ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ لوگ مرتے رہتے ہیں، کبھی
ہمیں ٹیلی ویژن اور اخبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بم دھماکے ، ٹارگٹ
کلنگ، کسی ٹریفک کے حادثے یا کسی اور وجہ سے لوگ مرگئے ہیں۔ کبھی کبھی
ہمارے کسی رشتے دار کا انتقال ہوجاتا ہے اور کبھی ہمارا کوئی بہت قریبی
عزیز(ہمارے والدین، اولاد، شوہر یا بیوی) ہمیں روتا تڑپتا چھوڑ کر اس دنیا
سے رخصت ہوجاتا ہے۔ ہمیں غموں کے اندھیروں میں دھکیل کر ۔ ہم قبرستان جاتے
ہیں، آہوں اور سسکیوں میں اسے رخصت کرتے ہیں ۔ مگر شاید ہی ہمیں کبھی خیال
بھی آتا ہو کہ ہمیں بھی کبھی مرنا ہے۔ اور اسی طرح قبر میں لیٹنا ہے۔ جس
طرح ہم اپنے عزیز ترین رشتے دار کو اندھیری قبر میں دفنا کر آئے ہیں۔
ہم زندگی کی رنگینیوں ، بے پناہ مصروفیات اور روزمرہ کے کاموں میں بھول
جاتے ہیں کہ جس طرح ہمارے والدین ، ہمارے بھائی بہن اور دوسرے رشتے دار
اورساتھی اس دنیا سے رخصت ہوئے ، ایک دن ہمیں بھی جانا ہے۔ اگر اتفاق سے
کبھی کوئی کسی کو موت یاد کرا بھی دے تو بہت بے زاری سے کہتے ہیں کہ کیسی
باتیں کرتے ہو ؟ابھی میرا مرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ یہ ہے موت کے بارے میں
ہمارا رویہ ۔
ایک ایسی حقیقت ، جو روزِ روشن کی طرح عیاں او ر جس کا مشاہدہ بھی ہم کرتے
رہتے ہیں، اس کی طرف سے اتنی غفلت ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کی رنگینیوں
اور اس کی بے پناہ مصروفیات میں کھوجانے کے بعد یہ حقیقت ہماری نظروں سے
اوجھل ہوجاتی ہے کہ زندگی کا سفر بہت تیزی کے ساتھ موت کی طرف رواں دواں ہے۔
ایک دن اچانک موت کا فرشتہ آپہنچے گا اور ہمیں ایک لمحے کی مہلت نہ دے گا۔
ضروری نہیں کہ صرف بڑھاپے میں موت آئے گی یا کسی موذی بیماری یاحادثے کی
وجہ سے۔ موت کسی بھی لمحے آسکتی ہے۔ کیونکہ ہر ذی روح کو موت کا مزا چکھنا
ہے اور اس سے فرار کسی صورت ممکن نہیں۔ اس حوالے سے قرآن پاک کی بعض آیات
کے ترجمے ملاحظہ ہوں:
٭ ہر مُتَنَفّسِ کو مو ت کا مزا چکھنا ہے، پھرتم سب ہماری طرف ہی پلٹا کر
لائے جاؤ گے۔ (العنکبوت۔ ۵۷)
٭ رہی موت ، تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمھیں آکر رہے گی، خواہ تم کیسی
ہی مضبوط عمارتوں میں ہو۔ (النساء ۔ ۷۸)
٭ جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تو تمھیں آکر رہے گی۔ پھر تم اس کے سامنے پیش
کئے جاؤ گے جو پوشیدہ و ظاہر کا جاننے والا ہے، اور وہ تمھیں بتا دے گا کہ
تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔ (سورۃ الجمعہ ۔ ۸)
٭ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس
کی جان نکال لیتے ہیں اور اپنا فرض انجام دینے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتے ،
پھر سب کے سب اﷲ، اپنے حقیقی آقا کی طرف واپس لائے جاتے ہیں۔ (الانعام ۔
۶۲)
٭ جب کسی کی مُہلتِ عمل پوری ہونے کا وقت آجاتا ہے تو اﷲ اُس کو ہرگز مزید
مہلت نہیں دیتا، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اﷲ اس سے باخبر ہے۔ (سورہ
