تحریر: شہروزہ وحید، گوجرانوالہ
ہماری زندگی اور ہمارا کردار بنیادی طور پر ہماری عادات کا مجموعہ ہے۔ ایک
کہاوت ہے کہ ’’ایک سوچ بوؤ اور ایک عمل کاٹو، ایک عمل بوؤ اور ایک عادت
کاٹو، ایک عادت بوؤ اور ایک کردار کا ٹو، کردار بوؤ اور قسمت کاٹو۔‘‘ عادات
ہماری زندگیوں میں طاقتور عوامل کا درجہ رکھتی ہیں، کیوں کہ وہ غیر محسوس
طریقے سے ہمارے کردار پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ عادات سیکھی اور بھلائی بھی
جا سکتی ہیں۔ جدید نفسیات کی ریسرچ کے مطابق زندگی میں جو کچھ بھی کرتے
ہیں، اس میں 95 فیصد کا انحصار آپ کی عادتوں پر ہے۔ ایک اور ریسرچ کے مطابق
ہمارا 90 فیصد نارمل رویہ عادات پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔
کامیاب لوگ اچھی عادات رکھتے ہیں جبکہ ناکام لوگ بڑی عادات کا شکار ہوتے
ہیں۔ اچھی عادات اپنانا مشکل ہے، مگر اچھی عادات کے ساتھ زندگی گزارنا بہت
آسان ہے۔ اس کے برعکس بڑی عادات اپنانا آسان ہے، مگر ان کے ساتھ زندگی
گزارنا بہت مشکل ہے۔ اس وقت آپ جو بھی عادات رکھتے ہیں، آپ کی موجودہ زندگی
آپ کی انہی عادات کا ثمر ہے۔ آپ کے مستقبل اور معیار زندگی کا انحصار آپ کی
عادات پر ہوگا، یعنی آپ کی عادات آپ کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہیں۔ درحقیقت
آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں، وہ کسی عادت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ آپ جیسا انسان بننا
چاہتے ہیں، اس میں سب سے بڑی رکاوٹ آپ کی عادات ہیں۔ اگر آپ بہت کامیاب
ہونا چاہتے ہیں، تو آپ کو اپنی بعض عادات ترک کرنا ہو گی۔ مثلاً، دیر سے
اٹھنا، محنت سے جی چرانا، کام میں بہت لیت و لعل کرنا، جلدی فیصلہ نہ کرنا،
غیر مستقل مزاج ہونا اور زیادہ ٹی وی دیکھنا وغیرہ۔ کامیابی کے لیے آپ کو
ان عادات کی بجائے، اچھی عادات اپنانا ہوں گے۔ کامیاب لوگ مندرجہ ذیل اچھی
عادات رکھتے ہیں۔ اگر آپ بھی کامیاب ہونا چاہتے ہیں، تو آپ کو بھی یہ عادات
اپنانا ہوں گی۔
کامیاب ہونے کے لیے ’’ایمان دار ہونا‘‘ ضروری ہے۔ مشہور ریسرچ اسکالر
’’ڈاکٹر تھامس اسٹینلے‘‘ نے کامیابی کی وجوہات میں ایمان داری کو سر فہرست
قرار دیا ہے۔ کامیابی خصوصاً مالی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ ایمان داری ہے۔
ایک ریسرچ کے مطابق، امریکا میں 98 فیصد بزنس مین ایمان دار ہیں۔ ہمارے ہاں
بدقسمتی سے اکثریت بددیانت ہے۔ جب کے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا
’’سچے اور امانت دار تاجر کو (آخرت میں) نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کی رفاقت
نصیب ہوگی۔ (ترمذی)
ایمان داری کا مطلب یہ ہے کہ آپ کبھی اپنے حصے سے زیادہ نا لیں، اور کسی
طرح اس چیز کو قبول نہ کریں، جس پر آپ نے محنت نہیں کی۔ بد دیانتی کی بہت
سی صورتیں ہیں۔ مثلاً ، کم تولنا، کم ماپنا، اچھی چیز کہہ کر خراب چیز دینا
وغیرہ۔ بددیانتی کبھی چھپی نہیں رہتی، آج نہیں تو کل پکڑی جائے گی۔
بددیانتی کی بنیاد جھوٹ ہے۔ مومن کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا یہ نہ صرف گناہ
