لفظ’’ ممتا ‘‘ ایسا فقرہ ہے جو دونوں ہونٹوں کے ملانےکے
بغیر ادانہیں کیاجاسکتا لفظ ممتا سنتےہی دل و دماغ ایسے تروتازہ ہوجاتے ہیں
جیسے بارش بنجر زمین کو تروتازہ کر دیتی ہے۔کیوںکہ اس لفظ میں ماں کی محبت
اٹھتی ہے
محبت، محبت اور پیار سے محبت کرنے کو دل چاہتا ہے
آج میں جس ممتا جی کا ذکر کر رہی ہوں وہ ایک ہندو ممتا جی ہے مجھے منیلا
آئے ہوئے ابھی ایک دو دن ہوئے تھے سامنے پڑھی چار پانچ خوبصورت باسکٹ پر
نظر پڑھی پتا چلا کہ ہر سال دیولی میں یہ باسکٹ اپنے آس پاس کے پڑوسیوں کو
دیتی ہیں
ابھی چند دن ہی گزرے تھے بیل بجی اور دیولی کے موقعے پر ہمارے نام بسکٹ ملی
کاڑد دیکھا چیزے دیکھی حیران ہوئی ابھی ہمیں آئے ہوئے چند دن ہوئے ہے نہ
جان نہ پہچان خیر سوچا اپی دوست کے ساتھ جاکر شکریہ ادا کروگی
یوں ایک دن پروگرام بنا اور ہم چل دیئے سیکنڈ فلور ممتا جی کے گھر
وہاں ان سے ملیں ان کا اخلاق محبت ان کی محمان نوازی دیکھی اور سوچ میں پڑھ
گی کہنے کو تو ہمارا مزہب اور ان کا الگ الگ ہیں مگر انسانیات محبت عزت ان
کا رویہ ان خلوص دیکھ کر میں بہت متاثر ہوئی جو اپنی دیولی کے موقعے پر
اپنے آس پڑوس کو یاد کرئے اس سے بڑھ کر کیا ہوگا
دوسرا ان کو مسلمانوں کے ہر تہوار کا پتا تھا بڑی عزت دی جیسے محماں آتے ہے
ان کے ساتھ دو گھنٹے گب شب رہی اور میں نے بہت کچھ سیکھاان سے
ہر انسان اگر انسانیت کا جزبہ رکھے تو دنیا میں امن اور پیار پھلے پھولے
کیونکہ ہر انسان اپنے حصے کا کام کرئے آس پڑوس کو اپنے خوشیوں میں شامل
کرئے تو کیا حرج ہے
|