بدلتے رویے

ٓآج کی بات نہیں جب سے کائنات بنی تب سے اگرکسی کابھی رویہ بدلے توتکلیف ہوتی ہے اگرچہ میں لاہور میں مقیم ہوں مگر اپنے وسیب کے غریبوں کے مسائل پر بھی گہری نظر رکھتا ہوں۔کچھ ماہ قبل ایک معروف کالم نگار کا ایک مضمون نظر سے گزرا۔مسئلے کو سمجھنے کے لئے اس کے چند پیراگراف کچھ یوں ہیں۔"رحیم یار خان کی مشرقی جانب امین گڑھ کا ہیڈ گزریں تو آگے بستی رسول پور آپ کو خوش اآمدید کہے گی ،نہر کنارے لگے ٹالھیوں کے بڑے بڑے اور پرانے درخت اس بات کا پتا دیتے ہیں کہ یہ بہت ہی قدیم علاقہ ہے ،اگرچہ یہ شہر سے بہت قریب ہے مگر گندگی سے اٹی اس بستی کو دیکھ کریہی لگتا ہے کہ یہاں رہنے والے شاید بولتے نہیں ،اسی بستی کے درمیان ایک بڑا بوہڑ کا درخت بھی ہے اسی درخت کے نیچے بابا رمضان میرے ساتھ موجود ہیں جو بہت زیادہ بول رھے ہیں کیونکہ وہ بہت دکھی ہیں ،اگرچہ اوپر بیٹھے پرندے چہچہا کر کورونا کے خوف کو مار رہے ہیں مگر بابا رمضان کی دکھی باتیں میرے اندر کو مار رہی ہیں ،وہ بتارہے رہے ہیں کہ’’ ہم 22دسمبر 2011کو نئے خواب ،نئی امنگیں اور نئے ارادے لیکر بستی سے شہر کی جانب آئے ،دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کو شہر کے اچھے سکولوں میں داخل کروایا ،2014میں اپنی بڑی بیٹی کی شادی دھوم دھام سے کی ،2016میں مجھے فالج کا اٹیک ہوا اور میں بستر پر چلا گیا،کچھ ماہ بعد تھانہ اے ڈویڑن (اس تھانے میں صلاح الدین کو قتل کیا گیا تھا)کے اے ا یس آئی ملک سلیم درگھ میرے گھر میری دیکھ بھال کرنیوالے لڑکے کو کسی چھوٹے موٹے جرم میں پکڑنے آیا،یہی وہ دن تھا جس نے مجھ سے میری خوشیاں ،امنگیں اورخواب چھین لئے کہ اسی سلیم درگھ نے میری مجبوری ،لاچاری اور بیماری اور اپنی وردی اور دھونس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میرے گھر میں ایسا گھسا کہ آج تک نکلنے کانام ہی نہیں لے رہا،میں اپنی ا?نکھوں سے اپنے گھرپانچ پانچ گھنٹے کچھ ماہ اپنی بیوی پھراپنی بیٹی کے ساتھ گپیں ہانکتے دیکھتا اور کڑھتا رہا ،پھرآہستہ آہستہ میں بھی ڈھیٹ ہوتا گیا ،پھر سلیم پلسئے نے میرے گھر کی عزتیں لوٹنے کے بعد ہمیں کمائی کا ذریعہ بھی بنا ناشروع کردیا ،کہ اس نوجوان کو مقدمے سے نکالنے کے لئے مجھ سے تیس ہزار روپے لے لئے پھرکبھی پانچ ہزار تو کبھی دس ہزار لینا معمول بنالیا ،کیونکہ میں کوئی غریب گھر سے نہیں تھا۔ سو آہستہ آہستہ ہماری زمینیں بکنے لگیں ،ایک مرتبہ تو پورا ایک ایکڑ بکواکر اس کے سارے پیسے بیس لاکھ مجھ سے لے گیا کہ کوئی اچھا کاروبار کرنا ہے ،ٹھیک تین ماہ بعد ایک اور بگھہ بکوایا اور پورے دس لاکھ لے گیا ،ایک دن اچانک میری غیرت نے جوش مارا اور میں اپنی بیوی کو گالیا ں دینے لگا کہ یہ میرے گھر میں کیا ہو رہا ہے ،اسی دن میری بیٹی اور میرے اکلوتے بیٹے نے مجھے خوب مارا ،میرا گلہ دبانے کی کوشش کی گئی ،مجھے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا گیا ،یوں میں اس ظالم انسان کی وجہ سے دوسال سے زائد عرصہ کبھی پھٹے پر تو کبھی ،شیخ زید کی کینٹین پر کبھی بینچ پر تو کبھی میز پرسوتا رہا،اس دوران میں نے انصاف کے لئے کئی در وازے بھی کھٹکھٹائے مگر ہر طرف سے مایوس لوٹا مجھے سب سے زیادہ تکلیف اس وقت ہوئی جب کئی ممالک میں اپنی خدمات پیش کرنے والے ایک بڑے پولیس آفیسرکے دفتر سے مجھے گالیاں دیکر باہر نکالا گیا ،بعد ازاں ڈی پی او آفس کو پیٹی بھائی کی فرمائش پر یہ رپورٹس بنا کر بھیجی گئیں کہ رمضان ضیا کی بیوی نے آکر کہا کہ یہ فاترالعقل ہے ،سلیم درگھ کے پاس جو پیسے ہیں وہ اس کے ہیں اور میں نے وراثتی جائیداد بیچ کر انہیں کاروبار کے لئے دے رکھے ہیں، جس کا میں منافع بھی لے رہی ہوں،اب ان فرضی اور جھوٹی رپورٹس بنا کر اوپر بھیج کر ظلم کرنے والوں کوجنہیں مرنا بھی یاد نہیں کو کون بتائے کہ میں نہ تو فاتر العقل ہوں اور نہ ہی یہ پیسے میری سابقہ بیوی کے ہیں بلکہ میں اپنی زمین بیچ کر اسے دے چکا ھوں ‘‘بابا رمضان جیسے جیسے اپنی درد بھری داستان سنا رہے تھے ،ویسے ویسے ا?نسووں کی قطاریں اس کی اداس پھٹی ہوئی آنکھوں سے گر کران کی سفید داڑھی کے راستے نیچے جارہی تھیں اور میں بوہڑ کے درخت پر چہچہاتے پرندوں کے گیتوں میں بابا رمضان کے دردوں کی دوا ڈھونڈ رہا تھا۔

