اِس دسمبر میں امی سے جدا ہوئے پورے بارہ سال ہوں جائیں
گے . ایک وقت تھا جب امی سے ایک دن بات نہیں ہوتی تھی تو دن نہیں گزرتا تھا
اور ہر وقت یہ ہی سوچ ہوتی تھی کے اللہ کرے کے امی سے پہلے میں چلا جاؤ
کیسے برداشت کر پاؤں گا یہ سب .
مگر آج بارہ سال گزر گئی اور زندگی گزرتی جا رہی ہے فیملی کی ذمہ داری یاں
پیچھے مڑ کے دیکھنے ہی نہیں دیتی .
میں اپنی امی کا صاحب سے چھوتا بیاتا ہوں شاید اسی لیئے امی کے بہت قریب
تھا . آج تک ان کا لمس محسوس ہوتا ہے ان کی خوشبو آتی ہے اکثر ایسا بھی
ہوتا ہے جب بھی میں اداس ہوتا ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کے امی میرے
پاس آ بیٹھی ہیں ان کا لمس ان کی خوشبو بہت زیادہ آتی ہے . ان کے پان کی
ایک خاص بھینی بھینی مہک تھی جو آج بھی آتی ہے .
میں پیار سے امی کو میری گڑیا ، شونی میری جانو کہتا تھا وہ بہت مسکراتی
تھیں اور مجھے یہ معلوم تھا کے خوش بہت ہوتی تھیں . میں امی کے بہت قریب
تھا جو باتیں وہ کسی سے نہیں کرتی تھیں ہو مجھ سے کرتی تھیں .
امی کے دوسرے بییتے ملک سے باہر تھے مجھ سے جب بھی خط لکھواتی تھیں تو مجھے
سب معلوم ہوتا تھا کے ایک ماں کیا کہنا چاہتی ہے میں ایسا خط لکھتا تھا
جیسے میں اپنے بچوں سے مخاطب ہوں ، شاید یہ ہی وجہ تھی کے وقت سے بہت پہلے
میرے اندر بہت حساسیاات آ گئی تھی .
ماں کی کمی کوئی پوری نہیں کر سکتا یہ ہو نعمت ہے جو صرف ایک بار ملتی ہے
پِھر ساری حیات یہ ہی انتظار رہتا ہے کے کب پِھر ملیں گے .
جب میں آسٹریلیا میں تھا اس وقت امی کینیڈا چلی گئی میرے دوسرے بھائی کے
پاس مگر ایک عمر کے بعد انسان کا دِل صرف اپنے گھر کے علاوہ کہی اور نہیں
لگتا ، شاید یہ ہی وجہ تھی کے امی دُنیا کے مختلف ملکوں میں رہنے کے باوجود
کہی نہیں رہ سکی اور واپس پاکستان آ گئیں .
آب مسئلہ یہ تھا کے ان کو اکییلے بھی نہیں چھوڑا جا سکتا اور کوئی واپس بھی
نہیں آ سکتا تھا .
میرا وہ بہت عروج کا دور تھا اور سامنے کامیابیان اور ایک بہتر اور روشن
مستقبل نظر آ رہا تھا مگر مجھے یہ سب بے مانع لگتا تھا کیوں ؟ہمیشہ یہ ہی
سوچ ہوتی تھی کے یہ وقت اگر گزر گیا تو جو موقع اللہ دے رہا ہے وہ دوبارہ
نہیں ملے گا سو میں نے واپس جانے کا فیصلہ کیا اور سب کچھ اگنور کر دیا .
میں امی سے ایک ہفتہ پہلے پاکستان آ گیا امی اس دوران سعودیہ اور ابو دھابی
بھی گیں مگر ان کا دل کہی نہیں لگا اور میرا واپس آنا ان کے لیے بوہت ضروری
تھا کیوں کے میں ان کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا بوہت مشکل فیصلہ تھا مگر
اللہ نے کروایا جس کا میں جتنا بھی شکر ادا کروں کم تھا کیوں کے امی کی نو
اولادوں میں سے یہ موقع اللہ نے مجھے دیا .
پاکستان آنے کے بعد پہلے ہفتہ مجھے بوہت مشکل لگا ویسے بھی جب آپ اچھے میں
رہنے کے عادی ہو جائیں تو آسان نہیں دوبارہ سے واپسی. لکن جب امی آیئں اور
ہم نے دوبارہ سے زندگی شوروں کی تو مزہ آنے لگا .
