جذبات اور احساسات کو لفظوں میں ڈھالنے کا ہنرہرکسی کو
نہیں آتا اوراسی طرح موتیوں کی لڑی کو لفظوں میں پرو کر مکمل ہار بنانا بہت
مشکل کام ہے۔’’کتابوں کی صدی‘‘ میں ایسے کتابیں بہت کم ملتی ہیں جن میں
تحریر کے تمام پہلوؤں کا حق بھرپور طریقے سے ادا کیا گیا ہو اورپوری کتاب
کو پڑھتے ہوئے کہیں کوئی ایسا لمحہ نہ آئے جہاں بوریت کا احساس ذہن پر حاوی
ہونے کی کوشش کرے۔ایسے ہی اوصاف کی حامل کتاب اس وقت میرے زیر مطالعہ ہے جس
کا نام ’’روشنی کی کرن‘‘ہے اور اس کے مصنف معروف نوجوان لکھاری حافظ محمد
زاہد ہیں۔، روشنی کی کرن میں مصنف نے بہت ہی عمدہ طریقے سے تحریر کے ہر
پہلو کوسمیٹ کر ایک مکمل کتاب کا حق ادا کیا ہے۔
حافظ محمد زاہد دینی و دنیوی تعلیم سے آراستہ ہیں اورنصف درجن کتابوں کے
مصنف ہیں۔انہوں نے لکھنے کی ابتدا علمی ومعاشرتی موضوعات پر تحقیقی طرز کے
مضامین لکھنے سے کی جو پاکستان کے علاوہ مختلف ممالک کے رسائل وجرائد میں
شائع ہوتے رہے ہیں۔ان مضامین کا مجموعہ ’’ہدایت کی کرنیں‘‘ کے عنوان سے ایک
ضخیم کتاب کی صورت میں شائع ہوچکا ہے۔ان کے علاوہ آپ تین سو سے زائد کالم
اور سو کے قریب مختصر سبق آموز کہانیاں لکھ کے ہیں۔ انہی کاوشوں کی بنا پر
حافظ محمد زاہد صاحب بہت سے ایوارڈ اور اسناد اپنے نام کر چکے ہیں اور پھر
نئے لکھنے والوں کو سکھانے کی غرض سے اس وقت معروف ادبی تنظیم ’’آل پاکستان
رائیٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن‘‘ کے مرکزی سینئر نائب صدر کے فرائض بھی بخوبی
سر انجام دے رہے ہیں۔
حافظ محمد زاہد کے روشنی کی کرن کے عنوان سے شائع ہونے بہت سے کالم اورکرن
کہانی کے عنوان سے شائع ہونے والی کئی مختصر کہانیاں میں نے سوشل میڈیا کی
وساطت سے پڑھیں اوراپنے حلقہ احباب میں موصوف کی بہت سی کتب اور خاص کر
روشنی کی کرن کاچرچا سنا تو میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی ان
کی یہ کتاب پڑھوں۔ شاید میں نے سچے دل سے یہ خواہش کی تھی جو الحمد ﷲ
فوراًقبول ہوگئی۔ آل پاکستان رائیٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کی تربیتی ورکشاپ
میں میری ملاقات حافظ محمد زاہد سے ہوئی۔یہ میری ان کے ساتھ پہلی ملاقات
تھی جس میں ان کے خلوص اور ادب ولحاظ نے مجھے بے حد متاثر کیا کہ تقریب میں
موجود ہر خاتون کو وہ بہن کہہ کر مخاطب کررہے تھے ۔اس انتہائی پرخلوص شخصیت
نے مجھے اپنی کتاب ’’روشنی کی کرن‘‘ بطور تحفہ پیش کی جو میرے لیے کسی
اعزاز سے کم نہیں تھی۔ میں بالکل بھی اس قابل نہیں مگر آج اس کتاب پر اپنے
جذبات کا اظہار تبصرہ کی صورت میں کرنے کی ادنیٰ سی کوشش کررہی ہوں۔
’’روشنی کی کرن‘‘ چھ ابواب پر مشتمل مکمل باغ ہے۔ جس طرح باغ سے تمام
پھولوں کو سمیٹ کر ’’گلدستہ‘‘ بنایا جاتا ہے بالکل اسی طرح مصنف نے پھولوں
کی مانند تمام تحریروں کو ایک خوبصورت کتاب میں سجایا ہے، جس کی روشنی ہر
پڑھنے والے پہ بے حد اثر رکھتی ہے۔ میرے نزدیک روشنی کی کرن کے چھ ابواب
نہیں‘بلکہ مکمل چھ کتب ہیں۔گویا جو ان چھ ابواب کا مطالعہ کرلے گا وہ یہی
خیال کرے گا کہ اس نے چھ کتابیں مکمل پڑھ لی ہیں۔کتاب کے پہلے باب کا آغاز
’’اسلام اور قرآن‘‘ سے کیا گیا ہے جو کہ میرے اور آپ سب کے دل کے بہت قریب
ہے اور بہت ضروری ہے کہ ہماری اولین ترجیح اسلام ہی رہے۔ بہت ہی خوبصورتی
سے اس باب کو قرآن اور اسلام سے سجایا گیا ہے۔ دعا ہے اس کو پڑھنے والے لوگ
اس پر عمل بھی کرسکیں۔اس باب کے علاوہ کتاب میں قائد اور پاکستان‘ رشتے
