ریٹنگ کی دوڑ میں بھاگتا بربیکنگ نیوز کلچر اور آہیں بھرتا پیس جرنلزم

 اور ناظرین آپکو بتاتے چلیں پشاور میں خودکش دھماکہ ہوا ہے جس میں ۲ افراد جاں بحق اور ۸زخمی ہوئے ہیں مزید تفصیلات جانتے ہیں ہمارے رپورٹر سے،،،،

ایسی خبریں زوردار میوزک اور لال رنگ کے ٹکرز کے ساتھ ہر چند دنوں میں دیکھنا ہماری زندگیوں کا حصہ ہے۔کسی بھی دل دہلا دینے والے واقعے کے رونما ہوتے ہی ہمار ا میڈیا سب سے پہلے خبر پہنچانے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں لگ جاتا ہے ۔ جہاں اس سے لوگ باخبر ہوتے ہیں وہیں اکثر یہ انتشار کا باعث بھی بنتا ہے۔خواہ وہ سماجی ہوں یا ذہنی۔

دسمبر کے انہی دنوں میں چند سال پہلے دل دہلا دینے والا آرمی پبلک اسکول میں رونما ہونے والا واقعہ قوم آج تک نہیں بھولی ۔لیکن اسے یاد کرتے ہی ذہن میں کیا آتا ہے خون میں لت پت چہرے، خون میں ڈوبا کلاس روم، ہر طرف بکھری گولیوں کے شیل غرض ہر وہ چیز جو انتشار پھیلاتی ہے۔ غم و غصہ کو فروغ دیتی ہے، دلوں کو دہلاتی ہے اور ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ایسے میں میڈیا ایتھکز کہیں دور کھڑی نظر آئیں اور یہ واقعہ ہمیشہ کے لئے اپنے نقوش ہمارے ذہنوں پرثبت کرگیا۔

صرف یہ ہی نہیں بلکہ حال ہی میں ہونے والا موٹروے حادثہ ہو یا انڈیا پاکستان کے بیچ جنم لیتی کشیدگی میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ نے ہمیشہ ہی قوم کے جذباتوں کو منتشر کیا ہے۔

میڈیا کو ریاست کا جوتھا پلر کہا جاتا ہے جس کا کرداراتنا ہی اہم ہے۔ میڈیا جہاں بروقت لوگو ں کوخبر پہنچا کر باخبر رکھنے کا کام کرتا ہے وہیں بریکنگ نیوز کی دوڑ میں جت کر انتشار پھیلاکے کا باعث بھی بنتا ہے۔ایسے میں پیس جرنلزم کی اہمیت اور کمی بیک وقت محسوس ہوتی ہے۔

انہی حالات کوبہتر بنانے کے لئے پیس جرنلزم کا تصور پیش کیاگیا ۔جس کا مقصد رپورٹنگ کے ذریعے امن کو فروغ دینا ہے۔

امن صحافت کا خیال سب سے پہلے جوہان گلتنگ نے انیسویں دہائی کے نصف میں پیش کیاجس کا نعرہ ــ’’امن سب کے لئے‘‘ تھا۔ان کا کہنا تھا کہ پیس جرنلزم یعنی امن صحافت سے دنیامیں امن کو فروغ ملے گا اور دنیا میں بھائی چارہ ، ہم آہنگی اور انصاف بڑھے گا ۔

پیس جرنلزم جہاں امن کو فروغ دیتا ہے وہیں جنگ یا انتشار کے عالم میں غیرجانبدارانہ رپورٹنگ کرکے صورتحال کو مزیدبگڑنے سے بھی روکتا ہے۔اس کی ایک مثال آپ ایک ہی واقعے میں مختلف ٹی وی چینل سے لے لیں بی بی سی اور پاکستانی ٹاپ ٹین چینلزکی رپورٹنگ میں زمین آسمان کا فرق آپکو دیکھنے میں مل جائیگا جہاں پاکستانی چینل پراس ہی بات کو اینکر چیخ چیخ کر بتا رہے ہونگے وہیں وہ خبر بی بی سی اردو پر شائستہ انداز میں دی جارہی ہوگی۔جس سے خبر بھی پہنچ جائے گی اور لوگوں کے ذہنوں پر منفی اثرات بھی نہ پڑیں گے۔

حالیہ دورمیں کورونا وائرس جو کہ ساری دنیا کے لئے آزمائش بنا ہوا ہے اس نے لوگوں کو کئی ماہ سے گھروں میں قید کرکے مایوسی اور ڈپریشن کو مزید ہوادی ہے وہیں غیر پیشہ ورانہ رپورٹنگ نے لوگوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے ۔

بات مذہبی جھگڑوں کی ہو یا لسانی میڈیا کی غیر ذمہ دارارنہ رپورٹنگ نے ہمیشہ ہی انتشار کو ہوا دی ہے۔افسوس کے ساتھ پیس جرنلزم جو کہ صحافت کی ایک شاخ ہے پاکستا ن میں اس سے منسلک کوئی ایک بھی رپورٹردیکھنے سے نہیں ملتا۔ایسے میں ہمیں چاہئے کہ پیس جرنلزم کو پروموٹ کریں ۔جس سے دماغوں پر بھی منفی ا ثرات نہ پڑیں اور لوگ صحیح خبر سے باخبر رہیں۔۔۔

 

Nabiha Ahmed
About the Author: Nabiha Ahmed Read More Articles by Nabiha Ahmed: 3 Articles with 1974 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.