صدائے حق۔۔۔حق ہے میاں!

’’جس طرح کسی ملک و قوم کی ترقی کے لیے روٹی،کپڑا ،مکان اور روزگار ضروری ہے اسی طرح وقت کے تقاضوں کے ساتھ اس ملک کا دفاع بھی ناقابل تسخیر ہونا ضروری ہے‘‘۔یہ وہ جملہ ہے جس نے میرے فوجی والد محترم کو اس کتاب کے پڑھنے کی طرف رغبت دی،اور اس پہ انہوں نے خوبصورت جملہ کہا کہ’’ملک کا دفاع جیسے علی نے بتایا ضروری ہے،مگر روٹی کپڑے اور مکان سے بھی پہلے دفاع وطن اہم ہے ،اک لکھاری بھی اپنے وطن کا جانباز سپاہی ہوتا ہے جو ہمہ وقت کسی نہ کسی محاز پہ وطن کے دفاع کے لیے تیار رہتا ہے ۔علی بھی ایک اچھا سپاہی ہے ‘‘۔اور یہ وہ جملہ ہے جس نے مجھے اس کتاب پہ تبصرہ لکھنے پہ مجبور کیا،ایم ایم علی کی یہ کتاب ’’صدائے حق‘‘ واقعی حق کی آواز بلند کرتی محسوس ہوتی ہے۔

ایم ایم علی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں،آل پاکستان رائٹرزویلفیر ایسوسی ایشن کے روح رواں،حلیم،نفیس،مجاہدخیبر کی سی دھار رکھنے والا ایم ایم علی جس کا قلم مذہب،سیاست،سماج،قانون غرضیکہ ہر موضوع پہ بے باکی سے رواں دواں ہے،اک مایہ ناز لکھاری ہے۔مذکورہ کتاب ان کے کالمز کا مجموعہ ہے،یہ شاہکار کتاب ان کے صحافتی ورثے کی سی حثیت رکھتی ہے،اس میں شائع شدہ کالمز کی تعداد تریپن ہے اور یہ تحریریں ان کے قومی و علاقائی سطح پہ شائع شدہ کالموں کی کریم ہیں۔

کتاب کا انتساب ہر اچھے بیٹے کی طرح ایم ایم علی نے اپنے والدین کے نام کیا ہے ۔ساتھ کلام پاک کی آیت لکھ کر انہوں نے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے اﷲ سے دعا کی ہے کہ اے اﷲ !ان پہ رحم و کرم فرما جیسے کہ بچپن میں انہوں نے مجھ پہ شفقت کی۔کتاب میں شامل ان کا تعارف ان کے یار غار اور اپووا کے سرگرم رکن حافظ محمد زاہد نے خوبصورتی سے بیان کیا ہے اور کوزے میں دریا کو بند کرنے کا فریضہ انجام دیا ہے،وہ لکھتے ہیں کہ’’علی نے جس بھی کام کا ارادہ کیا تو اسے پوری دل جمعی اور آب و تاب کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچا کر دم لیا‘‘۔اس کی بہترین مثال اپووا(آل رائٹرز پاکستان ویلفئیر ایسوسی ایشن)ہے۔علی اک کالم نگار ہی نہیں بلکہ اک اچھے لکھاری ،شاعراور اینکر پرسن بھی ہیں اور انہوں نے ہر میدان میں اپنا جوہر بھرپور انداز میں دکھایا ہے۔اس کتاب پہ تبصرہ کرتے ہوئے معروف کالم نگار مجیب الرحمن شامی نے انہیں جذبات طبعی قرار دیا ہے اور اہل قلم کی دستگیری ان سے منسوب کرتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر اجمل خان نیازی(جن کی میرے ساتھ شفقت کسی سے چھپی نہیں،جب بھی تلہ گنگ آتے ہیں ،مجھ سے لازمی ملنے دفتر تشریف لاتے ہیں)کا اس کتاب میں ایم ایم علی کے بارے تبصرہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی،انہوں نے علی کو اک درد مندکالم نگار قرار دیا۔اس کے علاوہ جاوید اقبال،گل نو خیز اختر،شاہد نذیر،ون اینڈ اونلی بہت ہی پیارے انسان زبیر احمد انصاری،چوہدری غلام غوث،ناہید نیازی اور مقدس اعوان کے تبصرے بھی اس کتاب کی زینت ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ علی کا لکھا ہوا اک اعلی سنجیدہ طبقہ پڑھتا ہے اور اسے حساسیت کی انتہا پہ جا کر سوچتا بھی ہے۔

