سانحہ پشاورکے ڈرنے آج تک ہمارے دل کو دہلایاہواہے سانحہ
ساہیوال ایساواقعہ ہے جس میں معصوم بچوں کونشانہ بنایاگیاتھاجس کی سفاکی
بربریت اوبے رحمی سے معصوموں کاخون بہایاگیاتھاسوال یہ پیداہوتاہے کہ سانحہ
پشاور16دسمبرکاہی انتخاب کیوں کیاگیا16دسمبرجسے سقوط مشرقی پاکستان کے
حوالے سے سوگوارکیفیت میں گزاراجاتاہے میرے ذہن میں تب سے ایک ہی سوال تھا
کہ کیا16دسمبرمحض اندرونی دشمنوں کی سازش تھی یاپاکستان کوعالمی قوتوں
کابھیانک پیغام؟قارائین یادہوگاکہ2004میں بسلان،روس میں ایساہی ایک خوفناک
واقعہ پیش آیاجس میں شدت پسندوں نے سینکڑوں سکول کے بچوں کویرغمال
بنایاتھااوریکم ستمبرکے دن کاانتخاب کیاجوکہ روس میں موسم گرماکی چھٹیوں کا
پہلادن ہوتاہے جس میں بچوں کے ساتھ ان کے والدین بھی تقریبات میں شامل ہوتے
ہیں مگرسانحہ پشاورپرغورکریں تویہ اس سے ہٹ کے ہے کیونکہ سکول میں بچے
سوموارکوزیادہ تعدادمیں ہوتے ہیں مگراس دن 15دسمبرتھا مگرپاکستانی دشمنوں
نے 16دسمبرکاہی انتخاب کیا۔ہم کسی بچے کوتھپڑبھی ماریں توسارادن دل
دہلتارہتاہے اوجسم پرکپکپی نہیں جاتی مگردہشت گرسب سے پہلے رحم کالفظ حذف
کرتے ہونگے جویہ نہیں دیکھتے کہ آگے بچے ہیں بوڑھے یارمردعورت انہیں صرف
مقتل گاہ بنانی ہوتی ہے۔ نائن الیون سے پہلے ٹارگٹ کلنگ کوترجیح دی جاتی
بعدمیں شاپنگ ، سکولوں،پلازوں ،دفاتراوربازاروں کے حملوں اضافہ ہواہے ایک
رپورٹ کے مطابق ایسے حملے جس میں سکول کے بچے ہلاک ہوئے 18مئی 1927کوامریکہ
میں سکول پرفائرنگ کرکے 46ہلاکتیں کی گئی 11اپریل 1974کواسرائیل میں بچوں
کی رہائشی بلڈنگ پرحملہ کرکے 18ہلاکتیں کی گئیں ۔ڈوجیوٹی
میں3فروری1976کوسکول بس پرحملہ کرکے 36بچے ہلاک ہوئے۔برطانیہ میں 11مارچ
1996کو سکول پرحملہ کرکے 18بچوں کوہلاک کردیاگیا۔کینیامیں 26مارچ2001میں
سکول پرحملہ کرکے 67بچوں کوہلاک کردیاگیا۔8جون 2001جاپان میں سکول بچوں
پرچاقو کے حملے سے 8بچے ہلاک کردیے گئے ۔26اپریل 2002کوجرمنی میں سکول
فائرنگ سے 17بچے ہلاک ہوئے تھے ۔روس میں 9مئی2002کوسکول پرحملہ کرکے 43بچے
ہلاک کیے گئے تھے ۔دوسال کے قلیل عرصہ بعد پھرروس
پرقہرٹوٹااور3ستمبر2004میں سکول میں بم دھماکہ کے ذریعے 367بچوں کوہلاکتیں
ہوئی ۔21مارچ 2005امریکہ میں ہائی سکول میں بم دھماکہ سے 10بچے ہلاک ہوئے
تھے ۔13جولائی 2005عراق میں بچوں کی بس پرحملہ کرکے 27بچوں کوہلاک
کردیاگیا۔15جولائی 2006سری لنکامیں بس پرفائرنگ کرکے 64بچوں کوہلاک
کیاگیاتھا۔7نومبر2007 فن لینڈمیں ہائی سکول پرحملے سے 8بچوں کو ہلاک
کیاگیا۔28دسمبر2008افغانستان میں ایلمنٹری سکول پرحملہ کرکے 16بچے ہلاک
ہوئے ۔7اپریل 2011ایلمنٹری سکول پرحملے سے 13بچوں کی جان چلی گئی
14نومبر2012امریکہ میں ایلیمنٹری سکول پرحملے میں 28بچوں کی جان چلی گئی
