آپﷺ کا ارشاد ہے ’’ جس چیزمیں نر می آ جا تی ہے اسے
خوبصورت بنا دیتی ہے اور جس چیز سے چلی جا تی ہے اس کی قدرو قیمت کم کر
دیتی ہے ‘‘۔نر می ایک بڑا اخلاقی وصف ہے جو شخصیت پر مثبت اثرات چھوڑتا ہے
، اسی وجہ سے انبیا ء کرام خود بھی نرم خو اور رحمت و رفا قت کا مجسمہ ہوتے
ہیں اور اپنے پیروں کاروں کو بھی اس کی تلقین کرتے ہیں ، ہر انسان کو اپنے
اندر نر می ا ور رحمدلی کی صفت پیدا کر نی چا ہیے ، آج کل لو گ نر می اور
رحمدلی کی نعمت سے محروم ہو رہے ہیں ،ہمیں نر می اور رحمدلی کا مظا ہرہ کر
نا ہو گا ، نر م مزاج بنئیے ، اور نر می کو تھا م لیجئے ، صبر اور استقا مت
کے سا تھ رہیے ، آ سا نی پیدا کیجئے ، مشکلیں کھڑی مت کیجئے ۔
چہرے
انسان کے تین چہرے ہوتے ہیں ۔ پہلا وہ جو دنیاکو دکھلاتا ہے ، دوسرا جو
اپنے گھر وا لو ں کو دکھلاتا ہے ، تیسرا وہ جو کسی کو نہیں دکھاتا ۔وہی اس
کا اصلی چہرہ ہو تا ہے ۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں شا دی کے پہلے رشتہ طے کر
تے وقت دلہا اور دلہن دنیا کے سب سے اچھے لڑکی ، لڑکا بن کر سا منے آ تے
ہیں پھر شا دی کے بعد دلہا ،دلہن ایک دوسرے سے محبت کر تے نظر آ تے ہیں پھر
کچھ دنو ں بعد ان کا اصلی چہرہ سا منے آ تا ہے زبر دستی کی نزدیکیو ں سے
دوریا ں بہتر ہیں یہ کہہ کر طلا ق ہو جا تی ہے ۔
جئے تو کیا جئے؟
ہم پیداہوئے جئے اوربس مر گئے ہمارے پیدا ہو نے سے کسی کو نا خوشی نہ کو ئی
غم پتہ ہے کیو ں ہم نے ایسا کو ئی کام ہی نہیں کیا جس سے اوروں کو ہمارے
جینے اور مر نے سے کچھ حا صل ہو ، ہم تو بس سا ری زند گی اپنے لیے ہی جیتے
رہے۔ یا د رکھیے بہت آئے اور چلے گئے لیکن نام انھیں کا لیا جا تا ہے جنھو
ں نے اوروں کیلئے اپنی قر با نیاں پیش کی چا ہے پھر وہ وقت کی ہو ، یا پھر
پیسے کی ہو ، یا پھر جان کی ہو ، ہم زندہ ہیں ایک مر دے کی طرح جو زندہ تو
ہے، پھر احساس نہیں کچھ لو گ تنہا رہنے کو تر جی دیتے ہیں یا یوں کہیے کہ
اپنے آپ میں مغن ، کسی سے کچھ لینا نہ کچھ دینا ، سو چو اگر ہمارے پو رخوں
نے یہی زندگی کا طرز عمل اپنا یا ہو تا تو دنیا کا حال کیسا ہو تا کیا سچ
میں ہم تر قی کر تے یا پھر جنگلو ں میں بھٹکے پھر تے ، انسان سما جی جا نور
ہے سماج سے لین دین اور سما جی تعلق ایک فطری عمل ہے ۔ کیا ہم سماج کے بغیر
زندہ رہ سکتے ہیں ؟نہیں بلکل نہیں ہم سماج میں رہتے ہوئے اپنے ہی فا ئدے کی
سو چتے ہیں اور سماج سے فا ئدہ اٹھاتے ہیں ۔ سماج کے لیے کیا کیا؟ اس کے با
رے میں ہم قطعی فکر مند نہیں ہیں ۔ اپنو ں کے لیے کیا کیا ؟آج کل تو بس بہا
نے کی تلاش میں ہو تے ہیں کہ اپنو ں سے تعلق کو کس طرح ختم یا پھر خراب کیا