حمد باری تعالی اور نعت رسول مقبول ﷺ کے بعد اس کتاب کو دس بابوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے باب میں حب رسول ﷺ،عید میلاد النبی ﷺ،ماہ صیام،شریعت اور قانون اور اسلام اور عورتوں کے حقوق کالمز ہیں۔اس سے علی کی مذہبی عقیدت اور وسعت مطالعہ کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔وہ اپنے خیالات میں شدت پسندی کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ قرآن و سنت کے ساتھ دور حاضر کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دلیل سے بات کرتے ہیں۔اک اچھے لکھاری کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔دوسرا باب امت مسلمہ کا نوحہ ہے،دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی دیکھیے،مسلمان ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں۔علی امت مسلمہ کی حالت زار پہ نہ صرف خود کڑھتے ہیں بلکہ کشمیر،برما،غزہ جیسی حساس ریاستوں پہ ڈھائے جانے والے مظالم پہ احتجاج کے ساتھ ساتھ ملت کو جھنجھوڑنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں ۔تیسرے باب کا نام فلاح انسانیت ہے۔اس باب میں’’ چمن کے پھول،بچوں کا اغوا،پیاسے تھر میں موت کا راج،ان پھولوں کو کھلنے دو،خدمت انسانیت سے سرشار لوگ ‘‘کالمز شامل ہیں۔اس باب میں بچوں سے علی کی بے پایاں محبت،دردمندی اور تھر کے مظلوم لوگوں سے ہمدردی دیکھی جاتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ بے حد محبت سے ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو اپنی ضروریات پہ دوسروں کو ترجیع دیتے ہیں۔اس کالم میں انہوں نے عبد الستار ایدھی اور حافظ محمود نامی لڑکے کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں شاندار خراج تحسین پیش کیا ہے۔اک میاں بیوی کے جذبہ ایثار کی تعریف کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ زندگی دوسروں کے لیے جینے کا نام ہے۔

قدرتی آفات اس کتاب کا چوتھا باب ہے جس میں علی نے ملک میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات اور آتشزدگی کے واقعات،سیلاب،زلزلہ،سموگ جیسے شدید مسائل کی طرف انگلی اٹھائی ہے اور ارباب اختیار کی توجہ ان کی طرف مبذول کروائی ہے۔اسی طرح چوتھے باب تعمیر وطن میں انہوں نے تعلیم،روٹی کپڑااور روزگار جیسے بنیادی مسائل کے ساتھ ساتھ یوم تکبیر پہ بھی خوب لکھا ہے۔بجلی کے بحران اور اس کے سد باب کی تجاویز دی ہیں،اور اس کے ساتھ ساتھ سابقہ و حالیہ وزرائے اعظم کا دورہ چین کالم میں علی نے اپنے قلم کا بالکل درست اور حقائق پہ مبنی لہجے کے ساتھ کیا ہی استعمال کیا ہے۔
عدل و انصاف کا قیام اس کتاب کا چھٹا باب ہے ۔اس باب میں علی اپنے روائتی انداز سے ہٹ کر اک ایسے شریف انسان کے روپ میں نظر آتے ہیں جو ظالم کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا ہے اور ساری بزدلی کو پس پشت ڈال کر بھڑ جاتا ہے۔ایم ایم علی بہت نرم مزاج جذبوں کا خالق ہے لیکن اس باب میں اک بھرپور احتجاجی انداز کے ساتھ سامنے آتا ہے۔وہ ’’اندھا قانون‘‘ لکھتے ہوئے اداروں کی ٹھیک ٹھاک چھترول کردیتا ہے،’’ہمارے ملک کا قانون اور کلچر‘‘لکھتے ہوئے پسے ہوئے طبقے کا سارا درد انڈیل دیتا ہے ،اور ’’انصا ف میں عظمت اور ناانصافی میں بربادی‘‘ لکھتے ہوئے علی کا قلم یقینا لہو رنگ اپناتا رہا ہے ۔وہ سانحہ ساہیوال کو ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال لکھتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ واقعے کے ذمہ داران کو کڑی سزا دی جائے لیکن یہ واقعہ بھی بدنما دھبے کی طرح آج بھی معاشرے کی بے حسی اور ریاستی اداروں کی نااہلی پہ سیاہی کی طرح دکھ رہا ہے۔ساتواں باب دہشت گردی کے خلاف جنگ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔گیارہ ستمبر اور سانحہ آرمی پبلک سکول پہ حملے کی دل خراش داستان پڑھتے ہوئے ہر درد مند کا دل ہولتا ہے،سانس ڈولتا ہے۔تاحال یہ دکھ قوم کا سینہ چیرتا ہے۔

بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے جس کی چیرہ دستیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔بنئیے کی قوم اپنی بزدلی،مکاری،بے حیائی،بے حمیتی اور بدترین سازشی چہرے کی وجہ سے کسی سے چھپی نہیں۔پاکستان میں دہشت گردی بھارت سرکار کا شاخسانہ ہے،اور آج تک ہونے والے دہشت گردی کے نناوے فیصد واقعات مودی سرکار کے ماتھے کا کلنک ہیں،آٹھواں باب علی نے بھارتی سینا کے منہ پہ زوردار تمانچے کی صورت جمع کیا ہے اور اس میں بھارتی کرتوتوں کی لسٹ کھول کے دنیا کے سامنے رکھ دی ہے۔بدنام زمانہ’’را ‘ جو ہمارے مارخوروں کے سامنے بھیگی بلی بن جاتی ہے لیکن اپنے کالے کرتوتوں سے باز نہیں آتی،در حقیقت ایک دہشت گرد ایجنسی ہے ۔

نواں باب سیاست کے موضوع پہ ہے ۔اس باب میں بارہ کالمز میں ایم ایم علی نے اک باشعور شہری کی طرح اپنے خیالات کی وسعت آزمائی ہے۔انہوں نے حالات حاظرہ سے لے کر سیاسی اتار چڑھاؤ میں عوامی نمائندوں کے کردار تک کو پوری ایمانداری سے کھنگالا ہے۔وہ ایوان بالا کے سارے زیریں راز وں پہ بات کرتے ہیں۔اس حصے میں وہ اقتدار کی جنگ میں شامل جنگجوؤں کی کئی بار کلاس لیتے نظر آتے ہیں،عوامی رائے دیتے ہوئے عام آدمی کی ترجیحات بیان کرتے ہیں،عدل و انصاف اور سیاست کے ٹکراؤ میں وہ اک اچھے شہری کی حثیت سے عدلیہ کو صراط مستقیم پہ کھڑے کر کے ان کے ہم قدم ہونے کی آرزو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

آخری باب میں انہوں نے پاکستان کی مایہ ناز شخصیات کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔اس حصے میں قائداعظم،زوالفقار علی بھٹو،جنرل محمد ضیاء الحق،بے نظیر بھٹو،میاں محمد نواز شریف،عمران خان جیسی سیاسی شخصیات پہ مضامین ان کے سیاسی طور پہ نیوٹرل ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں جو اک اچھے لکھاری کی پہچان ہے۔عبد الستار ایدھی جیسے درویش کا تذکرہ انتہائی محبت اور عقیدت سے لکھتے ہی جن کی دو آنے کی محبت زندگی کا سفر ختم ہونے پہ دو آنکھوں کی صورت عطیہ دیتے ہوئے سمٹ جاتی ہے لیکن کبھی زوال پزیر نہیں ہوتی۔آخری کالم انصاری متحدہ موومنٹ کے روح رواں اور اپووا کے سرپرست اعلیٰ زبیر انصاری پہ ہے جو اپنی نفیس طبیعت،ادبی زوق اور حلیمی کی بنا پہ ہر اچھے لکھاری کے لیے آئیڈئل کا درجہ رکھتے ہیں۔

ایم ایم علی اک اچھے لکھاری ہی نہیں اک اچھے انسان بھی ہیں۔ان کی تحریروں میں محبت،خلوص،عشق،انسانیت،درد،سچی خوشی اور سچا ساتھ موجود ہے جو قاری کو اپنے سحر میں لے لیتا ہے اور تادم آخر قاری کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ان کے مضامین میں عقیدت کے ساتھ حقیقت کا جذبہ موجزن ہے جو انہیں اک کامیاب لکھاری کے طور پہ متعارف کروادیتا ہے۔اپووا کے لیے یہ باعث فخر ہے کہ ایم ایم علی جیسے مایہ ناز لکھاری ان کی رہبری کے لیے ساتھ کھڑا ہے جب کہ علی جیسے بھائی کی محبت کا ساتھ میرے لیے بھی اعزاز کی بات ہے تب ہی تو میرے فوجی والد محترم نے ایم ایم علی کی تحریر کو محبت قرار دیا ہے۔مجھے یقین ہے کہ علی کی صدائے حق کبھی رائگاں نہیں جائے گی کیوں کہ حق کی صدا ہمیشہ زندہ و جاوید رہتی ہے۔’’صدائے حق ‘‘اپووا کے زیر اہتمام شائع کی گئی ہے۔دو سو آٹھ صفحات پہ مبنی یہ کتاب ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔حیرت انگیز طور پہ اس کی قیمت صرف تین سو رکھی گئی ہے جب کہ بہترین کتابت،بہترین کاغذ اور بہترین ٹائٹل کی حامل ا یم ایم علی کی یہ کتاب قیمت کے حساب سے غیر معمولی ہے۔’’صدائے حق ‘‘صحافتی طلباء کے لیے بہترین رہنماء کتا ب ہے۔یہ کتاب ہماری درسی و معاشرتی ضروریات کے لیے دنیائے ادب میں قابل قدر اضافہ ہوگی۔


 

Nimrah Malik
About the Author: Nimrah Malik Read More Articles by Nimrah Malik: 2 Articles with 3226 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.