سماج کی اصلاح اور امن صحافت

اﷲ تعالیٰ نے انسانی تخیل کو زبر دست قوت بخشی ہے۔ایک قلم کار کا تخیل جب اپنے تاب پر پہنچتا ہے تو ادبی اور اصلاحی شہ پارے تخلیق پاتے ہیں۔زندگی کے اتار چڑھاؤ کو محسوس کرکے قلم کار جب اپنے قلم سے بیان کرتے ہیں تو قارئین کو جھنجھوڑ کر ر کھ دیتے ہیں اور ان کو زندگی پر کھنے اور سمجھنے کا فن دیتے ہیں،مگر انہی لکھنے والوں میں بعض ایسے بھی ہوتے جنہیں نفسیات کے اعتبار سے درست نہیں کہا جا سکتا وہ اپنے قارئین کو صرف ذہنی اور جنسی جذبے کے غلام کے طور دیکھتے ہیں۔

آج کے انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں بھی صحا فیوں اور لکھاریوں کو امن کے قیام اور سماجی اصلاح سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔عام الفاظ میں کہا جائے تو آ ج بھی شدت پسندی ، فحش نگاری صحافت اور ادب کی ہر صنف کا حصہ ہے۔ان موضوعات پر مبنی تحاریر ،ڈرامے،فکشن اور شاعری ہر اعتبار سے انسانی خیال و عمل پر تباہ کن نتائج مرتب کرتی ہے۔دوسری طرف سما ج کا یہ حال ہے کہ اس قسم کے جرائم میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔صرف گزشتہ ہفتوں کے دوران پاکستان کے مختلف علاقوں سے آ نے والی عدم برداشت، بے حرمتی اور عصمت دری کی لرزہ خیز خبروں نے ہر ذی شعور کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

کیا اب بھی تضاد ہے کہ پاکستان میں ان واقعات کا تسلسل کن حقائق کی جانب آگاہ کر رہا ہے۔اگر سماج میں سزاوٗں کا نفاذ یقینی نہ بنایا جائے تو کوئی بھی بیمار ذہن ،درندہ صفت جرائم کی طرف مائل ہونے میں ہر گز عار محسوس نہیں کرتا۔احتیاط کے تقاضے ،قانونی چارہ گوئی اپنی جگہ مگر جس امر پر سب سے زیادہ غورو فکر کی ضرورت ہے وہ ایسے مواد پر پابندی ہے۔میڈیکل سائنس اور علم نفسیات کے مشترکہ موضوعات سے ایسی کئی تحقیقات سامنے آمنے آئی ہیں جو ان محرکات اور انسانی اعمال پر ہونیوالے عوامل پر بحث کرتی ہیں۔سادہ الفاظ میں سمجھا جا ئے تو شدت پسندی اور فحش نگاری سما ج میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافت اور ان ادبی اصناف کو کم از کم ایک اسلامی معاشرے میں اپنی حدود و قیود کا پابند ہونا چاہئے۔اگر ایسا نہیں ہوا تو نتائج کبھی گھوٹکی سانحہ کی شکل میں تو کبھی بچوں سے زیادتی کی صورت میں سامنے آئیں گے۔حکومت کیلئے بھی اس طرح کی نشر و اشاعت اور نمائش کی روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا لازم ہے۔آئین پاکستان کے آرٹیکل(g)37کے تحت حکومت کے لئے اس قسم کے لٹریچر اور اشتہارات کی طباعت کی روک تھام کیلئے ضروری اقدامات کرنا لازم ہے۔

صحافت ریاست کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے ۔صحافی زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر شعبہ کو اپنے قلم سے بیان کر سکتا ہے۔صحافت چاہے قرطاس کے ذریعے ہو یا اسکرین کے ذریعے بنیادی اخلاقی اقدار کی پاسداری اور اپنے پیشے سے فرض شناسی اس کی اولین تر جیع اور ذمہ داری ہونی چاہئے۔پس اصل مدعا سماج میں توازن رکھنے کا ہے کہ کس طرح جذبات کو علم و شعور کی لگام میں جکڑ کر رکھا جائے۔اگر معاشرہ علم و شعور سے دوری اختیا ر کر لے تو معاشرہ علمی،اخلاقی اور سماجی طور معذور ہو جاتاہے۔اس لئے ضروری ہے کہ جذبات کو شعور کا پابند کردیا جا ئے بالخصوص اس معاملے میں جب صحافی کے پاس قلم جیسی طاقت ہے اگر اصولی طور پر دیکھا جائے تو صحافی سماج میں ایک مصلح کی حیثیت سے اپنی خدمات سر انجام دیتا ہے کہ محض ترسیل خبر کا نام صحافت نہیں۔

ظلم کے اندھیروں میں روشنی کی کرن پیدا کرنے کیلئے ہم آواز ،صف آراء ہو کر کسی ذاتی وابستگی کو خاطر میں لائے بغیر صحا فت کو شدت پسندی اور فحش نگاری سے پاک کرنے کی کو شش وقت کی عین ضرورت ہے کہ ان تمام مظالم پر بند باندھنے کے عین مترادف ہوگا جس کی آگ میں ہمارا سماج جھلس رہا ہے۔
تحریر : فضل حسین
ٹنڈوالہیار،سندھ
 

Fazal Hussain
About the Author: Fazal Hussain Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.