انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروں کی کمیوں
پرنظررکھتاہے،اسے اپناعیب نظرنہیں آتا۔ہمارے معاشرے میں یہ مرض کچھ زیادہ
ہی سرایت کرگیاہے اس لیے ہم دوسروں کے ردعمل پرچیخ پڑتے ہیں۔ ہر طرف
نفسانفسی کا عالم ہے انسان ہو کر انسانیت کا کوئی خیال نہیں ہے اور مسلمان
ہو کر مسلمان ہونے کا خیال نہیں ہے کیا بدلاو لاو گے تم دھرنا دے کر؟ کیا
حاصل کرنا چاہتے ہو؟ آزادی؟جاگو مسلمانو جاگو جاگنے کا مطلب نیند سے جاگنا
نہیں ہے اپنے ایمان کو جگاو اپنے اسلام کو جگاو اپنے دلوں میں قرآن کو جگاو
ایک سچا مسلمان بن کر دکھاو پھر دھرنا دو کے ہمیں اسلام کے قوانین کے تحت
نیک اور ایماندار حکمران چاہیے پھر دیکھو بدلتی ہے کے نہیں اس ملک کی تقدیر
بدلتے ہیں کے نہیں تمہارے حالات چپ چاپ تماشہ دیکھنے والوں میں سے رہو گے
تو ایک دن تم بھی تماشہ بن کے رہ جاو گے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ زندگی میں بہت سی اہم چیزوں کو بھی اہمیت نہیں
دی جاتی نہ ان کے فوائد و نقصانات پر کبھی توجہ دی جاتی ہے۔ رشتہ داریاں
بھی اسی زمرے میں آتی ہیں اگرخونی رشتوں کی بات کی جائے، تو ان کی اہمیت و
افادیت سے بھلا کس کو انکار ہو سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ شخص بہت خوش نصیب
ہوتا ہے، جسے اپنے میسر ہوتے ہیں، کیوں کہ خونی اور سگے رشتے قدرت کا
انتہائی خوب صورت اور لازوال عطیہ ہوتے ہیں، جن کی قدر ہم پر لازم ہوتی ہے۔
ایسے ہی رشتوں میں ایک رشتہ ’’بڑا بھائی‘‘ کا ہوتا ہے۔ زندگی میں رشتے ناتے
بہت اَن مول اور قیمتی ہوتے ہیں۔ ان کی حفاظت بھی کسی بیش قیمت سرمائے کی
مانند کی جاتی ہے، جس طرح ہم قیمتی چیزوں کا خیال رکھتے ہیں دنیا میں ماں
باپ کے بعد جو سب سے قریبی گہرا اپنائیت و خلوص سے لبریز منفرد بے مثال
خونی رشتہ ہے، وہ ہے بڑے بھائی کا رشتہ ہی ہے۔ بڑے بھائی کا درجہ والد جیسا
ہوتا ہے، کیوں کہ وہ شفقت و محبت کے حوالے سے مثل والد ہوتا ہے، جو اپنے
چھوٹے بہن بھائیوں کو ایک والدین کی طرح بہت پیار و محبت سے پروان چڑھاتا
ہے، جو ان کی نیند، ان کے کھانے پینے کا خیال رکھتا ہے۔ ان کی چھوٹی سے
چھوٹی تکالیف پر تڑپ اٹھتا ہے۔ ان کے بیمار ہونے کی صورت میں ماں کیطرح خود
بھی راتوں کو جاگتا ہے۔ ان کا خیال رکھتا ہے۔ ان پر جان نچھاور کرتا ہے اور
ان کے اچھے مستقبل اور اچھی زندگی کے لیے ہمہ وقت دعا گو رہتی ہے۔
بھائی چارے پر مشتمل معاشرے کی بنیاد باہمی محبت ہے۔بھائی اور بہن کا رشتہ
اٹوٹ رہتاہے۔ بھائی کو کچھ ہو جائے تو بہن رونے لگتی ہے جبکہ بہن پر کوئی
آفت آجائے تو بھائی بے قرار ہوجاتا ہے۔ بچپن میں بھائی اور بہن آپس میں
لڑتے اور جھگڑتے رہتے ہیں اور پھر کچھ دیر بعد دونوں گھل مل بھی جاتے ہیں۔
بچپن میں بھائی بہن کی لڑائیوں سے گھر کی رونق برقرار رہتی ہے ان بچپن کی
لڑائیوں کو پیار ومحبت کی علامت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اسی پر بڑی بہن اور چھوٹی بہن کو قیاس کرلینا چاہیے۔ اپنے سگے اور خونی
رشتوں سے دوری کی ایک وجہ بدگمانیاں اور غلط فہمیاں بھی ہیں۔ بعض اوقات
ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی تیسرا فریق بہن بھائیوں کے درمیان غلط فہمیاں
پیدا کر دیتا ہے، جس کی بدولت بھائیوں اور بہنوں کے درمیان بدگمانی ہو جاتی
ہے اور بہن بھائی ایک دوسرے سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ عموماً ایسا
بھی ہوتا ہے کہ جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں، تو اپنے ماموں اور خالہ کی شکایات
وہ اپنے ماں سے کرنے لگتے ہیں، جب کہ مائیں بہ جائے اپنے بچوں کو اس عمل سے
باز رکھنے کہ، الٹا اپنی بہن یا بھائی سے ناراض یا بد گمان ہونے لگتی ہے۔
اس طرح کا طرز عمل ایک دن آپ کو آپ کے پیارے رشتوں سے دور لے جاتا ہے،
لہٰذا اس ضمن میں ہمیں اپنا رویہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔یاد رکھیے، اگر ہم
نے اپنے رشتوں کی قدر نہیں کی، تو پھر ہماری قدر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے
گی اور ہم تہی دست رہ جائیں گے۔ضرورت اس امر کی ہے ہمیں اپنی ماں باپ بہن
بھائیوں اور اچھے دوستوں کے ساتھ ہمیشہ حقوق کا خیال رکھنا چاہئے اور اچھے
اخلاق سے پیش آنا چاہئے ۔ اسی میں اتحاد اور اتفاق دنیا اور آخرت کی
کامیابی کا زارہے اور یہی لوگوں آپ کے بے مثال خونی رشتے ہیں۔
|