میرے پاس جو بھی جمع پونجی تھی می نے گھر کی شکل بدلنے می لگا دی امی کی
خوشی دیکھنے والی تھی میں نے امی کو بوہت کہا کے آپ بہن کے گھر چلی جائیں
جب گھر مکمّل ہو جی گا تو آ جائیں گا مگر وہ نہیں مانی کہنے لگی جب تم سب
کچھ چھوڑ سکھتے ہو تو ہم کیوں نہیں.
ہم لوگوں نے وہ وقت بوہت انجونے کیا اسے دوران میں نے امی سے کھانا بنانا
سیکھا کیوں میرے ہوتے ہوے امی کچن جائیں یہ مجھے اچھا نہیں لگتا تھا . خیر
گھر بنا ہم لوگ بوہت خوش تھے پھر مجھ پے یہ راز کھلا کے امی تو بوہت سخت
بیمار ہیں.
میں نے ان سے پوچھا کے یہ آپ کے واش روم می خون کہاں سے آیا تو کہتی تھی کے
ہم پان کھاتے ہیں نہ تو ووہی ہے. مگر میں نہیں مانا جب ہسپتال کی ساری
کاروائی پوری ہوئی تو یہ بری خبر ملی کے ان کو کینسر تھا اور جو خطرناک حد
تک پھل پھول رہا تھا . بوہت مشکل گھڑی تھی امی بوہت بہادر تھی ہمّت والی
اور مضبوط مگر ان کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی تھی جس طرح انھوں نے اگلے پانچ
سال مقابلہ کیا وہ سب دیکھا زندگی ہاتھ سے ریت کی ترھا پسلتی گی مگر ہم لوگ
کچھ نہیں کر سکے امی کو کبھی پتہ بھی نہیں چلنے دیا ان کی بیماری کا .
تیرہ دسمبر ٢٠٠٧ میں میں کینیڈا آ گیا اور پورے ایک مہینے بعد تیرہ جنوری
٢٠٠٨ کو امی یہ دنیا چھوڑ
گیں . میری بیوی اور میری بیٹی امی کے پاس تھے میرے دوسرے بھائی بہن بھی
تھے مگر می نہیں تھا میری بیوی کہتی ہے کے مجھے اللہ نے ہٹایا کیوں وہ سب
دیکھنا کسی قیامت سے کم نہیں تھا ایک اتنی مضبوط ماں کو ایسے دیکھنا پتھر
کا جگر چاہیے ہوتا ہے
ان کے انتقال سے ایک دن پہلے میری بہن نے سپیکر فون می مجھے لیا اور کہا کے
امی اب کچھ نہیں بول رہی آواز دو شاید رسپانس دیں می نے امی کو پکارا اور
کہا کے آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کے آپ ہمارے پاس آ جائیں گی آپ آ رہی ہے
نا ؟ تو فوران بولی ہم آیے گے مگر زندگی نے ان کو موقع نہیں دیا اور وہ چلی
گیں.
امی مرے خواب می بہت آتی ہیں مجھے اور میری بیوی کو اکثر اچنک سے امی کی
خوشبو آتی ہے اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ میرے پاس برابر میں بٹھی ہیں
مگر یہ قلق اب مرتے دم تک رہے گا کے کاش میں ان کے آخری لمحوں می ان کے
ساتھ ہوتا
ایک آہ بھری ہو گی ھم نے نہ سنی ہو گی
جاتے جاتے تم نے آواز تو دی ہو گی
ہر وقت یہ ہی ہے غم اس وقت کہاں تھے ہم
کہاں تم چلے گیۓ
موت ایک اٹل حقیقت ہے آگے پیچھے سب نے جانا ہے مگر اللہ کبھی ماں باپ کو
اتنی جلدی جدا نہ کرے. آج سب ہے مگر امی نہیں اب تو اصل مزا تھا ان کے پوتے
پوتی کے ساتھ وقت گزارنے کا خوش ہونے کا مگر اللہ کی جو مرضی آج میرے بچے
جس طرح مجھے بات بات پے گلے لگاتے ہیں اور جس تارہا مجھے چومتے ہیں مجھے
اپنا وقت یاد آ جاتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے وہ ہی وقت واپس چل رہا ہے.
اللہ مرے والیدیں کی بخسش کرے اور ان کو جنّت می بوہت اعلی مقام دے اور جن
کے والیدیں حیات ہیں ان کو یہ سمجھنے کی توفیق دی کے یہ وہ نعمت ہے جو
دوبارہ نہیں ملے گی آمین
سہیل سید
|