دنیا بھر میں وبائی صورتحال کی وجہ سے اقتصادی سماجی
سرگرمیوں میں تعطل کے باعث بنیادی ڈھانچے کے منصوبے بھی متاثر ہوئے ہیں اور
تعمیراتی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہوئی ہیں۔پاکستان کے تناظر میں دیکھا
جائے تو سی پیک منصوبہ جات چین اور پاکستان کی مشترکہ کاوشوں کی بدولت
تیزرفتاری سے جاری ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ طے شدہ شیڈول کے مطابق
تمام منصوبوں کی تکمیل کی جائے۔سی پیک کی تعمیر و ترقی اس لحاظ سے بھی
اہمیت کی حامل ہے کہ یہ چین کے دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو ) بی آر آئی(کا
فلیگ شپ منصوبہ ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو چین کی جانب سے دنیا کی معیشتوں
کو آپس میں مربوط کرنے کا ایک عظیم وژن ہے جس کے تحت اس وقت پاکستان سمیت
دیگر درجنوں ممالک میں سینکڑوں تعمیراتی منصوبوں پر تیزی سے پیش رفت جاری
ہے۔
کووڈ۔19کے باعث بی آر آئی کی سرگرمیاں بھی عارضی طور پر متاثر ضرور ہوئی
ہیں مگر چین کی جانب سے جس موئثر انداز سے وبا پر قابو پاتے ہوئے نظام
زندگی بحال کیا گیا ہے ،اُس کی روشنی میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ بہت
جلد تعمیراتی سرگرمیاں مکمل طور پر بحال ہو جائیں گی۔ چین نے واضح کیا ہے
کہ بی آر آئی کے تحت بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے کا عزم غیر متزلزل
ہے، اگلے مرحلے میں ڈیجیٹل سلک روڈ کو ترجیح کے طور پر پیش کیا جائے گا ،
جس میں ای کامرس ، ڈیجیٹل ٹریفک کوریڈورز ، سرحد پار آپٹیکل کیبل انفارمیشن
چینلز اور چین۔ ایشیا انفارمیشن پورٹس شامل ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ وہ ترقی
پذیر ممالک کو اپنے ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے کی تیزرفتار تعمیر میں مدد فراہم
کرنا چاہتا ہے۔
چین بی آر آئی کے تحت دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک کی ترقی و خوشحالی کا
خواہاں ہے اور اس حوالے سے چین کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ ترقی کے ثمرات
کو صرف چند ممالک تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔یہی وجہ ہے کہ چین نے اپنے عملی
اقدامات سے ثابت بھی کیا ہے کہ وہ اشتراکی ترقی کے تحت دنیا کے سبھی ممالک
کو ترقی و خوشحالی کے سفر میں ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے۔
دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک کی پائیدار ترقی کے لیے چین کا ایک خاص وژن ہے
اور اسی سوچ کے تحت چین کے وزیر خارجہ وانگ ای چار جنوری سے افریقی ممالک
کے دورے پر ہیں۔انہوں نے چینی وزرائے خارجہ کی اُس روایت کو برقرار رکھا ہے
جس میں نئے سال کے موقع پر اولین بیرونی دورے میں ہمیشہ افریقی ممالک کو
مقدم رکھا جاتا ہے۔چینی وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ افریقہ نو جنوری کو
اختتام پزیر ہو گا جس میں وہ نائیجیریا ، جمہوریہ کانگو ، بوٹسوانا ،
تنزانیہ اور سیچلس کا دورہ کریں گے۔اس سےقبل چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے
2020 کے آغاز میں افریقی خطے کا روایتی دورہ کیا تھا اور اُس وقت مصر ،
جبوتی ، اریٹیریا ، برونڈی اور زمبابوے کا انتخاب کیا گیا تھا۔چین کی
افریقی خطے کے ساتھ شراکت داری کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے
کہ سال 2008 سے 2018 کے درمیان ، سینئر چینی رہنماؤں نے 43 افریقی ممالک کے
79 دورے کیےہیں۔ یہ چین۔افریقہ مضبوط تعلقات اور دونوں شراکت داروں کے
مابین قریبی تعلقات کی عمدہ عکاسی ہے۔
کووڈ۔19کے تناظر میں چینی وزیر خارجہ کا رواں دورہ گزشتہ ادوار کی نسبت
کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ وبائی صورتحال کے باعث ترقی یافتہ اور ترقی
پزیر ممالک کی اقتصادی اور سماجی ترقی سنگین طور پر متاثر ہوئی ہے جبکہ
افریقی خطے میں اکثر محدود وسائل کے حامل ممالک کو شدید معاشی دباو کا
سامنا ہے۔چین نے اس کٹھن صورتحال میں بھی افریقی ممالک کا بھرپور ساتھ دیا
اور انسداد وبا کے لازمی سامان کی فراہمی سمیت ورچوئل فورمز کے ذریعے نہ
صرف صحت عامہ کے ماہرین کو وبا کی روک تھام و کنٹرول سے متعلق رہنمائی
فراہم کی گئی بلکہ اہم افریقی رہنماوں سے ملاقاتوں کا تسلسل جاری رکھا ۔چین
نے نقل و حمل کے شدید چیلنجوں کے باوجود 53 افریقی ممالک میں انسداد وبا کا
سامان بر وقت پہنچاتے ہوئے افریقی خطے میں عوام کی زندگیوں کا تحفظ کیا ۔
چینی مخیر حضرات نے افریقہ میں وبا کی روک تھام و کنٹرول کے لیے عطیات
دیے۔چین کی جانب سے بھرپور معاونت اور امداد کی بدولت کمزور افریقی معیشتوں
کو ایک مضبوط سہارا ملا اور انہیں حقیقی طور پر چین کی شراکت داری کا احساس
بھی ہوا۔
چین کی کم ترقی یافتہ ممالک سے گہری وابستگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا
جا سکتا ہے کہ سال 2020 کے اواخر میں چین اور جی ٹونٹی کے دیگر رکن ممالک
نے کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے تناظر میں غریب ممالک کے ذمے واجب الادا
تمام قرضوں پر سود کی ادائیگی معطل کرنے پر اتفاق کیا،ان میں اکثریت افریقی
ممالک کی ہے ۔چین باہمی احترام ، اخلاص ، ٹھوس ثمرات ، ہم آہنگی اور نیک
نیتی کے اصولوں کی روشنی میں تمام تر مفادات سے بالاتر ہو کر کم ترقی یافتہ
اور پسماندہ ممالک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔چین چاہتا
ہے کہ ایسے ممالک کے ساتھ اس ٹھوس انداز سے تعاون کو آگے بڑھایا جائے کہ یہ
سبھی ممالک اقوام متحدہ کے دو ہزار تیس کے پائیدار ترقیاتی اہداف حاصل کر
سکیں اور چین کے ترقیاتی ثمرات سے مستفید ہوتے ہوئے خود کو ترقی کی راہ پر
گامزن کر سکیں۔
|