قوم کا فخر آپ ہی ہو

نئی صدی شروع ہورہی ہے اور نوجوان طبقے کے ہاتھوں میں ہماری باگیں ہیں، ان کی رہبری و رہنمائی ہی اب ہمارے لڑکھڑاتے قافلوں کو لیکر چلے گی، اگر یہ نوجوان ہی غلط سمتوں پر چل پڑے تو ہماری ناکامی ہے۔ پہلے بھی یہی موضوع کئی مرتبہ زیرِ بحث آچکا ہے کہ کسی بھی قوم و قبیلہ کا سرمایہ و اثاثہ نوجوان ہی ہوا کرتے ہیں، نوجوان علاقہ کی پہچان اور قوم و وطن کے محافظ بھی ہوا کرتے ہیں، قوم کی امیدوں کا مرکز، بوڑھوں کا سہارا، مستقبل کی آس و امید، یہی نوجوان ہی ہوتے ہیں، کسی بھی قوم کی تاریخ کو بدلنے اور ایک نیا رخ و راستہ دینے والے ہمیشہ نوجوان ہی ہوتے ہیں، تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی کسی قوم نے ترقی کے زینے عبور کیے ہیں تو مرکزی کردار نوجوان ہی رہا ہے۔ تاریخ کے اوراق اس بات کو بھی بیان کرتے نظر آتے ہیں کہ جب بھی کسی مظلوم نے پکار دی ہے تو غیرت مند بن کر اس مجبور و مظلوم اور مقبوض کی آواز پر لبیک کہنے والا اور دشمن کے چنگل سے چھڑانے والا یہی نوجوان تھا، دور ِ اسلاف کو دیکھا جائے تو بیشمار اس کی مثالیں تاریخ کے اوراق پر قرطاس کی جاچکی ہیں۔یہ نوجوان جو تاریخ رقم کرتے ہیں وہ تاریخ برسوں تک بعد میں آنے والوں کیلئے ایک سبق ہوا کرتی ہے، یہ نوجوان نسل ِ انسانی میں وہ شہ رگ کی مانند ہے کہ اگر یہ کٹ گئی یعنی یہ نوجوان زائل ہوگیا تو پھر ہماری تباہی و تنزلی میں کوئی دوسری شئے روکاٹ نہیں بن سکتی! اگر آج ان نوجوانوں کی صحیح نہج پر تربیت نہ کی گئی ، ان کی سمتوں کا تعین نہ کیا گیا ، ان کو ان کے روشن مستقبل سے روشناس نہ کرایا گیا تو کل ہمارے پاس فقط ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہیں ہوگا! آج ہی اس گرم خون کو بتانا ہوگا "احساس و ضمیر کسے کہتے ہیں" آج اس چڑھتی جوانی کو یہ بار آور کرانا ہوگا "حیا و پاکدامنی" کسے کہتے ہیں آج اس جوش مارتے جذبات کو بتانا ہوگا "میرے ملک اور میرے شہر کے المیے کیا ہیں" آج اس ذہین و فطین اور متین سٹوڈنٹ کو بتانا ہوگا کہ "تعلیم کی کتنی اہمیت ہے" معاشرہ و سماج کی اصلاح کیلئے ضروری ہے کہ نوجوان کو صحیح معنوں میں رہنمائی دی جائے! اس کو مقصد ِ حیات بتایا جائے!

ہمارے معاشرے میں جہاں برائی ہے اور جس کا رونا روتے ہوئے ہمیں نہیں تھکتے، وہیں معاشرے میں کچھ نوجوان یا ان کا کردار ایسا ہے کہ ان کو سراہتے ہوئے دل نہیں بھرتے، قلم نہیں تھکتے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جن کو میرا قلم تا دم مرگ بھی خراج تحسین پیش نہیں کرسکتا، مجھے کسی سے کوئی بھی امید قطعاً نہیں تھی، میں مکمل طور پر نا امید اور مایوس ہوچکا تھا، ایسے میں چند ایسے نوجوانوں کو اور ان کی ایکٹیوییز کو دیکھا تو دل مجبور ہوگیا کہ ان کو خراج تحسین پیش کیا جائے اور جب سے اُن کی سرگرمیوں کو دیکھا ہے تو معاشرے کے ساتھ پھر سے ایک امید سی بندھ گئی ہے کہ ممکن ہے بلکہ یقین ہے کہ یہی نوجوان میرے پاکستان کو اندھیروں سے نکالیں گے انشاءاللہ!

