دسمبر اُداسیوں کا استعارہ ہے، زندگی قطرہ قطرہ
پگھل گزر رہی ہے، مہینے ایک ایک کر کے آتے اور چلے جاتے ہیں، نظامِ زندگی
ہے کہ بِنا کسی تعطل کے چلا جا رہا ہے ، نہ جانے یہ دسمبر ہی اُداس کیوں کر
جاتا ہے؟ شاید اس لئے کہ دسمبر کا آخری دن اُسی سال کا بھی آخری دن ہی ہوتا
ہے۔ عمر اور زندگی میں عجیب فرق ہے، سال بہ سال حضرت انسان کی عمر بڑھتی
جاتی ہے اور ہر سال گزرنے کے ساتھ زندگی گھٹتی جاتی ہے۔ہم عاقبت نااندیش
لوگ اپنی سالگرہ بہت ہی اہتما م سے مناتے اور مبارک بادیں وصول کرتے ہیں۔
اب تو ایسا نہ بھی کریں تو اپنی ’فیس بُک‘ سالگرہ کا دن احباب کے سامنے پیش
کرتی اور مبارک بادوں کی دعوت دیتی ہے، یوں چاہے نہ چاہے ایک سماں سا بندھ
ہی جاتا ہے۔ اِس تلخ حقیقت کو رہنے دیجیے کہ یہ موقع خوشی کا نہیں اُداسی
اور پریشانی کا ہوتا ہے، کہ عمرِ عزیز کا ایک سال اور کم ہوگیا، یہی کچھ
دسمبر میں بھی ہوتا ہے۔ انسان کی زندگی میں قدم قدم پر سنگِ میل ہیں، سیکنڈ
سے لے کر برس تک اور سال سے لے کر صدی تک، مگر انسانی زندگی کے حساب میں سب
سے اہم پیمانہ سال ہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر سال کے ختم ہونے پر اُداسی
گھیرا تنگ کر دیتی ہے۔
سالِ گزشتہ کی یادیں بھی انسان کو اپنے ٹھٹھرتے شکنجوں میں جکڑ لیتی ہیں،
سردیوں کی قید کر دینے والے روز و شب میں انسان سال بھر کی اپنی کارکردگی
پر نگاہ ڈالتا ہے، کامرانیوں پر شاد ہوتا ہے، بسا اوقات تنہائی میں مُسکرا
بھی دیتا ہے، اور اپنی ناکامیوں پر دِل گرفتہ اور پریشان ہو جاتا ہے، کبھی
ناکامی حسرت بن کر اُس کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے اور کبھی مایوسی اُسے بَد
دِل کر دیتی ہے۔ وہ شدید سردی کے ماحول میں کوئلوں سے دہکتی انگیٹھی سے
اٹھنے والی چنگاریوں کو دیکھتا اور خیالوں میں گُم رہتا ہے، جب کوئی کوئلہ
چٹختا ہے تو اُس کے تخیلات کا تسلسل ٹوٹتا ہے، یوں خیال سے خیال نکلتے ہیں،
اور گزرے وقت کی باتیں کسی ترتیب کے بغیر یاد آتی رہتی ہیں۔ جہاں دسمبر میں
اداسیاں اپنا جال بکھیرے رکھتی ہیں، وہیں آخر میں انسان اپنی ناکامیوں کو
کامیابیوں میں تبدیل کرنے، نئے منصوبے بنانے، نئے جوش اورولولے سے کام کرنے
کے بارے میں بھی سوچتا ہے، جو کمزوریاں سال بھر میں رہ گئی تھیں، اُن سے
سبق سیکھ کر اب مزید محنت، مزید عزم و ہمت سے کام کرنے کا ارادہ باندھتا
ہے۔ یہی کامیابی کا لمحہ ہوتا ہے، اگر ناکامی سے انسان مایوس ہوگیا تو کوشش
ہی رُک گئی، اور اگر ہمت نہ ہاری تو کامیابیان قدم چومنے کے لیے ہمیشہ تیار
رہتی ہیں۔