۔16دسمبر2014پاکستان میں پشاورکے ایک سکول میں بروزمنگل فائرنگ اوربم
دھماکے میں 150کے قریب بچے شہید5خاتون ٹیچرایک مرداستادایک آردمی اہلکارتین
چوکیدارشہیدہوئے جبکہ زخمی ہونے والے 100بچے 2خاتون ٹیچرایک آرمی
اہلکاراورایک ریسکیواہلکارشامل ہیں جوبچے زخمی تھی ان کی تعداد9سال سے
16سال بتائی گئی تھی ۔عراق کے بعددہشتگردوں کی بربریت کانشانہ بننے والے
ممالک میں سے پاکستان کانام سرفہرست ہے جس سے نمٹنے کیلئے پاکستان نے ایک
پالیسی انٹرنل سیکورٹی کانام دیاگیاتھااس سیکورٹی پالیسی میں امریکی نیشنل
کے زیراہتمام ہونیوالی سٹڈی کاحوالہ بھی دیاگیاجس کے مطابق 2014تک دہشتگردی
کے 1523واقعات رونماہوئے جبکہ عراق میں ایسے واقعات کی تعداد 1023ہے اس
رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیاکہ ایسے دھماکوں میں خیبرپختونخواہ
33فیصد،بلوچستان23فیصد،فاٹا9.6فیصد،سندھ میں 18فیصداورپنجاب میں
13.9فیصدکاروائیاں ریکارڈہوئی ہیں ۔نیشنل انٹرنل سیکورٹی کی دستاویزات کے
مطابق 2014تک ہونیوالے شہداکی تعداد49000ہے جن میں 5272افرادقانون نافذ
کرنے والے اہلکارہیں ۔16دسمبر2014کوکاش اس دن سکول کی چھٹی ہوتی کمسن بچوں
کوکیامعلوم تھا کہ وہ گھرسے جس طرح تیارہوکے آرہے ہیں نئے دھلے کپڑے نہائے
دھوئے صاف ستھرے ماں باپ کوسلام کرتے سکول پہنچے ان کوکیامعلوم تھا کہ آج
ماں باپ سلام نہیں ان سے آخری سلام لے کراجازت لی اوراپنی خالق حقیقی کے
پاس پہنچ گئے اورجو نئے صاف ستھرے دھلے کپڑے تھے وہ دھماکے کے
بعدلیرکتیرہوگئے جسم جوپانی سے نہاکے آئے تھے اب وہ خون میں لت پت تھے بھلا
ان معصوموں نے کسی کاکیابگاڑاتھاکہ ان پرقیامت ڈھادی ۔جیسے ہی سانحہ
پشاورپیش آیاپوراملک سوگ میں ڈوب گیا۔ان بدبختوں کویہ بھی یاد نہیں آیاکہ
انہیں بھی توماں نے جنم دیاتھاوہ بھی تومعصوم رہے ہیں اوراب ان معصوم
پھولوں کاکیاقصورہے سکول میں بچوں کی بڑی تعداد موجودتھی اندھی دھندفائرنگ
سے پہلے ہی حملے میں بچوں کی کافی تعدادشہیدہوگئی ہوگی جومعصوم استادکی
لاٹھی سے چیختے ہیں ان پرگولی برسی ہوگی تووہ کیسے بچے ہوں گے بعدمیں جب
سیکورٹی فورسز پہنچیں توانہوں نے بچوں کی خاصی تعدادجومحصورہوچکی تھی بہ
حفاظت نکال لیاگیاجیسے ہی بچوں کے موت کی خبرآئی وہ خبرنہیں تھی بچوں کی
چیخیں تھی جوآج بھی ہمارے کانوں میں گونج رہی ہیں ہرطرف کہرام مچ گیاپوری
پاکستانی قوم جواس جگہ سے دورتھی جہاں ظلم برپاہوچکاتھاٹی وی سکرینوں کے
سامنے بیٹھ گئے ہرآنکھ اشک بار تھے دل دھاڑیں ماررہے تھے جن ماؤں کی گود
اجڑی انکی آہوں نے آسمان کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔دہشت گردوں نے انتہائی
مکاری اوربزدلی کامظاہرہ کرکے معصوم گلشن اجاڑدیے مگرانہیں یہ نہیں معلوم
وہ جتنی کوشش کریں شمع بجھانے کی ہم علم کی شمع بڑھاتے رہیں گے
|