شراب، ہیروئن، افیون، چرس،
گردا کا کھلا عام استعمال اور قانون کے رکھوالے خاموش تماشائی
شراب٬ ہیروئن، افیون، چرس، گردا.ان چیزوں کا نام سن کر ہی ذہن میں ایک عجیب
منظر آتا ہے۔ جھومتے گھومتے اور گالیاں بکتے لوگ شراب جس کی ہمارے مذہب میں بڑی
سختی سے ممانعت ہے اور تو اور اس کو پینےوالوں کی بڑی سخت سزائیں دنیا اور آخرت
دونوں میں ہیں اس کے باوجود اس کا اتنا کھلے عام استعمال کیا جاتا ہے کہ کسی کو
کوئی پروا نہیں. رمضان المبارک کا مقدس ماہ گزرا تو خدا نے مسلمانوں کو انعام
میں عید کا تحفہ دیا۔ جتنے گناہوں سے رمضان کے ماہ میں بچا جاتا ہے اس سے بڑھ
کر صرف اس ایک دن میں کر دیے جاتے ہیں۔ کچھ تو ایسے بدقسمت ہوتے ہیں کہ ان کو
رمضان کہ ماہ کا بھی خیال نہیں ہوتا اور رمضان میں بھی پیتے رہتے ہیں۔ اور اس
سے بھی بڑے بدقسمت وہ لوگ ہیں جو رمضان میں روزے بھی رکھتے ہیں اور پھر عید کے
دن خوب شراب پیتے ہیں۔ آجکل اس چیز کی شرح اتنی بڑھ گی ہے کہ خدا خیر کرے، نہ
کوئی روکنے والا ہے نہ کوئی پکڑنے والا ہے کیا عید کے دن کی چھٹی دی ہے ہمارے
مذہب یا ہمارے قانون نے، تو ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے کیوں ایسا کرتے
ہیں کہ ان کے سامنے پورے پاکستان میں ہزاروں لوگ عید کے دن شراب پی کے غل غپاڑہ
کرتے ہیں اور راہ چلتے شریف لوگوں کو تنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ انہیں کوئی
پکڑنے والا نہیں، اور اگر کبھی راہ چلتے پیسوں کی ضرورت پڑجائے کسی پولیس والے
کو اور اس شرابی کی قسمت خراب ہو تو اس کو پکڑا جاتا ہے اور کچھ دے دلا کے چھوڑ
دیا جاتا ہے۔
بے غیرتی کی تو انتہا یہ ہے کہ باقدہ طور پر شراب کو بیچنے والوں کو license کا
اجراﺀ کیا جاتا ہے کہ تو بدمعاشی سے شراب بیچ اگر کوئی ایماندار پولیس والا
چھاپہ مارے بھی تو تجھے کوئی پروا نہ ہو اور اگر پوچھا جائے کیوں ان کو اتنی
آزادی دی ہیں کہ لوگ اتنی دلیری سے شراب بیچیں تو کہا جاتا ہے یہ اقلیتوں کے
لیے ہے اور وہاں سے سب سے زیادہ ہم مسلمان بھائی خریدتے ہیں۔ میں نے اپنی
آنکھوں سے دیکھا ہے کہ میرا جانا (سندھ) شہداد پور ضلع سانگھڑ میں ہوا وہاں پر
میرا کزن اپنے ایک دوست سے ملوانے لیے گیااور وہ شراب پیتا تھا اس نے مجھے بھی
دعوت دی میں نے کہا میں شراب نہیں پیتا پھر میں نے پوچھا تم یہ اتنی آسانی سے
کہاں سے لے آتے ہو تو اس نے ایک بلند قہقہ لگایا اور کہا بھائی پاکستان میں ہر
چیز ممکن ہے یہاں ایک باقاعدہ دوکان ہے جہاں شراب کا دھندہ سرعام ہوتا ہے میں
