کل عید کا تہوار تھا اور محبت و
پیار کا دن تھا لیکن کل بھی وہ ہی ہوا جو عام دنوں میں ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ کل
رات میں اپنے چند دوستوں کے ہمراہ گھومنے پھرنے اوکاڑہ فیملی پارک میں چلا گیا،
پولیس نے لڑکوں کی انٹری بند کی ہوئی تھی. تھی۔ ہم واپس آرہے تھے کہ نہر والے
پل پہ ایک لڑائی ہو رہی تھی. ہم سب دوست گاڑی میں سے اتر کے ان کو چھڑانے کیلیے
گئے تو وہ بہت لوگ اکھٹے ہو گئے تھے. جتنی ہمت تھی ان کو چھڑایا۔اب لڑائی کی
وجہ معلوم کی تو پتا لگا کہ دو لڑکوں کی موٹرسائیکل آپس میں ٹکرا گئی تھی۔ پہلے
ایک پارٹی بھاری تھی۔ پانچ لڑکوں نے ایک لڑکے کو مارا پھر اس ایک لڑکے نے اپنے
ساتھیوں کو فون کیا اور کالے رنگ کی گاڑی میں مزید 5 لوگ آگئے جنہوں نے شراب پی
رکھی تھی اور پھر ان پانچوں نے ان لڑکوں کو پیٹا۔اسی دوران پھر پہلے والوں
لڑکوں کے مزید ساتھی آگئے۔اور ان 6 آدمیوں کو مارا پیٹا۔اور تھوڑی ہی دیر بعد
ان 6 آدمیوں کے مزید ساتھی آگئے اور پہلے والی پارٹی کو خوب مارا اور ایک لڑکے
کو قابو کر لیا۔ اور اتنی بے دردی سے اس لڑکے کو مارا کہ الفاظ میں اس کا بیان
نہیں۔اب پولیس کی موبائل وہاں موجود تھی جس میں کم از کم 5،6 پولیس اہلکار
موجود ہوں گے۔ لڑائی کا دورانیہ کم از کم 15سے 20 منٹ ہوگا لیکن اس ٹائم میں
کسی بھی پولیس اہلکار نے آگے آکے ان کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔اور جس لڑکے کو
مار پڑ رہی تھی اس کو مکوں لاتوں گھونسوں تھپڑوں سے اور بالوں سے پکڑ کر اس بری
طرح مارا جارہا تھا جیسے دھوبی اپنے کپڑوں کو صاف کر رہا ہو۔ پھر ان میں سے کسی
نے ہمت کی اورایلیٹ فورس کو فون کیا اور چند لمحوں بعدایلیٹ کے جوانوں کی ایک
گاڑی آئی جس نے حالات کو کنٹرول کیا۔اب بات اس افسوس کی ہے کہ ان پولیسں والوں
نے کیا کسی کی حفاظت کرنی یا کیا امن بر قرار رکھنا ہے جو ایک لڑائی کو ختم
نہیں کروا سکے کیوں ایسے انسان بوجھ ہیں ہم پے اور ہمارے ملک پے کیوں ان لوگوں
کو کروڑوں روپیہ ہر ماہ دیا جاتا ہے۔ جن میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ ایک لڑائی کو
رکوا سکیں۔ایسے بزدل لوگوں نے کیا ہماری یا ہمارے ملک کی حفاظت کرنی ہے. خدارا
کب ہمارا ملک ترقی کرے گا کب یہاں سے یہ دنگے فساد ختم ہوں گے۔ کیوں ہم میں
تحمل نہیں کیوں ہم میں معافی کا رواج نہیں |