دشمن کے نام خط

میری جان کے دشمن،
السلام علیکم،اﷲ نے چاہا تو تم خیریت سے ہو گے۔اب میں نے تمہارے لئے بدعائیں کرنا چھوڑ دی ہے کیونکہ میں سمجھ گیا ہوں کہ تمہیں اب بدعاوں کی نہیں دعاوں کی ضرورت ہے۔میں نے یہ خط تمہیں یہ بتانے کے لئے لکھا ہے کہ تمہاری ان تھک کوششوں کے باوجود کہ میں ناکامی اور پریشان بھری زندگی گزارتا تمہیں پڑھ کر افسوس ہو گا کہ میں نے کامیابی حاصل کر لی ہے اور میں زندگی کے خوشحال حصے میں داخل ہو گیا ہوں اور اس سب کامیابی میں تمہارا ناچاہتے ہوئے بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔

اس خط کو لکھنے کا مقصد تمہیں باتیں بتانی تھی جو تمہیں بتانے کا کوئی فائدہ نہیں مگر مجھے بتانے میں خوشی ہو گی۔ جب میں کچھ نہ تھا اور اپنی مشکل زندگی کو آسان بنانے کی کوشش کر رہا تھا تو تم میری مشکل زندگی کو اور مشکل بنانے میں بہت محنت کرتے تھے کبھی میں اس حال پر چلا جاتا تھا کہ میرا دل تمہیں برداشت کرنے کی بجائے خود کو ختم کرنے کو کرتا تھا مگر پھر بھی میں صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔آج تمہاری دی ہوئی تکلیفیں آج میرے لئے بہت کام آ رہی ہے جو مجھے آج لمحہ بہ لمحہ کئی تکلیفوں سے بچاتی ہے۔

تمہیں پڑھ کر خوشی ہو گی تمہارا حسد کرنا میرے لئے کتنا خطرناک تھا کہ تم میرے ہر اچھے کام کو بگاڑ دیتے اور میں واپس اپنے کام کو نئے طریقے سے شروع کرتا، مگر میں ہارتا نہیں تھا تمہارا حسد کرنا مجھے مجبور کرتا تھا کہ میں آگے بڑھو اور تمہیں کچھ بن کر دیکھاوں۔تمہارا حسد بھرا چہرہ مجھے اس وقت زہر لگتا تھا مگر اب نہیں لگتا کیونکہ تمہارے اسی چہرے کی مہربانیاں ہے کہ مجھے حسد بھری دنیا سے مقابلہ کرنا آگیا ہے۔تمہاری اکثر منہ پھٹ باتیں لڑائی کا باعث بنتی تھی کیا دن تھے وہ بھی دعا ہے زندگی میں دوبارہ نہ دیکھنے پڑے۔تم آ کر حیلے بہانے سے مجھے سب کے سامنے بر بھلا کہتے تھے اور میں مٹھی بند کر کے سنتا رہتا تھا ویسے سچ پوچھوں تو آج بھی تمہاری ان باتوں کو یاد کرو تو غصہ آ جاتا ہے مگر پہلے کی طرح نہیں کبھی تمہاری بکواس یاد آئے تو غصے کے ساتھ ہنس بھی لیا کرتا ہوں۔
میں تمہیں دل کی بات بھی بتانا چاہتا ہوں میں تمہاری ہدایت کے لئے بھی دعا کیا کرتا تھا پتہ نہیں تمہیں آئی کہ نہیں مگر کبھی کبھی وہ کی ہوئی دعائیں اپنے سامنے پوری ہوتی نظر آتی ہے۔ وہ ایسے کہ جب کبھی میں ایسی کیفیت کسی کے لئے محسوس کروں جو دوسرے کے لئے نقصان کا باعث ہو تو تمہیں یاد کر کے فوراً اپنے آپ کو بدل لیتا ہوں کہ کہی وہ بھی مجھے دل میں کچھ ایسا نہ کہ دے جو میں تمہیں کہا کرتا تھا۔میرے اچھے وقت کو برا بنانے میں تم نے کوئی کثر نہیں چھوڑی اکثر تم کامیاب بھی ہوئے مگر میں تمہیں اس وقت کچھ کہ نہیں سکتا تھا اور آض میں تمہیں کچھ کہنا نہیں چاہتا کیونکہ جو وقت کو سمجھ جائے وقت اسیسمجھ جاتا ہے۔برے وقت میں تم مجھے نظر نہ آو میں بہت دعا کیا کرتا تھا پھر بھی تم آ جاتے تھے اور مجھے دعاوں سے نا امید کر دیتے تھے خیر۔