اوررویے‘ سماج اور حکمران‘ آداب اور فرائض‘کتاب دوستی کے عنوان سے باقی
ابواب ہیں جن میں ان عنوانات سے متعلق ہر ایک پہلو کو نہایت شاندار لفظوں
سے مزین کیا گیا ہے۔کتاب میں موجود چھ ابواب گویا پھولوں کے مکمل گلدستہ کی
مانند ہیں اور جیسے ہر پھول کی خوشبوایک الگ نوعیت کی ہوتی ہے اسی طرح کتاب
کی ہر تحریر میں کوئی نہ کوئی سبق اور اصلاحی پہلو ضرور موجود ہے۔
کتاب کے تیسرے باب میں باہمت لڑکی کی کہانی میرے دل کے تاروں کو چھوگئی جس
نے مجھے بہت متاثر کیا‘اس لیے کہ کہانی کا کچھ حصہ مجھ سے بہت ملتا ہے۔اس
کہانی کی باہمت لڑکی ثمرین زاہد ہیں جن کو SAM Zahid کے نام سے سب جانتے
ہیں کیونکہ یہ ہمارے مصنف بھائی کی ہمسفر ہیں جنہوں نے ہر مشکل اورخوشی
وغمی میں زاہد بھائی کا ساتھ دیا ہے۔ ثمرین زاہد خود ایک بہترین لکھاری
ہیں۔ میری دعا ہے آپ دونوں کا ساتھ ایک دوسرے کے سنگ سلامت رہے۔
کتاب میں بہت سی اہم شخصیات کے شاندار تبصرے بھی موجود ہیں جن کو پڑھ کر
محسوس ہوا کہ حافظ محمد زاہد صرف ہمارے ہی نہیں بلکہ اپنے سینئرز اور ہرایک
کے ہر دل عزیز ہیں جنہوں نے اپنی محبت کا اظہار کتاب میں اپنے تبصرے لکھ کر
کیا ہے۔
کتاب کی سب سے اچھی خاصیت جس نے مجھے بے حد متاثر کیا وہ یہ ہے کہ اس میں
شاعرانہ و منظومانہ تبصرے بھی موجود ہیں جو میں نے پہلی بار کسی کتاب کا اس
طرح حصہ دیکھیں ہیں۔ اس کتاب میں تیرہ شاعرانہ تبصرے ہیں جن میں سے ہر ایک
اپنی مثال آپ ہے۔ان میں سے ایک تو مجھے بہت زیادہ پسند آیا‘وہ ہے حذیفہ
اشرف عاصمی کا شاعرانہ تبصرہ:
میرے سامنے ایک کتاب
پڑھ کے دیکھا ہے ہر باب
روشنی اس میں سے جو پھوٹے
ہر کوئی پڑھنے کوبے تاب
زاہد نے کیا تحفہ بھیجا
واسطے اپنے ہے زرِناب
پائی حذیفہ نے تعبیر
دیکھے تھے جو روشن خواب
یہ تو تھی روشنی کی کرن کی بات اور اگر میں ان کی شخصیت کی بات کروں تو
حافظ محمد زاہد کو میں نے ذاتی طور پر بڑا بھائی اور ایک لیڈر کی صورت میں
پایا ہے جنہوں نے ہمیشہ ہر قدم پہ میری حوصلہ افزائی کی ہے۔ ہر مشکل کام
میں ساتھ کھڑے ہوکر بڑے بھائی ہونے کا حق ادا کیا ہے۔ زاہد بھائی صرف میرے
ہی نہیں ‘بلکہ ہر ایک کے ہردل عزیز ہیں اور جو بھی ان سے ملتا ہے ان کی
پرخلوص محبت سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا اور دوبارہ ملنے کی چاہ رکھتا
ہے۔
آج کل کے دور میں بہت کم لوگ ہیں جو آپ کو سیدھا راستہ دکھاتے ہیں‘ کیونکہ
زندگی کی دوڑ میں اور مقابلے کی آڑ میں لوگ ایک دوسرے کو روندتے ہوئے آگے
بڑھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ بہت کم لوگ آپ کو ایسے ملتے ہیں جو آپ کے
ساتھ دل سے مخلصانہ رویہ رکھتے ہیں اوربطور استاد آپ کو سیکھاتے اور
سمجھاتے ہیں۔ انہی لوگوں میں ایکنمایاں نام حافظ محمدزاہد بھائی کا ہے۔
جہاں کسی کو مشکل پیش آتی ہے تو فوراً مدد کو تیار رہتے ہیں۔ یہ شعر
زاہدبھائی کی عکس بندی کرتا ہے جس کو یہاں لکھنا ضروری ہے سمجھتی ہوں۔
ہے جہاں میں وہی لوگ اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ حافظ محمد زاہد بھائی کو دین و دنیا کی تمام
کامیابیاں عطا کریں کہ آپ دن دگنی ترقی حاصل کریں اور اسی طرح بڑے بھائی
اور ایک استاد کی طرح اپنا سایہ ہمیشہ مجھ پر قائم رکھیں۔ اﷲ تعالی آپ جیسے
انسان اور بھائی ہر گھر میں پیدا کریں جو آج بھی انسانیت کو زندہ رکھے ہوئے
ہیں اور پر خلوص جذبات اور محبتیں بانٹ رہے ہیں۔ سلامت رہیں ‘شاد وآباد
رہیں‘ الٰہی آمین!
|