سکھائی ہیں ہمیں. کیا قرآن میں یہ بات نہیں بتائی گئی کہ ہم نے تمہیں دو
راستے دکھا دئیے اور ان کے نفع ونقصان سے بھی آگاہی دے دی اب یہ تم پر ہے
کہ صحیح راستے کا چناؤ کرو یا غلط. لیکن ہم نے غلط راستہ ہی کیوں اختیار
کیا ہے ہم کیوں اس بات سے منکر ہیں کہ اخلاقیات کا درس سب سے اول ہے کیوں
ہم اسلامی نظریہ کو جھٹلا چکے ہیں. سوشل میڈیا جو میری نظر میں پہلے ہی
فتنہ تھا جس پلیٹفارم پر کوئی حدود کوئی اصول نہ لاگو ہوں وہاں فحاشی عام
ہوتی ہے.میرا تذکرہ ان فحاش اور نازیبا الفاظ کا ہے جو ٹویٹر پر ٹرینڈ کی
زینت بنے ہوئے ہیں. کتنی ہم اپنی تذلیل عالمی اور قومی سطح پر کروائیں گے
کیا درس دیں گے آنے والی نسلوں کو. ایسی تنظیموں کا کیا فائدہ جنہوں نے
سیاست کو بازار سمجھ لیا ہے. میں کسی سیاسی پارٹی کے حق میں نہیں لیکن یہ
حرکات قابل برداشت نہیں ہیں. کسی عورت کی عزت مجروح کرنا سیاست کی آڑ میں
ایسے الفاظوں کا چناؤ کرنا جن کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی آدمی شرمسار ہو جائے
یہ ہم کہاں جا رہے ہیں. یہاں بات جنسیت کی نہیں انسانیت کی ہے گالی مرد کو
دی جائے یا عورت کو ایک برابر ہوتی ہے اور پھر جب پڑھے لکھے لوگ یہ کارنامہ
سراہیں تو انجام بھیانک ہوتے ہیں. جس ملک میں گالی دینے کو، عزت نفس مجروح
کرنے کو ٹرینڈنگ بنایا جائے تو وہ ذلیل و خواری کے لیے بھی تیار رہے دنیا
میں بھی اور آخرت کی اس عدالت میں بھی جہاں جیت صرف انصاف کی ہو گی انسان
ہونا ہمارے اختیار میں نہیں لیکن انسانیت کو اپنے اندر بناے رکھنا ہمارا
انتخاب ہے. اللہ تعالیٰ نے تو ویسے ہی فرما دیا ہے کہ حقوق اللہ تو معاف ہو
سکتے ہیں لیکن حقوق العباد نہیں اور پھر دنیا کا کون سا مزہب کسی کی عزت
نفس مجروح کرنے کا درس دیتا ہے آپ بائبل لےلیں گیتا بھگت اٹھا لیں ہر مزہب
کا پہلا باب اخلاقیات اور انسانیت پر ہی مبنی ہے. کیوں ہم اخلاقی گراہوٹ کا
شکار ہیں انسانیت کا تقاضا ہے کسی کو گالی مت دو کیونکہ جب رب پردے عیاں
کرتا ہے تو پردہ پوشی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا. یہ سیاسی جماعتیں اپنے
حساب سے چلتی ہیں کسی سے ملتی ہیں کسی کو گراتی ہیں آپ لوگوں سے درخواست ہے
سپورٹ ضرور کریں لیکن ایسے فحاش ہتھ کنڈوں کو طول نہ دیں. کیوں ہم بکنے کو
تیار ہیں اور ایسی بکائی کے لیے جس کا ہمیں کوئی معاوضہ بھی نہ ملنا ہو.
ایسی چیزوں کو معاشرے کا حصہ نہ بنائیں نسلوں کی تباہی ہے. ہمارے گھروں میں
بھی مائیں، بہنیں، بیٹیاں ہیں اور ہر وہ عورت جس کے پاس پاکستان کی شناخت
ہے وہ قوم کی بیٹی ہے. اختلافات اپنی جگہ لیکن عزت کی پاسداری معاشرے کا
پہلا اصول ہے اور سب کی عزت سانجھی ہوتی ہے. ایسی گالی گلوچ، عزتوں کے
جنازے جب اسلامی معاشرے میں اٹھتے ہیں تو انسان کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے
ضمیر نہیں کانپتے یہاں زمین کانپ اٹھتی ہے.
|