کبیرہ ہے، بلکہ اس کے اور بھی بہت سے نقصانات ہیں۔ اس سے فرد کی ساری ایمان
داری مشکوک ہو جاتی ہے۔ اگر فرد کو زندگی کے ایک شعبہ میں جھوٹ بولنا پڑے،
تو دوسرے شعبوں میں بھی بولنا پڑے گا۔ جھوٹ کبھی چھپا نہیں رہتا اور جب ایک
بار پکڑا جائے تو فرد کی ہر چیز مشکوک ہو جاتی ہے۔
اس کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے دوسرے بہت سے
جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ جب ہم لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں، تو اپنے آپ کو اسمارٹ
اور ہوشیار محسوس کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ طاقت اور کنٹرول کا احساس بھی
محسوس کرتے ہیں مگر درحقیقت یہ احساسات بالکل عارضی ہوتے ہیں اور جب جھوٹ
پکڑا جاتا ہے، تو ہماری ہر چیز تباہ ہو جاتی ہے۔ اگر آپ دنیا اور آخرت میں
کامیابی چاہتے ہیں، تو ایمان دار بنیں۔ یہ آپ کے لیے کامیابی کے بہت سے
دروازے کھول دے گی۔
شکر ایک اسلامی صفت ہے۔ ہمیں ہر حال میں شکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’شکر
گزاری‘‘ جس کے بارے میں اﷲ تعالی فرما رہے ہیں کہ جو شخص جس نعمت پر شکر
کرے گا، میں اسے وہ نعمت اور زیادہ دوں گا۔ شکر گزاری، درحقیقت احساس کا
نام ہے۔ یہ زبان سے نہیں اپنے عمل سے ہوگا، احساسات عمل سے پیدا ہوتے ہیں۔
ہمارے ذہن میں شکرگزاری کا یہ تصور بیٹھا ہوا ہے کہ 100 دفعہ شکر الحمد ﷲ
پڑھنا ہے یا اگر کسی نے حال پوچھا ہے تو جواب میں شکر الحمد ﷲ کہنا ہے۔
چاہے وہ شکر محسوس ہو یا نہ ہو، صرف تسبیح پڑھ لینا، جواب میں شکر کہہ
لینا، شکر نہیں ہے۔ شکر گزاری کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالی نے جو دیا ہے، وہ
اﷲ تعالی کی راہ میں استعمال ہو۔ زندگی میں اﷲ تعالی کے وعدے کے مطابق
شکرگزار کو ملتا ہے، خوب ملتا ہے۔ شکر گزاری کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ
اﷲ تعالی نے جو نوازشیں، جو آسانیاں، جو نعمتیں عطا کی ہیں، وہ دوسروں میں
بھی بانٹنا شروع کر دیں۔ اپنے رویے سے، انداز سے، اپنے برتاؤ سے شکر گزار
بنیں، کیوں کے برتاؤ (عمل) سے پتا چلتا ہے کہ بندہ کتنا شکرگزار ہے؟ مثلاً:
ایک برتاؤ ادب ہے۔ جو آدمی ادب نہیں کرتا، وہ شکرگزار نہیں ہو سکتا۔ جو
احترام سے بات نہیں کر سکتا، وہ شکر گزار نہیں ہو سکتا۔ جو اپنے رزق میں
دوسروں کو شامل نہیں کرتا، وہ شکرگزار نہیں ہو سکتا۔
آپ شکر گزار بھی ہو سکتے ہیں، اور ناشکرے بھی۔ ناشکرے بنیں گے، تو کچھ حاصل
نہ کر سکیں گے۔ شکر گزار بنیں گے، تو اﷲ تعالی کی بے شمار نعمتوں سے مستفید
ہوں گے۔ تو پھر کیوں نہ شکر گزار بنیں لہٰذا آپ جو کچھ حاصل کرنا چاہتے
ہیں، اسے حاصل کرنے اور مزید حاصل کرنے کے لیے اپنے رب کا شکر ادا کریں۔ نہ
صرف شکر ادا کریں، بلکہ شکر کے بھرپور احساسات بھی محسوس کریں۔ بغیر
احساسات کے شکرگزاری زیادہ مؤثر نہ ہوگی۔ جو چیزیں آپ کے پاس ہیں اور آپ
اسے زیادہ مقدار میں حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو جو موجود ہے اس کے لیے اپنے