نے پوچھا کہ کس دوکان سے تو اس نے کہا"گوتھا" سے(یہ اس دوکان کا نام ہوتا ہے
جہاں پر شراب آپکو آسانی سے مل جاتی ہے) میں جب اس سے مل ملا کر فارغ ہوا تو اس
گوتھے کی طرف اپنے کزن کے ساتھ چلا گیا انہوں نے تو شراب ایسے لگا رکھی تھی
جیسے کاسمیٹکس کی دوکان ہر شیمپو یا پاوڈر کی بوتلیں ہوں۔اور بلا کسی شناخت کے
آپکو آسانی سے مل جاتی ہیں۔ اور بعض پولیس والے بھی اتنے دلیر ہوتے ہیں کہ
انہوں نے اپنے ہی تھانے میں پی کرادھر ہی غل غپاڑہ شروع کیا ہوتا ہے اب ان کو
اس سے آگے کہاں لے کر کوئی جائے یا ان کو کون پوچھے کیا قانون ان کو اجازت دیتا
ہے کہ وہ خود پی لیے اور کیا مذہب ان کو اجازت دیتا ہے کہ ہماری ملک پاکستان کی
پولیس کو شراب کی اجازت ہے جو لوگ خود نہیں روک سکتے وہ کسی کو کیا روکیں گے
اور کچھ اس سے ملتا جلتا حال اپنے باقی تمام صوبوں کا ہے۔آجکل چرس٬ ہیروئن٬
افیون اور گردئے کا استعمال نوجوانوں میں انتہا کو پہنچ گیا ہے کہ خدا خیر کرے
جو حال ادھر شراب کا ہے وہ ہی چرس کا ہے آپکو آسانی سے مل جاتی ہے اور میں
نےاپنی زندگی میں بہت سے ایسے لوگ دیکھے ہیں جن کو لاتعداد بار پولیس پکڑ کر لے
گئی.
اور زیادہ سے زیادہ 10 یا15 دن میں وہ پھر نظر آتے ہیں اور اتنے کھلے عام ان کو
بیچتے ہیں جیسے بچوں کو کچھ بانٹا جارہا ہو۔ افیون کا استعمال کھلے عام کیا
جاتا ہے گردا(یہ چرس کی خالض نسل کو کہاجاتا ہے)ہالانکہ جو مجرم چرس کی بہت کم
مقدار کے ساتھ پکڑا جائے اس کو سزائے موت ہے میں نے اپنی زندگی میں کسی چرس
بیچنے والے کو پھانسی لگتے تو دور کی بات اس کو1 ماہ سے زیادہ عرصہ حوالات میں
رہتے نہیں دیکھا۔اب کہاں گیا ہمارا قانون کون روکے گا ان کو ہم؟ اگر ہم نے ہی
روکنا ہے تو ان کا کیا کرنا ہے جو اربوں روپیے کی تنخواہیں ہر ماہ پاکستان کی
عوام سے وصول تے ہیں اور اربوں کا پیٹرول پی جاتے ہیں خود بھی اور ان کی سرکاری
گاڑیاں بھی۔ جس کام کے لیا رکھا گیا ہے وہ کیوں نہیں کرتے بس مٹھی گرم کرو ان
کی اور جس کو مرضی اٹھوا لو۔اگر محافظ ہی رہزن ہو گئے تو کیا ہوگا اس ملک کا۔
کوئی نہیں سوچتا اس کا ہر کوئی اس چکر میں ہے کہ فلاں ماڈل کی کار ہو فلاں ماڈل
کا گھر ہو۔ عوام نشے میں غرق ہو جائے ان کو کوئی پروا نہیں۔ لاکھوں گھر اس نشے
نے اجاڑ دیے ہیں کسی کا بھائی تو کسی ماں کا بیٹا اس نشے کی لعنت سے مر گیا۔
خدارا کچھ اپنے رب کا خوف بھی پیدا کرو دل میں کیوں اپنی تجوریوں کا ہی سوچا ہے
تم لوگوں نے. |