جا ئے ۔ بس یہی فکر رہتی ہے کہ میں اور میرا خاندان یہ ہی میری دنیا اور
میری زندگی ،بس اسی سو چ سے ہماری زندگی کی گا ڑی کا سفر جا ری ہے اور شا
ید مر تے دم تک جا ری رہے گا یہ زندگی کا سفر ہماری مو ت کے سا تھ تھم جا
ئے گا ۔ کہ پیدا ہو ئے جئے اور بے نام ہی مر گئے ۔ نہ دین کے کام ، نہ اپنو
ں کے کام اور نہ دنیا کے کا م آئے ۔ یہی آ ج ہماری حقیقت ہے ۔
بھیگ ما نگتے لو گ ۔۔۔
بعض لو گ صحت مند ہو نے کے با وجو د بھی بھیگ ما نگتے ہیں ۔ وہ محنت اور
مزدو ری نہیں کر تے ہیں ۔ جس کی تر غیب دی گئی ہے اور بھیگ ما نگتے پھر تے
ہیں ۔ جس سے منع کیا گیا ہے ، آ ج حالت یہ ہو گئی ہے کہ صحت مند لوگ بھی
بھیگ ما نگنے کو اپنا پیشہ بنا چکے ہیں ۔ محنت اور مزدوری کریں ۔ کسی کے آ
گے ہا تھ پھیلانے سے بچئے، دینے والا ہا تھ لینے والے ہا تھ سے بہتر ہے ،
آپ دینے کا حوصلہ رکھیئے ۔ دینے وا لے بنیئے ،سب کی عزت نفس کا خیال رکھئے
، انا پر ستی اور گھمنڈ سے بچیئے۔سا دگی اور خاموشی کے ساتھ رہیے ۔کسی کو
حقیر مت سمجھیے،تکبر اور غرور سے بچیئے ،ریاکاری اور دکھلا وا کر نے سے
بچیئے ، جو لو گ معذور یا پھر وا قعی مجبو ر ہیں جو کسے کے آ گے ہا تھ نہیں
پھیلاسکتے انھیں ڈھو نڈئیے،سماج اور عوامی کا موں میں حصہ لیجئے ، عا جزی
اور انکسا ری اختیا ر کیجئے ، انسا نیت کی عزت کیجئے ۔
فحا شی اور عر یا نیت کو رو کیئے۔
مو جو دہ دور میں نئی اور نو جوان نسل بے راہ روی و عر یا نیت کی طرف منتقل
ہو رہی ہے ۔ بہت کم ہی گھر ایسے ہو نگے جہا ں فحا شی اور عر یا نیت کا
سیلاب نہ بہتا ہو ورنہ آ ج کو ئی گھر اور کو ئی جگہ فحا شی اور عر یا نیت
سے محفو ظ نہیں ہے ۔ مسلما ن بچے اور بچیا ں بگڑ رہے ہیں ۔ سب سے پہلے یہ
وا لدین کا فر ض بنتا ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کر لیں اور پھر اپنے بچو ں
کی اصلاح کی فکر کریں ۔ خود بھی فحا شی و عر یا نیت کے فتنہ سے بچیں اور
اپنے بچے و بچیو ں کو بھی فحا شی و عر یا نیت کے فتنہ سے بچا نے کی کو شش
کریں ۔ جلد شا دی کا ما حول بنا ئیں ۔ شا دی میں تا خیر کر نے سے ہی اتنی
زیا دہ فحا شی و عر یا نیت وجو د میں آ رہی ہے ، شا دی اگر مشکل ہو گی تو
پھر فحا شی و عر یا نیت اور زنا و شرا ب با لکل عام سستا ہی ہو تا جا ئیگا
، نو جوا ن نسل بد کا ری اور نشہ کی طرف جا رہے ہیں ۔ وا لدین ہوش کے ناخن
لیں ۔ بے ہو شی کی حا لت میں نہ رہیں ، اپنے بچو ں کے حقو ق کو پورا کریں
اور با لغ ہو نے پر ان کے نکا ح کی فکر کریں ۔ اپنی ذمہ دا ریا ں پو ری
کریں ۔ اپنی ذمہ دا ریو ں اور فرائض سے نہ بھا گیں ۔۔۔
|