اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کسی بھی ملک کی
تعمیر و ترقی میں تعلیم کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔آج دنیا میں انہی قوموں کو
عروج حاصل ہے جنہوں نے تعلیم کی قدر کی ہے اور تعلیم یافتہ سماج کی بدولت
دنیا میں ہر اعتبار سے ایک نمایاں درجے پر فائز ہیں۔ترقی یافتہ ممالک کے
برعکس ترقی پزیر ممالک میں تعلیمی معیار کی پسماندگی سے بےروزگاری ،غربت ،
بدعنوانی سمیت دیگر کئی سماجی مسائل نے جنم لیا ہے اور ترقی کے سفر میں بھی
بے شمار رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں۔تعلیم کے فروغ سے عروج کے سفر کی بات کریں
تو ترقی پزیر ممالک میں ہمارے پاس سب سے بڑی مثال چین کی ہے جس نے انتہائی
قلیل عرصے میں کرشماتی ترقی کی منازل تیزی سے طے کی ہیں اور آج دنیا کی
دوسری بڑی معیشت کے درجے پر فائز ہے۔
سن 1949میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد نئی حکومت کی پہلی ترجیح اور
اہم ہدف صنعتکاری کا فروغ تھا لیکن جلد ہی اس حقیقت کا ادراک کیا گیا کہ
صنعتکاری کی ترقی کیسے ممکن ہے جب ملکی آبادی کا تقریباً 80فیصد ناخواندہ
ہے۔چینی قیادت نےاس ہدف کے حصول کو اتنی بڑی تعداد میں ناخواندہ آبادی کے
ساتھ ناممکن قراد دیا۔چین کے لیے صورتحال اس لحاظ سے بھی گھمبیر تھی کہ
دنیا کے گنجان آباد ترین ملک میں صرف تقریباً ایک لاکھ طلباء جامعات میں
زیرتعلیم تھے جبکہ ہائی اسکولوں میں زیرتعلیم طلباء کی تعداد بھی تقریباً
دس لاکھ تھی۔اُس وقت چینی حکومت کی یہ کوشش بھی تھی کہ ملک کو ایک جدید
معاشرے میں ڈھالا جائے لیکن تعلیمی پسماندگی اس عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ
تھی۔دوراندیش چینی قیادت نے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے شرح خواندگی میں
اضافے کے لیے ایک دہائی پر محیط قومی مہم کا آغاز کیا۔اس مہم کے تحت ہزاروں
افراد کو ملک کے کونے کونے میں بھیجا گیا تاکہ وہ بچوں اور بالغوں کو پڑھنا
لکھنا سکھا سکیں اور انہیں ریاضی کی بنیادی تعلیم دی جا سکے۔اس مہم کے
دوران ملک بھر میں ہزاروں "نائٹ اسکول" کھولے گئے اور کسانوں ،مزدوروں
،نوجوانوں غرضیکہ ہر مردو زن کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ کتاب و قلم سے
اپنا تعلق استوار کرے۔ ان کوششوں کے جلد ثمرات سامنے آنا شروع ہوئے اور
1964میں کیے جانے والے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ ایک دہائی سے
زیادہ عرصے کی مسلسل کوششوں کے باعث ملک میں ناخواندگی کی شرح 50فیصد کی
سطح تک آ چکی ہے۔
ایک جانب اگر اسکول جانےکی عمر کو پہنچنے والے بچوں کو معمول کی تعلیم حاصل
کرنے کے لیے اسکولوں میں داخل کیا گیا تو دوسری جانب اُن کے والدین حتیٰ کہ
دادا دادی اور نانا نانی کو بھی لکھنا پڑھنا سکھایا گیا۔چین میں اگرچہ نو
سالہ لازمی تعلیم کا قومی نظام 1986میں متعارف کروایا گیا مگر اس سےقبل بھی
غریب گھرانوں کے بچے بلا معاوضہ تعلیم حاصل کر سکتے تھے۔سن2000میں نو سالہ
لازمی تعلیم پر مکمل عمل درآمد کو اسکول کی عمر کو پہنچنے والے بچوں کی
100فیصد شرح اندراج سے یقینی بنایا گیا۔
آج چین میں پرائمری اسکولوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ساٹھ ہزار ہے جہاں
دس کروڑ بچے زیرتعلیم ہیں ،مڈل اسکولوں کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہے جہاں
تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ ہے۔نو سالہ لازمی
تعلیمی نظام سے حاصل شدہ کامیابیوں کی روشنی میں اعلیٰ تعلیم کی ترقی پر
توجہ دی گئی۔کچھ ترقی یافتہ علاقوں میں سینئر ہائی اسکول تعلیم کو لازمی
قرار دیا گیا ،اسی طرح گزشتہ عرصے میں کالج میں داخلہ لینے والے طلباء کی
تعداد میں بھی نمایاں حد تک اضافہ ہوا ہے۔سال 2020کی ہی بات کی جائے تو ایک
کروڑ سے زائد طلباء نے کالج داخلے کا امتحان دیا جبکہ جامعات اور دیگر فنی
پیشہ ورانہ اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اس کے علاوہ ہیں۔
اعلیٰ تعلیمی نظام کی ترقی سے چین میں سائنس و ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبہ
جات کو بھرپور فروغ ملاجبکہ صنعتکاری کے اعتبار سے بھی چین کو جدید خطوط پر
استوار کیا گیا۔آج چین سائنسی تعلیم کی بنیاد پر ایک جدید معتدل خوشحال
معاشرے کی تعمیر کے لیے کوشاں ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ جدید
تصورات مثلاً آرٹیفیشل انٹیلی جنس ،روبوٹکس ،ٹیلی مواصلات ،ڈرون ٹیکنالوجی
وغیرہ میں چین دنیا میں سرفہرست ہے۔تعلیم اور ترقی کو مسلسل فروغ دیا جا
رہا ہے ۔اٹھارہ سے بیس سال کے نوجوانوں کی اکثریت کالجوں اور جامعات میں
تعلیم حاصل کر رہی ہے جبکہ گزشتہ برس جامعات میں زیرتعلیم طلباء کی مجموعی
تعداد تین کروڑ سے زائد رہی ہے۔چینی حکام نے تعلیمی نصاب کو بھی بہتر بنایا
ہے ،بچوں کے لیے ہوم ورک کو کم کیا گیا ہے ،امتحانات میں شفافیت کو سختی سے
یقینی بناتے ہوئے نقل کرنے والے طلباء کے خلاف سخت ضوابط موجود ہیں۔
چین کی کوشش ہے کہ طلباء کے ایک بہتر اور روشن مستقبل کی خاطر انہیں اعلیٰ
معیار کی حامل تعلیم دی جائے کیونکہ تعلیم ترقی کی بنیاد ہے اور بنیاد جتنی
مضبوط ہو گی عمارت بھی اُسی قدر ٹھوس اور پختہ ہو گی۔
|