دسمبر سال کا آخری مہینہ ہونے کے ناتے ہی اہم نہیں، تاریخ میں بھی اِس کے
اثرات بہت گہرے اور نمایاں ہیں۔ یہی مہینہ ہے، جس میں بانی پاکستان قائد
اعظم محمد علی جناح ؒ کی ولادت ہوئی، پچیس دسمبر کو قوم ہر سال اُن کا یومِ
پیدایش عقیدت واحترام سے مناتی اور اس حوالہ سے تقریبات وغیرہ کا اہتمام
کرتی ہے۔ یہی وہ دن ہے جب پوری دنیا کی طرح پاکستانی مسیحی برادری بھی حضرت
عیسٰی ؑ کے یومِ ولادت کے موقع پر کرسمس کا تہوار مناتی ہے۔49برس قبل اِسی
مہینے کی سولہ تاریخ کو پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن طلوع ہواتھا، جب
ہمارے ملک کا ایک بازو ’مشرقی پاکستان‘ بھارت سے جنگ کے نتیجے میں ہم سے
الگ ہوگیا تھا۔ بعد ازاں وہ ’’بنگلہ دیش‘‘ کہلوایا۔ ستم بالائے ستم یہ ہوا
کہ اپنی نئی نسل اس سانحے یا صدمے سے بخوبی آگاہ ہی نہیں، نہ اُسے آگاہی
دینے کا اہتمام کیا گیا، نہ ہی معقول وجوہات و اسباب کی خبر اُنہیں دی گئی،
مزید ستم یہ ہوا کہ بحیثیت قوم کوئی سبق حاصل نہیں کیا گیا۔ آج سے چھ سال
پہلے پشاور آرمی پبلک سکول میں سیکڑوں بچوں کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیا
گیا تھا، جس سے پوری قوم پر سَکتے کی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔ دہشت گردوں کی
بے حسی کا یہ منہ بولتا ثبوت تھا، جس کی ہر سطح پر مذمت کی گئی۔
دسمبر اپنے مخصوص موسم، دُھند، رِم جھِم جھڑی اور سرد ہواؤں کی وجہ سے بھی
کشش رکھتا ہے، جہاں گرم کپڑے، لحاف، خشک میوہ جات، اور چائے قہوہ کی بات
ہوتی ہے، وہیں اُداسیاں بھی آن پہنچتی ہیں۔ اِس طرح مختلف ماحول اور
معاملات آپس میں گڈ مَڈ ہو جاتے ہیں۔ موسمی شِدت کی وجہ سے سردیوں کی
چھٹیاں بھی دسمبر میں ہی ہوتی ہیں، چنانچہ بچے سردیاں آتے ہی دسمبر کا
انتظار شروع کر دیتے ہیں۔ دسمبر اپنے خوبصورت اور منفرد موسم کی وجہ سے
شاعروں کا بھی محبوب موضوع ہے، جہاں شعراء نے سانحہ مشرقی پاکستان پر اپنے
جذبات کو شعروں میں ڈھالا ہے، اور سانحہ اے پی ایس پر نظمیں لکھی ہیں، وہیں
برفیلے موسم ، بارش، دھند ، ٹھنڈی ہوا اور اُداسیوں کے موضوعات پر بھی
شاعروں نے طبع آزمائی کی ہے۔ دسمبر آتا ہے توا نسان کے احساسات کو چھُو کر
گزر جاتا ہے۔ گزرے سال کی یادیں، ناکامیوں پر مایوسیوں کے ڈیرے، کامیابیوں
پر خوشی کی لہر، سال بھر کچھ نہ کر سکنے کی حسرت، آنے والے سال کچھ کر
گزرنے کا جذبہ۔ تاریخ کے جبر اور خوشگوار تاریخی واقعات۔ سب کچھ کے ساتھ
دسمبر اجتماعی طور پر اُداسیوں کا استعارہ ہے، یہ ہر سال ہمیں ماضی کی یاد
دلاتا اور مستقبل میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
|