امن کو فروغ دینے میں میڈیا کا کردار!

انسانی نفسیات ایک ایسی شے ہے جسکے ذریعے انسان اپنی صحت بنا بھی سکتا ہے اور بگاڑ بھی سکتا ہے وقتِ عذل سےلیکر اب تک انسان کوئی بھی عمل ٬ کوئی بھی خبر سُن کر اسکا سیدھا اثر اپنے دماغ پر لیتا ہے ۔ خواہ وہ اچھی خبر ہو یا بری٬ اچھا دیکھ رہا ہو یا برا ٬ اس خبر کے مطابق اسکے دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے۔

''صحافت'' دور جدید میں سب سے زیادہ ترقی پذیر ہونے والا شعبہ ہے جسکا کام نہ صرف لوگوں تک خبر پہنچانا ہی نہیں بلکہ لوگوں کی رہنمائی ٬ تربیت کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کا چہرہ بھی عالمی سطح پر نشر کرتا ہے ۔ کسی بھی ملک کی حالت جنگ میں صحافت ٬ میڈ یا ایک بہت بڑا گردار ادا کرتا ہے۔ چونکہ کسی بھی ملک کی ترقی حالت جنگ میں مفلوج ہوجاتی ہے اور میڈ یا کا کام ہے کہ اس جنگی حالات کی خبر وقت بہ وقت تمام عوام تک پہنچانا جسکا اثر انداز سیدھا انسانی نفسیات پر پڑھتا ہے اور منفی نتائج کے مواقع میں اضافہ ہوتاجاتا ہے۔

میڈ یا میں امن ِصحافت (Peace Journalism) ایک بہت بڑا جُزو ہے جس کی مدد سے کوئی ملک اپنی عوام میں اشتعال انگریزی اور دیگر نقصانات سے بچ سکتا ہے۔ امن ِصحافت(Peace Journalism) جیسا کہ نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ امن صحافت ٬ صحافت کی ایک قسم ہے جس میں تنازعہ کی بنیادی وجوہات کی کھوج لگانے کا عزم کیا گیا ہے۔ تاکہ معاشرے کو تنازع پرعدم تشدد کے ردِعمل پر غور کرنے اور ان کی قدر کرنے کے مواقع پیدا کئے جاسکے٬ ڈ اکٹر جوہن گالٹنگ اور ماری روج نے اس بات کا تجزیہ تقریباً1965 میں کیا کہ غیر ملکی خبروں کو خبروں کے قاتل بناد یتے ہیں۔ جسکی لینچ اور جوہان گالٹنگ نے امنِ صحافت کے تصور کو مزید فروغ دیا اور یہ دلیل پیش کی کہ میڈ یا خاص طور پر ''جنگی خبریں'' بنیادی طور پر تعصب کا مظاہرہ کرتی ہے اور اس تصوراتی عقیدے پر استقامت رکھتی ہے تنازع جنگ کے مساوی ہے۔

جس کی بہترین مثال رواں سال فروری میں پڑوسی ملک نے جنگی جنونیت کے زیر اثر پاکستان کے خلاف مہم جوئی کی جو ناکام کوشش رہی اور پاک فوج نے بھر پور جواب دیا۔ اس سارے عرصے میں ہندوستانی میڈ یا اپنے ملک و قوم کیلئے پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا سامان کرتا رہا۔ اس کی مثال ایسی رہی جیسے فٹبال کے میچ میں کوئی کھلاڑی اپنے ہی خلاف گول کرنا شروع کردے ہندوستانی میڈ یا زمانہ امن اور زمانہ جنگ کی رپورٹنگ میں فرق نہیں کرسکا اور اپنے ہی دیس و فوج کے خلاف چٹکللے چھوڑتا رہا۔

نہ صرف بھارتی میڈ یا اپنی خبروں یا رپورٹس کے ذریعےپاکستان کو نشانہ بنانے میں کوئی قصر نہیں چھوڑتا بلکہ وہ اپنے ڈ یلی سوپ اور فلم انڈ سٹری کی مدد سے بھی اس نفرت کو پھیلانے وار اپنی ہی عوام میں انتشار اور تعصب میں مبتلا کرنے کی ہر خاطرخواہ کوشش کرنے میں مصروف ہے۔ بھارتی بالی وڈ انڈ سٹری جو کہ ہندوستان کا سب سے بڑا ریونیو جنریٹ کرنے والا ادارہ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ بالی وڈ ایک بہت بڑی اور مایہ ناز انڈ سٹری ہےلیکن نہ صرف بھارتی میڈ یا بلکہ فلم ڈائریکٹر٬ پروڈ یوسر اور رائیٹر بھی اس نفرت کو پروان چڑھانے میں مؤ ‏ ثرکردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہندوستان میں صحافتی آزادی کا معیار ہماری صحافتی آزادی سے بڑھ کر ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری صحافت قدرے ذمہ دارانہ اور معروضی ہے۔ میڈ یا وہ واحد ذریعہ ہے جسکے زریعے عالمی سطح پر پیغام رسائی کرتا ہے اور یہی وہ ذریعہ ہے جہاں ہم دنیا میں امن و امان اور سلامتی کا پیغام پہنچاسکتے ہیں اور اس ہی شعبے کے ذریعے ہم دنیا سے تعصب ختم کرکے محبت پھیلا سکتے ہیں صحافیوں کو چاہئے کہ اشتعال انگریزی یا جنگی گفتگو کے بجائے محبت اور امن و سلامتی پر مبنی کالم نگاری اور رپورٹس بنائی جائیں جو کہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق بھی ہے۔
 

Talha shaikh
About the Author: Talha shaikh Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.