فی الحال میرے سامنے دو نام اور دو تنظیمیں ایسی ہیں کہ مجھے ان کی ماؤں پر بھی فخر ہے جن کی کوکھ سے ایسے شیر دل، مثبت سوچ، غریب و معاشرے کا درد رکھنے والے بچے جنم لیے! ان دو میں سے پہلے محترم چوہدری محسن خالد صدیقی ہیں جن کا تعلق دنیا پور سے ہے ان کے والد کا کہنا ہے کہ "میں نے اپنے بیٹے کو انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کردیا ہے" ان کی تنظیم کا نام "تعظیم انسانیت فاؤنڈیشن" ہے جس کا مقصد قرآن و حدیث کی تعلیم عام کرنے کے بعد انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہے۔جس میں یتیم، غریب، لاچار طبقے کی مالی، معاشی اور معاشرتی معاونت کرنا، راشن، ادویات اور دیگر ضروریات زندگی کا ان کے مستحقین تک پہنچانا، فری میڈیکل کیمپ اور ورکشاپس کا انعقاد کرنا۔تعظیم انسانیت فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام اب تک 62 میڈیکل کیمپ ہوچکے ہیں، جن میں تقریباً 25000 مریضوں کو فری ادویات دی جا چکی ہیں،غریب خاندان جو شادی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے 12 ایسے خاندانوں کی شادیوں کروا چکے ہیں، 5000 کے لگ بھگ لوگوں کو راشن علیحدہ طور پر دے چکے ہیں، اور کرونا کی پہلی لہر کے دنوں میں 7 لاکھ کا راشن تقسیم کرچکے ہیں، اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔

دوسرا نام میرے علاقے کا فخر ڈاکٹر رب نواز افضل صاحب ہیں میری پسماندہ تحصیل سے ہی ان کا تعلق ہے، چار فلاحی تنظیمیں ان کے زیر سایہ ہیں، ان کی فعال فلاحی تنظیم کا نام "سایہ خدائے ذوالجلال" ہے ان کے مقاصد بھی وہی ہیں کہ قرآن و حدیث کی تعلیم عام کرنے کے بعد انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہے۔جس میں یتیم، غریب، لاچار طبقے کی مالی معاشی اور معاشرتی معاونت کرنا، راشن، ادویات اور دیگر ضروریات زندگی کا ان کے مستحقین تک پہنچانا، فری میڈیکل کیمپ اور ورکشاپس کا انعقاد کرنا، غریب اور یتیم خاندانوں کی شادیاں کروانا اور ان کو جہیز فراہم کرنا، غریب خاندان کے بچوں کے لیے کتب و دیگر ضروریات مہیا کرنا تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں....! ان کی باقی تمام تنظیموں سمیت یہ بھی باقاعدہ رجسٹرڈ ہے۔ یہ تنظیم اب تک 25 غریب خاندانوں کو بمع جہیز و راشن شادی کروا چکی ہے، 4000 خاندانوں کو راشن بھی تقسیم کرچکے ہیں، اور اب تک 7 فری میڈیکل کیمپ لگوا چکے ہیں جس میں تقریباً 5000 لوگوں کا علاج ہوا ہے۔

اب آپ اور مجھ پر منحصر ہے کہ وہ تو اپنے حصے کا دیا جلا رہے ہیں اور کام کررہے ہیں ان کے پاس ہر شام کوئی شادی کیس کوئی میڈیسن کیس یا مستحق آتا رہتا ہے، کیا ہم صرف خالی داد ہی دیں گے؟ یا ان کے ساتھ مالی تعاون بھی کریں گے؟ اگر ہم ان کو اپنا وقت دیکر اپنی صلاحیتیں نہیں دے سکتے تو اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے مال میں سے تو کچھ دے سکتے ہیں تاکہ یہ نوجوان اس میدان میں لگے رہیں.... تو آئیے! فقط داد نہیں مالی تعاون بھی کیجئے نیچے دونوں قابل فخر سپوتوں کے نمبر دیے جا رہے ہیں
خود ان سے رابطہ کریں اور اپنے مال کی قربانی دیں.....(اور یہ میری ذاتی رائے و گزارش ہے تاکہ ہمارا حصہ بھی شامل ہوجائے)
 

Hafiz Umair Hanfi
About the Author: Hafiz Umair Hanfi Read More Articles by Hafiz Umair Hanfi: 2 Articles with 1742 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.