ابھی کچھ دن قبل بابا رمضان کا اپنی سابقہ گلی میں سلیم درگھ سے ٹاکرا ہوا تو بوڑھے بابے نے ایک مرتبہ پھر اسے للکارا اور کہا کہ سلیم !کیا تم میری بیٹی سے شادی کرنا چاہتے ہو؟جواب میں ٹی ایس آئی سلیم نے مسکراتے ہوئے کہا کہ چوہدری رمضان لگتا ہے تمہارے آخری دن آئے ہوئے ہیں خاموش رہو ورنہ تمہارے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے ،پھر ڈر کے مارے بابا رمضان نے شہر کے نہایت ہی ایماندار سمجھے جانے والے پولیس آفیسرجاوید اختر جتوئی کو درخواست گزاری کہ کہیں اسے نقصان نہ پہنچا دیا جائے ،کمال مہربانی اس افسر کی کہ تمام فریقین کو بلا کر معاملے کی تہہ تک پہنچنے اور ملک سلیم درگھ کو قصور وار قرار دیکر اسے پولیس کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ قرار دیا ہیں ،مگر اسی دوران ڈی پی او منتظر مہدی کا تبادلہ ھوگیا۔جاتے جاتے اس کے دل میں سلیم درگھ کے بارے رحم پیدا ھوگیا یا ایک مرتبہ پھر پیٹی بھائی کی محبت نے جوش مارا کہ اس کی صرف دوسال سروس ضبط کی اور پیسوں کی ریکوری بارے بھی کچھ نہ لکھا۔جس سے بابا رمضان ایک پولیس آفیسر کی وردی ،اس کی بدمعاشی کی وجہ سے ابھی تک دربدر ہیں ،اس پولیس آفیسر کی وجہ سے انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ،بیٹے اور بیٹی کو عاق کردیا مگر یہ پولیس آفیسر ہے کہ وردی کے خمار میں ٹس سے مس نہیں ہورہا بلکہ اس کے ضمیر پر تھوڑا سا بھی بوجھ نہیں بلکہ سینہ تان کر بابے رمضان کو جھوٹا ثابت کرنے اور اسے راستے سے ہٹانے کی ناکام کوشش میں لگا ہوا ہے "بلکہ کامیاب بھی ھوگیا ھے کہ منتظر مہدی اسے تھانہ ظاہر پیر میں بھی اٹیچ کر گئے۔نئے ڈی پی اواسد سرفراز کی ایمانداری پر کوئی شک نہیں۔ان کی انسانیت سے ہمدردی کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔امید ھے وہ رمضان ضیا کو ضرور انصاف دیں گے۔اس فالج زدہ بابے کا گھر ٹوٹا۔اس کے بچوں کا مستقبل بھی خراب ھوگیا۔وہ اس کی بیٹی سے شادی بھی نہیں کرے گا کیونکہ اس نے تو صرف اس گھرانے کو کمائی کا ذریعہ بناکر رکھا ھوا تھا۔امید ھے ڈی پی او سمیت اعلی افسران میرے ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ پر نوٹس لیکر رمضان ضیا کو انصاف دیکر سلیم درگھ کے خلاف معقول کارروائی کریں گے تاکہ آئندہ کوئی پولیس والا کسی کے گھر برباد کرنے کی جرات نہ کرسکے
 

Ali Jan
About the Author: Ali Jan Read More Articles by Ali Jan: 288 Articles with 224363 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.