مشترکہ مستقبل کا حامل سماج ، ایک ناگزیر تصور

چین باقی دنیا سے اس لحاظ سے منفرد رہا کہ یہاں ایک تو حکومت کے بروقت اقدامات کے باعث وبا پر موئثرکنٹرول پا لیا گیا ، دوسرا چین نے انسداد وبا میں دیگر ممالک کی بھرپور امداد کرتے ہوئے ایک بڑے بھائی کا کردار نبھایا ہے۔وبا کے عروج میں چین نے نہ صرف یورپی ترقی یافتہ ممالک کی امداد کی بلکہ اپنے ترقی پزیر ہمسایہ ممالک سمیت پسماندگی کے شکار افریقی ممالک کو بھی بروقت انسداد وبا کا سامان اور صحت عامہ کے تحفظ سے وابستہ دیگرخدمات فراہم کیں جو مشترکہ مستقبل کے حامل سماج کی تشکیل کے لیے چین کے عملی اقدامات کا مظہر ہیں۔چین کے برعکس چند بڑے ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے اس بحرانی صورتحال میں اپنی آنکھیں بند رکھنے کی پالیسی اپنائی گئی ،وبا جیسے خطرناک دشمن سے مشترکہ طور پر نمٹنے کی بجائے عالمی اتحاد سے علیحدگی ،تجارتی تحفظ پسندی ، دیگر ممالک پر یکطرفہ پابندیوں کا نفاذ اور تعصب پر مبنی بالادست نظریات کی آبیاری کی گئی ، جس سے یقینی طور پر انسداد وبا کے عالمی تعاون کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

مشترکہ مستقبل کا حامل سماج ، ایک ناگزیر تصور

دنیا میں کووڈ۔19 کا تیزی سے پھیلاو سال 2020 میں عالمی سطح پر سب سے بڑا چیلنج رہا ہے اور اب بھی انسانیت کو وبا کے باعث غیر معمولی مصائب کا سامنا ہے۔ غیر یقینی صورتحال کے باعث لوگ مستقبل کے بارے میں زیادہ فکر مند نظر آ رہے ہیں اور تمام ممالک کو اپنی حکمت عملیاں ازسر نو ترتیب دینا پڑ رہی ہیں۔یہ سال فیصلہ سازی کے حوالے سے بھی اہم رہا اور صحت عامہ کے میدان میں دنیا میں مختلف رحجانات دیکھنے کو ملے ۔ایک جانب اگراتحاد ،تعاون ،کھلے پن کی حمایت کی گئی تو دوسری جانب آئیسولیشن ،الزام تراشی ،تقسیم اور تنازعات کے رحجانات بھی سامنے آئے۔لیکن مجموعی طور پر دنیا میں ممالک کی اکثریت نے انسداد وبا کے لیے دوستانہ روابط کا انتخاب کیا اور کھلے پن کے تحت اس نظریے پر کاربند رہے کہ مشکل صورتحال سے نمٹتے ہوئے اس سے پیدا ہونے والے مواقعوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔

اس صورتحال میں انسانیت کے لیے ایک مشترکہ مستقبل کے حامل سماج کی ضرورت کہیں زیادہ شدت سے محسوس کی گئی اور چین جیسے بڑے ملک نے متعدد عالمی فورمز پر اس نکتے کو بارہا اجاگر کرتے ہوئے تمام ممالک سے اپیل کی کہ اتحاد و تعاون کووڈ۔19سے نمٹنے کا واحد درست انتخاب ہے ۔ انسانیت کو درپیش کٹھن آزمائش میں یکطرفہ پسندی،بالادستی اور تحفظ پسندی کی شدید مخالفت کرتے ہوئے مشترکہ طور پر آگے بڑھا جائے اور مل کر وبا کو شکست دیتے ہوئے آنے والی نسلوں کا تحفظ کیا جائے۔
عالمی وبا کے باعث اقتصادی سماجی صورتحال بری طرح متاثر ہوئی ہے۔عالمی بینک کی جانب سے بھی واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ کووڈ۔19کے باعث حالیہ دہائیوں میں بدترین اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔عالمی جی ڈی پی میں 5.2فیصد تک سکڑنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے ،ترقی یافتہ ممالک سمیت دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں کو بھی شدید دباو کا سامنا رہے گا ،وبا کے باعث تجارت اور سرمایہ کاری زوال پزیر ہے ،مالیاتی منڈیاں بھی مضطرب ہیں اور خطرناک بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر ابھی اقتصادی بحالی کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آ رہے ہیں۔وبا نے دنیا کو باور کروایا کہ اپنی ترجیحات میں تبدیلیاں لائی جائیں،معاشرے کے کمزور طبقات سمیت ایسے ممالک کی امداد کی جائے جو وسائل کے اعتبار سے پسماندہ ہیں۔اسی بنیاد پر ہی وبا جیسے عالمگیر چیلنج سے نمٹا جا سکتا ہے وگرنہ گلوبلائزیشن کے دور میں یہ ممکن نہیں رہا کہ آپ کے ہمسایہ ممالک افراتفری کا شکار ہوں اور آپ مستحکم طور پر آگے بڑھ رہے ہوں۔