رب کا بے حد شکر ادا کریں۔ جس چیز کے لیے ہم شکر ادا کرتے ہیں، وہ حاصل ہو
جاتی ہے۔ اپنے رب کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لیے ان نعمتوں کی فہرست
بنائیں، جن کے لیے آپ اپنے رب کریم کے شکر گزار ہیں۔ مثلاً: بینائی، سماعت،
چلنا پھرنا، دوڑنا، اچھی صحت، اچھی تعلیم، چھوٹی یا بڑی کامیابی اور معمولی
اور غیر معمولی خوشحالی وغیرہ۔ اس فہرست میں ہر وہ چیز شامل کریں، جس کے
لیے آپ شکر گزار ہیں۔ خصوصاً وہ چیزیں جو آپ حاصل کرنا یا مزید حاصل کرنا
چاہتے ہیں۔ جب بھی موقع ملے، اﷲ کی نعمتوں کے لیے، اپنے رب کے بے حد شکر
گزار ہوں۔ ساتھ ہی شکرگزاری کے بھرپور احساسات بھی محسوس کریں۔
صبر کرنا بھی ’’کامیاب لوگوں کی ایک اہم خوبی‘‘ ہے۔ جب ہم ’’صبر‘‘ کرتے
ہیں، تو چیزیں تیزی سے ہماری طرف آتی ہیں۔ بہت سے بزنس مین اس چیز کی تصدیق
کرتے ہیں، کہ بعض اوقات بہترین چیز صرف انتظار کرنا ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر
کچھ نہ کچھ اہم ترین کرنا ہوتا ہے۔ جو لوگ اس چیز کو نہیں سمجھتے وہ کوشش
کرتے رہیں گے اور حالات کو خراب کر لیں گے۔ صبر کرنے سے مراد یہ نہیں کے آپ
آنکھیں بند کر کے، ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر، پر امید ہو کر انتظار کرتے رہیں۔
انتظار بامقصد ہو۔ یہ نئی معلومات اکٹھی کرنے اور مناسب منصوبہ بندی پر
مشتمل ہو۔ اگر آپ صبر نہیں کریں گے اور بے صبری کا مظاہرہ کریں گے، تو آپ
کو ناکامی کا سامنا ہوگا۔ غرور، حرص اور لالچ بیصبری کی سب سے بڑی وجوہات
ہیں۔ ہر فرد جلد کامیاب ہونا چاہتا ہے، جبکہ کامیابی صبر مانگتی ہے۔ بے
صبری کی وجہ سے اکثر بڑی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ یہ بات یاد رکھیں، کوئی بھی
مقصد جلد حاصل نہیں ہوتا۔ کسی اہم منزل کی طرف کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ صبر
کریں، ان شاء اﷲ آپ کو منزل جلد مل جائے گی۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا
ارشاد ہے ’’خدا اس کے ساتھ ہے، جس نے صبر کیا۔‘‘ دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
’’جس نے صبر کیا، وہ کامیاب ہوا۔‘‘
آپ کے پاس جو کچھ ہے، وہ دوسروں کو بھی دیں۔ لوگوں کو اس میں ’’شریک
کریں۔‘‘ یہ صرف مادی چیزیں ہی نہیں ہوتی، لوگوں کو اپنا وقت دیں، مسکراہٹ
دیں، کسی کی بات کو غور سے سن لیں، اپنے آئیڈیے میں کسی کو شریک کریں، تاکہ
وہ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ بنیادی طور پر اﷲ تعالی نے آپ کو جو نعمتیں
دی ہیں، اردگرد کے لوگوں کو اس میں شریک کریں۔ اﷲ تعالی کے ارشاد کے مطابق
ہم جو کچھ دیتے ہیں، اس سے 10 گنا یا کم از کم اس سے کئی گنا ہمیں اس دنیا
میں مل جاتا ہے لیکن دیا صرف اﷲ تعالی کی رضا کے لیے جائے، نہ کہ بدلے کے
لیے، یا نمود و نمائش اور واہ واہ کے لیے، دیتے وقت ہمارا رویہ یہ ہونا
چاہیے کہ ہمیں صرف اﷲ کی رضا کے لیے دوسروں کی مدد کرنی ہے۔ اس کے بدلے کسی