جب بھی کبھی حوصلوں کو اکھٹا کر کے میں نے کسی کام کو کرنے کا ارادہ کیا تو میرے اکھٹے کیے حوصلوں کو بکھیرنے میں بہت آگے رہے۔میں نے بہت غلطیاں کی اس کے لئے معافی چاہتا ہوں جس میں سے ایک غلطی یہ بھی تھی کہ میں نے تمہیں اپنا غم خوار سمجھ کر دل کی بات کر دیا کرتا تھا جو کہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ جو دل کا راز میں تمہارے پاس رکھوایا کرتا تھا وہ سارے شہر میں سب کو وہ راز معلوم ہے اور سب کے لئے وہ راز ہی ہے۔تمہیں ایسا لگتا تھا کہ یہ سب کر کے تم مجھ کو روک لو گے مگر تم یہ بھول گے تھے زندگی کسی ایک لمحے کا نام نہیں اور کوئی کسی کو کس حد تک روک سکتا ہے۔میری کامیابی کے راستے اس لئے نہیں رکے کیونکہ میں نے کسی کے راستے نہیں روکے۔تمہارا مقصد مجھے ذلیل کر کے میرے وقار اور عزت کو ختم کرنا تھا مگر جدھر تمہارا مقصد تھا تو تمہیں جان کر دکھ ہوگا کہ میرے مقاصد تھے اور ہے۔مجھے زندگی میں بہت کام کرنا تھا آگے بڑھنا تھا۔تمہیں جان کر بہت دکھ ہوگا میں نے کبھی تمہارے لئے غلط نہ سوچا اور نہ کبھی چاہا کہ تمہارے ساتھ غلط ہو۔تم سے بچتے لڑتے میں تھک جاتا تھا مگر جب بھی دوبارہ میدان میں آتا تھا تو پہلے سے نیا اور پہلے سے بہتر ہوتا تھا اور یہ سب تمہاری وجہ سے ممکن ہوا۔

تم جیسے بھی تھے میرے لئے بہت بڑے محسن ثابت ہوئے۔تمہیں یہ پڑھ کر بڑا افسوس ہوگا کہ میں اب کامیاب ہو چکا ہوں تم بدلے یا نہیں مجھے اب تمہارے بدلنے کی امید بھی نہیں اور ملنے کی خواہش بھی نہیں۔اب مجھے صرف تم سے نہیں تم جیسوں سے لڑنا اور اپنے آپ کو بچانا آ گیا ہے۔مجھے اپنوں اور غیروں کی پہچان آ گئی ہے۔میں اب دوسروں کو بھی تم جیسوں سے بچنے کی تلقین کرتا ہوں۔میں بہت خوش ہوں اور تمہیں اپنی خوشی بتاتے ہوئے مجھے بالکل خوف نہیں آرہامجھے امید ہے تم بھی میری طرح مجھ سے ملنے کے خواہش مند نہیں ہو گے اور کبھی ملنے کا سوچا بھی تو یاد رکھنا پہلے حسد تمہیں کچھ نہیں کہتا تھا مگر تم اب حسد کی آگ میں جل کر ختم ہو جاوگے۔

میرا تمہارے لئے آخری خط صرف اپنی کامیابی سے آگاہ کرنا تھا۔اپنا اور صرف اپنا خیال رکھنا۔
تمہاری آنکھوں کی تکلیف،
رقیب

Bilal Shaikh
About the Author: Bilal Shaikh Read More Articles by Bilal Shaikh: 15 Articles with 10901 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.