چین باقی دنیا سے اس لحاظ سے منفرد رہا کہ یہاں ایک تو حکومت کے بروقت اقدامات کے باعث وبا پر موئثرکنٹرول پا لیا گیا ، دوسرا چین نے انسداد وبا میں دیگر ممالک کی بھرپور امداد کرتے ہوئے ایک بڑے بھائی کا کردار نبھایا ہے۔وبا کے عروج میں چین نے نہ صرف یورپی ترقی یافتہ ممالک کی امداد کی بلکہ اپنے ترقی پزیر ہمسایہ ممالک سمیت پسماندگی کے شکار افریقی ممالک کو بھی بروقت انسداد وبا کا سامان اور صحت عامہ کے تحفظ سے وابستہ دیگرخدمات فراہم کیں جو مشترکہ مستقبل کے حامل سماج کی تشکیل کے لیے چین کے عملی اقدامات کا مظہر ہیں۔چین کے برعکس چند بڑے ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے اس بحرانی صورتحال میں اپنی آنکھیں بند رکھنے کی پالیسی اپنائی گئی ،وبا جیسے خطرناک دشمن سے مشترکہ طور پر نمٹنے کی بجائے عالمی اتحاد سے علیحدگی ،تجارتی تحفظ پسندی ، دیگر ممالک پر یکطرفہ پابندیوں کا نفاذ اور تعصب پر مبنی بالادست نظریات کی آبیاری کی گئی ، جس سے یقینی طور پر انسداد وبا کے عالمی تعاون کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

کووڈ۔19بلاشبہ دنیا کے لیے یادہانی ہے کہ گلوبل ویلج کے دور میں مضبوط پالیسی اشتراک اور تعاون کی صورت میں ہی محفوظ مستقبل تشکیل دیا جا سکتا ہے ۔پالیسیوں کی بات کی جائے تو پوری دنیا میں ایک جانب پر ہجوم عوامی مقامات لاک ڈاون ،قرنطینہ اور سماجی دوری اختیار کرنے کے باعث ویران نظر آئے مگر دوسری جانب عالمی سطح پر ممالک ،معیشتوں اور تہذیبوں کے درمیان ورچوئل مشاورت اور آن لائن تبادلہ خیال کا رحجان بھی غالب رہا۔اہم تقریبات کا کامیاب ورچوئل انعقاد اور عالمی رہنماوں کے درمیان مشاورت سے ایک دوسرے سے سیکھنے کا موقع ملا ، جس سے پالیسیوں میں ہم آہنگی دیکھی گئی۔
یہاں اس حقیقیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک مشترکہ مستقبل کے حامل سماج کی تشکیل میں سائنس کو اہمیت دینا ہو گی۔عالمی وبائی صورتحال میں سائنس کو نظرانداز کرنے والے ممالک آج خمیازہ بھگت رہے ہیں۔بڑے ممالک کوعملی طور پر تعصب سے بالاتر ہو کر عالمی مفاد میں بہترین فیصلے کرنا ہوں گے ، ترقی پزیر اور غریب ممالک کی عالمی فورمز میں شمولیت کی حوصہ افزائی کرنا ہو گی، وسائل کی مشترکہ تقسیم سے اشتراکی ترقی کو آگے بڑھانا ہو گا ، تب ہی انسانیت کو کووڈ۔19جیسے چالاک دشمن سے پائیدار بنیادوں پر بچایا جا سکتا ہے۔آج وقت کا تقاضا اتحاد اور تعاون ہے ،اگر اس موقع کو ضائع کر دیا گیا تو تاریکی ہی مقدر ہو گی۔ایک روشن صبح کے لیے ہر ایک ملک اور ہر ایک فرد کا کردار تاریخ کا حصہ ہو گا جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 616832 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More