چیز کی توقع نہیں کرنی ہے۔ سائیکالوجی کی ریسرچ سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ جب
بھی آپ اﷲ تعالی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، تو اﷲ تعالی کئی گنا زیادہ
لوٹاتا ہے۔ جو کچھ ہم کماتے ہیں اس سے صرف زندگی چلتی ہے، مگر جو کچھ ہم
دیتے ہیں اس سے ہماری زندگی بنتی ہے۔ کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو
لوگوں کو کامیاب ہونے میں مدد دیں۔ خوشحالی چاہتے ہیں، تو دوسروں کو خوشحال
ہونے میں مدد دیں۔
کامیابی کے لیے ’’خطرہ مول لینا‘‘ لازم و ملزوم ہے۔ کوئی اہم اور بڑی
کامیابی رسک لیے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ اگر آپ عظیم کامیابی حاصل کرنا
چاہتے ہیں، تو آپ کو بہادر بننا ہوگا۔ خوف کے بغیر کوئی فرد بہادر نہیں
ہوتا۔ بہادری اس وقت ہو گی، جب آپ کو خوف ہو، مگر اس کے باوجود آپ عملی
اقدام کریں۔ بہادر بنیں، مگر بے وقوف نہ بنیں۔ بے وقوفی اور بہادری میں یہ
فرق ہے کہ بہادری میں ہم حالات کا اچھی طرح جائزہ لیتے ہیں۔ تمام معلومات
اکٹھی کرتے ہیں، اور پھر خوف کے باوجود عملی قدم اٹھاتے ہیں۔ حماقت میں ہم
حالات کا جائزہ نہیں لیتے، تیاری نہیں کرتے، بلکہ عملی اقدام اٹھا لیتے
ہیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ بے وقوف کو خطرے کا علم نہیں ہوتا، جبکہ بہادر فرد
کو خطرے کا پورا علم ہوتا ہے، پھر بھی وہ کچھ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔
عموماً لوگ بہادر نہیں ہوتے، بلکہ خوف زدہ ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات خوف نہ
معلوم ہوتا ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ شاید حالات اور چیزیں خراب ہو جائیں گی۔ اس
کے علاوہ بیعزتی اور توہین کا خوف ہوتا ہے۔
ناکامی کی صورت میں شرمندگی کا خوف ہوتا ہے۔ اگر آپ نے کامیاب ہونا ہے، تو
ناکامی کا سامنا کریں۔ اس سے سبق سیکھیں۔ جو کچھ سیکھیں، پھر ان کی بنیاد
پر نئے سرے سے کام شروع کریں۔ کمزور دل افراد کبھی نہیں جیتے، جبکہ کامیابی
کی بنیادی خاصیت بہادری ہے۔ لہذا اگر آپ نے کامیاب ہونا ہے، تو بہادر بنیں
اور ان لوگوں میں شامل ہوجائیں، جنہوں نے خطرات مول لیے، اور کامیابیاں
حاصل کیں۔
ہمارے حالات، ہماری کامیابی اور ناکامی ہماری عادات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ
ہماری انتہائی خوش قسمتی ہے، کہ عادتوں کو بنانا یا ختم کرنا ہمارے اختیار
میں ہے۔ عادت کی وجہ سے کوئی کام خود کار اور آسان ہو جاتا ہے۔ اچھی بات یہ
ہے کہ تمام عادات سیکھی جا سکتی ہیں۔ عموماً ایک نئی عادت کو اپنانے میں 21
تا 40 دن لگتے ہیں۔ اگر آپ زندگی میں مؤثر اور کامیاب ہونا چاہتے ہیں، تو
اپنی عادات کو بہتر سے بہتر بنائیں۔ اوپر بیان کی گئی پانچ عادات کو اگر
اپنی ذات کا حصّہ بنا دیا جائے، تو یہ مؤثر باہمی تعلقات کے قابل بنا دیتی
ہیں۔ ان کے ذریعے آپ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ اپنے تباہ کن رویوں اور
پرانی عادات کو نئی پراثر اور خوش کن عادات سے تبدیل کر سکتے ہیں، اور اپنے
تعلقات میں اعتماد لا سکتے ہیں۔
|