المنٰفقون۔ ۱۱)
آقائے دوجہاں ﷺ نے بھی اس امر کی تعلیمات دی ہیں کہ ہمیں ہر لمحہ اپنی موت
کو یاد رکھنا چاہئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے
فرمایا کہ لوگو ! موت کو یاد کرو اور یاد رکھو، جو دنیا کی لذتوں کو ختم
کردینے والی ہے ۔ (جامع ترمذی، سنن نسائی، ابن ماجہ)
حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ایک دفعہ میرا مونڈھا
پکڑا اور مجھ سے فرمایا کہ دنیا میں اس طرح رہو کہ جیسے کہ تم پردیسی اور
راہ چلتے مسافر ہو اور حضورؐ کی تعلیمات کا اثر تھا کہ ابن عمرؓ نصیحت
فرمایا کرتے تھے کہ جب شام آئے تو صبح کا انتظار نہ کرواور جب صبح ہو تو
شام کا انتظار نہ کرو(نہیں معلوم کہ زندگی رہے نہ رہے) اور تندرستی کی حالت
میں بیماری کیلئے اور زندگی میں موت کیلئے کچھ کمائی کرلو ۔ (صحیح بخاری)
لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ موت کو اتنا یاد کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟جب آنی ہوگی،
دیکھی جائے گی۔ایسے لوگ ماحول سے متاثر ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے آس پاس
کے لوگوں کو اس کی کوئی پرواہ ہی نہیں اور وہ بس دنیا ہی کے ہوکر رہ گئے
ہیں تو وہ بھی بے فکر ہوجاتے ہیں۔
مو ت کو یاد کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اﷲ کے احکام پر عمل کرنے اور
گناہوں سے بچنے کیلئے کوئی تو ایسی چیز ہو ، جو انسان کو عمل پر ابھار سکے
یا قوت محرکہ کا کام کرسکے۔ موت کی یاد ہمیں اس کیلئے تیار کرتی ہے ۔ اسی
حوالے سے اﷲ عزوجل کا ارشاد ہے :
٭ جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں
سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ (سورہ الملک ۔ ۲)
دراصل زندگی اور موت اورجینے اور مرنے کے سلسلے میں بنیادی حکمت یہ ہے کہ
انسان کو اپنی زندگی غفلت میں گزارنے کے بجائے ہر لمحے عمل کرتے رہنا
چاہئے۔اپنے ربّ کی مرضی کو پہچان کر ایسے کام کئے جائیں، جن سے ربّ راضی ہو
اور ان کاموں سے بچاجائے ، جن سے ربّ ناراض ہوجائے۔ کیونکہ دنیا مزے کرنے
کی نہیں ، امتحان کی جگہ ہے۔ جیسے ایک طالبعلم کو کمرے امتحان میں مختصر سی
مدت میں پرچہ حل کرنا ہوتا ہے۔ ایک خاص مہلت کے بعد اس سے پرچہ واپس لے لیا
جاتا ہے ۔ یہی کیفیت زندگی کی ہے۔ زندگی کی مدت ختم ہونے کے بعد ایک لمحہ
کی مہلت نہیں دی جاتی۔ اسلئے اس مہلت کے ختم ہونے سے پہلے ہمیں کوئی بھی
لمحہ ضائع کئے بغیر اپنے ربّ کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہئے۔
کسی دانا نے کیا خوب کہا تھا کہ زندگی برف کی طرح ہے، جو تیزی سے پگھل رہی
ہے اور ختم بھی ہوجائے گی۔ میری اپنے تمام مسلمان بہنوں اور بھائیوں سے
دردمندانہ اپیل ہے کہ اس مہلت کے ختم ہونے سے پہلے عمل کے میدان میں نکلیں۔
یہ نہ سوچیں کہ ابھی فرصت نہیں ، کل سے یا آئندہ جمعہ کے مبارک دن سے عمل
شروع کریں گے۔زندگی کا کیا بھروسہ ؟؟ کل تو بہت دور ہے، شاید اگلے ہی لمحے
ہماری مہلت عمل ختم ہونے والی ہو اور موت ہماری منتظر ہو۔
|