بھکاری ہمارے معاشرے کا ناسور

ملک کے ہر شہر میں ہر گلی اور ہر چوراہے پے جہاں لوگوں کی خاصی آمدورفت ہو۔ وہاں پے ہمیں خاصی تعداد میں بھکاری نظر آئیں گے اور کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر ہٹے کٹے ہوتے ہیں انہوں نے اپنا حلیہ ایسا کیا ہوتا ہے کہ خدا معاف کرے اور ان میں زیادہ تعداد معصوم بچوں اور نوجوان لڑکیوں کی ہوتی ہیں۔ میں ایک ایسے محلے میں رہتا ہوں‌ جہاں ایک بھکاری کا بچہ بھی رہتا ہے۔اب وہ کم وبیش 7 بہن بھائی ہوں گے اور ان کا والد ایک نمبر کا جواری شرابی اور تمام طرح کی برایئوں سے بھرپور ہے اس بچے کی عمر کوئی 10 یا 12 سال ہو گی اور وہ روزانہ عوام ایکسپریس میں لاہور جاتا ہے۔ اس کے والد نے بچپن میں اس کے ہاتھ اور پاؤں کو ٹیڑھا کر دیا تھا اس کی روزانہ کی روٹین ہے کہ وہ صبح5 یا 6 بجے ریلوے اسٹیشن پر موجود ہوتا ہے۔ اور واپس اس نے علامے اقبال ایکپریس میں آنا ہوتا ہے اب اس کی روزانہ کی جو آمدن ہے وہ کم از کم 500 سے 600 تک ہوتی ہے اب جو کوئی کام کیے بنا اتنا پیسہ کماتا ہو اس نے کیا کام یا کیا پڑھنا ہے۔ اس سے پوچھا کہ یار تم پڑھنا نہیں چاہتے بولا بھائی جان کی فائدہ پڑھ کے وی دھکے ای پینے وا تے اس تو چینگا نیں میں اے او کری جاوا۔

میں تھوڑا مزاح طبعیت کا ہوں اور بہت جلد لوگوں میں گھل مل جاتا ہوں اس کو بھی میں کافی عرصے سے جانتا تھا صرف اسٹیشن کی حد تک۔ جب میں نے اس سے دوسرا سوال کیا تو بھی اس کا جواب سن کر ہنسی بھی آئی اور اس کی سوچ کا بھی اندازہ ہوا کہ ایک معصوم بچہ بھی ارباب اختیار کے بارے میں کتنے اچھے خیالات رکھتا ہے میں نے پو چھا یار تجھے کبھی شرم نہیں آتی تو اس نے ہنس کر کہا بھا جی میں تا منگدا واہ مینوں کی شرم آنی واہ ایتھے ہر کوئی منگتا واہ ساڈے ملک دا صدر تے وزیر تیکر منگتا واہ بس فرق اینا واہ میں ٹرین وچ منگدا واہ او پلین(جہاز) وچ۔ اب بات اس افسوس ناک امر کی ہے کہ یہ وہ بچہ ہے جس کی عمر اسکول جانے کی ہے کتابوں اور کاپیوں پر پڑھنے اور لکھنے کی ہے لیکن وہ مانگ رہا ہے ایسے ہزاروں بچے ہمیں سڑکوں اور بارونق جگہوں پر ملیں گے. اور ان کے ساتھ ساتھ جوان لڑکیاں بھی ملیں گی جو کہ مانگنے کے ساتھ ساتھ بدکاری کا بھی کام بڑے پر امن طریقے سے کرتی ہیں۔ان پیشہ ور لوگوں نے اپنی جڑے اتنی مضبوط کر لی ہیں کہ اب ان کو آسانی سے نکالنا ممکن نہیں۔اور اگر خدا نہ کرے کبھی کسی کہ ساتھ سچ میں ایسا واقعہ پیش آجائے کہ اس کے پیسے گر جائیں یا کوئی جیب تراش اپنی عیدی بنا لے تو اس شخص پر یقین نہیں آتا کہ یہ سچا ہے کہ بھکاری۔ایک دفعہ میں ملتان سے اوکاڑہ آرہا تھا جب ریلوے اسٹیسن پر گاڑی رکی اور میں گیٹ کی طرف گیا باہر آنے کو تو گیٹ کے بلکل ساتھ ایک مولوی کھڑا تھا اس کے ساتھ اس کہ نوجوان بیٹی ایک بیٹا اور ساتھ بیوی میں نےٹکٹ چیکر کو ٹکٹ دی تو ساتھ ہی اس مولوی نے مجھے آواز دی اور کہا بیٹا ہم چاروں نے راولپنڈی جانا ہے ہم کراچی سے ٹرین میں بیٹے تھے کہ راستے میں کسی نے ہمارا بیگ اٹھا لیا اور ٹکٹ بھی اس میں تھے اور جب ہمں معلوم ہوا کہ بیگ چوری ہو گیا تو میں نے سوچا کہ کیا فائدہ آگے ٹرین میں کوئی مسئلہ ہو اس سے اچھا ہے ادھر ہی اتر جائیں. میں نے جیب سے سو روپیہ نکالا اس کو دے دیا اور کہا کے میرے پاس بس یہ ہی ہیں اس نے کہا یہ بہت کم ہیں میں نے کہا کسی اور سے پوچھ لیں اور میں واپس آگیا اب مجھے یقین آگیا تھا کہ ان کہ ساتھ سچ میں ایسا ہوا ہو گا۔اب پھر میرا اترنا 20 سے 25 دن بعد لاہور اسٹیشن پر ہوا اور وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ہی چاروں موجود ہیں مجھے اتنا غصہ آیا کہ میرا دل کرے میں اس کا سر پھاڑ دوں۔اس طرح کے اور بہت سے واقعات آپکی زندگی میں بھی آتے ہوں گے۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان کہ خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی۔ کیوں یہ لوگ اتنے دلیر ہو گئے ہیں کیوں ان کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں کہ وہ کسی کو لوٹتے ہوئے کچھ نہیں سوچتے۔ وہ اس لیے کہ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں میں وقت کے حکمرانوں سے پوچھنا چاہتا ہو کہ کب اپنی آنکھوں سے پتھر کا چشمہ اتارنا ہے کیوںنکہ کالے چشمہ میں تو کچھ نہ کچھ نظر آتا ہی ہے لیکن پتھر کے چشمہ میں سے کچھ نہیں

ان کو روکنے کی بجائے ان سے رقم لے کے چھوڑ دیا جاتا ہے کوئی ہوچھنے والا نہیں خدارا کچھ اقدامات کرو اس ملک سے ایسی لعنت کو ختم کرو ان کہ خلاف کاروائی کرو اور وہ کرو جو کرنے کے لیے تم کو عوام نے چنا ہے۔ صرف بیان بازی یا افسوس سے کام نہیں چلے گا۔کچھ تو حق ادا کرو اس مٹی کا۔
javed Gujar
About the Author: javed Gujar Read More Articles by javed Gujar: 3 Articles with 3421 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.